’’مجھ پر ایک عجیب بات کاانکشاف ہوا ہے ۔جب بھی میں کسی بے حد سیانے اور عالم فاضل شخص سے بات کرتا ہوں تو مجھے یقین ہوجاتا ہے کہ دنیا میں خوشی کا حصول اب ممکن نہیں رہا۔ لیکن جب میں اپنے باغبان سے بات کرتا ہوں تو میرا یقین بالکل اُلٹ جاتا ہے۔‘‘ برٹرینڈ رسل۔
رسل نے یہ بات شاید ساٹھ ستّر برس قبل کہی تھی مگر آج کے دور نے اسے سچ ثابت کردکھایا ہے۔اِس سے پہلےکہ میں کچھ اور لکھوں ،یہ وضاحت ضروری ہے کہ میرا موضوع خوشی کا حصول نہیں بلکہ مسرت کا وہ ناقص تصور ہے جو جدید دنیا میں قبولیت پا چکا ہے اور جس کے نتیجے میں ہماری زمین اِس وقت تباہی کے دہانے پر ہے۔ خوشی کایہ تصور کیا ہے؟ اِس تصور کی رُو سے زندگی میں آگے بڑھتے چلے جانا، اپنی خواہشات کی تکمیل کرنا اور اِس ہدف کو پانے کیلئے مسلسل محنت کرنا ہی خوشی کی معراج ہے۔ خوشی کے اِس تصور سے ہماری جو خواہشات جڑی ہیں اُن سب کا تعلق جدید دور کی آسائشوں سے ہے، جیسے ہوائی جہاز کا سفر، مہنگے پہناوے، پُر تعیش ریستورانوں میں کھانے،عالیشان گھر کی ملکیت، گاڑیاں، موبائل فون ….اِس فہرست کو ہر شخص اپنی ترجیحات کے مطابق تبدیل کر سکتا ہے مگر آپ جو بھی فہرست بنائیں گے لا محالہ اُس میں سے ایک بات ضرور نکلے گی اور وہ ہوگی ترقی کی خواہش، اسے انگریز ی میں ’گروتھ‘ کہتے ہیں۔ گروتھ کی یہ خواہش انفرادی ہی نہیں بلکہ اجتماعی سطح پر بھی شدید ہے، اسی وجہ سے ہر ملک اپنے گروتھ ریٹ یعنی شرح نمو کے بارے کافی حساس ہوتا ہے۔ سو، گروتھ کایہ تصور خوشی کے حصول کے ساتھ جُڑ چکا ہے، اور یہ تصور صرف انسانوں میں ہی پایا جاتا ہے جنہوں نے غیر محسوس طریقے سے یہ طے کر لیا ہے کہ اِس کرہ ارض پر صرف ہماری خوشی اہم ہے لہٰذا اپنی مسرت کے حصول کے نتیجے میں اگر دیگر جانداروں کی نسلیں ناپید بھی ہوجائیں تو پریشانی کی بات نہیں۔ خوشی اور گروتھ کے اِس تصور کی وجہ سے جب دنیا میں مختلف جانوروں کی نسلیں ختم ہونے لگیں، ماحولیاتی آلودگی میں تباہ کُن اضافہ ہونے لگا اور سائنس دانوں نے اندازہ لگایا کہ اگر ہمارے یہی لچھن رہے تو یہ دنیا بہت جلد ختم ہو جائے گی تو پھر اقوام ِ عالم سر جوڑ کر بیٹھیں اور آپس میں کچھ معاہدے کر لیے جن میں طے پایا کہ دنیا کے ممالک کاربن کے اخراج میں کمی کیلئے ٹھوس اقدامات کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل اگر آپ کسی ایپ کے ذریعے ہوائی جہاز کی ٹکٹ خریدیں تو وہ ایپ بتاتی ہے کہ جس جہاز میں آپ سفر کریں گے اُس کا کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج پہلے سے کتنا کم ہو چکا ہے۔ ایک طرح سے یہ ہوائی کمپنی کی جانب سے اِس امر کا اظہار ہے کہ کمپنی کرہ ارض کے بارے میں کس قدر فکر مند ہے اور اُس کی راتوں کی نیند اڑی ہوئی ہے کہ کس طرح کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو کم کیا جائے۔ اسی طرح اگر آپ یورپ یا امریکہ میں نشر ہونے والےاشتہارات کا جائزہ لیں تو اُن میں بھی مختلف کمپنیاں آپ کو یہ باور کرواتی نظر آئیں گی کہ ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنا اُن کی اولین ترجیح ہے اور اِس ضمن میں وہ اپنا بھرپور کردار ادا کررہی ہیں، جیسے کپڑے بنانے والی کمپنی بتائے گی کہ اُس کے سامان کی ترسیل بجلی سے چلنے والے ٹرکوں کے ذریعے کی جاتی ہے ،وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہ سب ڈھکوسلہ ہے۔ ایک جہاز سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج 12فیصد تک کم تو ہوگیا ہے مگر دنیا میں روزانہ تقریباً ڈیڑھ لاکھ جہاز اُڑتے ہیں، آج سے پچاس سال پہلے یہ تعداد کئی گنا کم تھی۔ کپڑوں کے مختلف عالمی برانڈ اب بجلی کے ٹرکوں کے ذریعے سامان کی ترسیل ضرور کرتے ہیں مگر یہ کپڑے بنانے میں ماحول کا جو بیڑا غرق ہوتا ہے اُس کا ذکر اپنے اشتہارات میں نہیں کرتے۔ آپ یوں سمجھیں کہ ماحولیاتی آلودگی سے نمٹنے کیلئے اِن اقدامات سے ماحولیاتی آلودگی کو اتناہی فرق پڑتا ہے جتنا سمندر میں میٹھا پانی ملانے سے پڑتا ہے۔
اِس مسئلے کا حل ڈی گروتھ میں ہے۔ جن مغربی ممالک نے کرہ ارض کو رہنے کے قابل نہیں چھوڑا، اب یہ انہی کی ذمہ داری ہے کہ اپنی گروتھ کو لگام دیں۔ اِن ممالک کی شاہ خرچیوں کا اندازہ اِس بات سے لگائیں کہ ایک اوسط امریکی پر جتنی توانائی خرچ ہوتی ہے اگر اتنی باقی دنیاکی آبادی پر بھی خرچ ہونا شروع ہو جائے تو ہمیں رہنے کے لیے زمین جیسے پانچ سیارے درکار ہوں گے۔اِن نام نہاد ترقی یافتہ ممالک نے ہی یہ رواج ڈالا ہے کہ چیز خراب ہو جائے تو پھینک کر نئی خرید لو، ہر موسم بلکہ ہر ماہ نئے کپڑے بنواؤ اور اپنی خواہشات کی تکمیل کیلئے زیادہ سے زیادہ پیسے کماؤ۔ انہیں چونکہ یہ اندازہ ہوگیا ہے کہ اِن حرکتوں کی وجہ سے کرہ ارض تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے سو اب انہوں نے ایک نئی اصطلاح متعارف کروائی ہے جسے Sustainable Growth کہا جاتا ہے۔ ہوائی جہازوں سے کاربن کا کم اخراج اور الیکٹرک کاریں، سب اسی کا شاخسانہ ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے، میرا کہنا یہ ہے کہ ماحولیاتی آلودگی میں جتنا حصہ اِن مغربی ممالک نے ڈالا ہے، اُس کو کم کرنے کیلئے Sustainable Growth کاماڈل ناکافی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ کہیں کہ میں آملیٹ تو کھاؤں گا مگر کوئی انڈا نہیں توڑوں گا۔ مغربی دنیا کو ڈی گروتھ کرنی ہو گی اور Minimalist طرز زندگی اپنانا ہو گا۔ اِس کا یہ مطلب نہیں کہ انسان غاروں میں منتقل ہو جائے اور کپڑوں کی جگہ پتوں سے اپنا بدن ڈھانپنا شروع کر دے۔ اِس سے کہیں بہتر طریقے سے بھی رہا جا سکتا ہے مگر جس انداز میں حضرت ِانسان اِس وقت زندگی گزار رہے ہیں، ہماری زمین زیادہ عرصے تک اُس کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ سو، اِس کا حل یہ ہے کہ کم سے کم انسانی ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے زمین پر اتنی ہی پیدوار کی جائے جتنی یہ زمین برداشت کر سکتی ہے، صرف اسی صورت میں یہ امکان ہے کہ کرہ ارض چند سو سال اور نکال لے ورنہ یہ سفر رائیگاں تو ہے ہی۔
جدید تصورِ خوشی کے مطابق ’انفرادیت سب سے اوپر ہے، فرد کی خوشی مقدم ہے اور خریداری ہر شخص کا حق ہے۔‘ اِس تصور نے انسان کو نہ صرف خود غرض بنا دیا ہے بلکہ زمین کو بھی تباہ کر دیا ہے، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ انسان کا زندہ رہنے کا حق، اُس کے حقِ خریداری سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ زمین ہی نہ رہی تو شاپنگ کہاں کریں گے؟