Site icon DUNYA PAKISTAN

پاکستان میں ہیٹ ویو: بچوں کو شدید گرمی اور بیماری سے بچا کر رکھنے کے پانچ طریقے

Share

جسم کو جھلسا دینے والی دھوپ، بے تحاشہ پسینے کا اخراج اور گرم ہوا کے جھکڑ۔ شاید اسی موسم کے بارے میں کہا گیا تھا کہ گرمی ایسی کہ جب چیل بھی انڈہ چھوڑ دیتی ہے۔

یاد رہے کہ محکمہ موسمیات کے مطابق جون میں بھی گرمی کی شدت کی ایسی ہی صورت حال برقرار رہنے کا امکان ہے۔ این ڈی ایم اے کی زارا حسن نے بتایا کہ دو ہیٹ ویو مئی کے مہینے میں اور ایک جون میں آنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔

ان دنوں جب ملک کے طول و عرض میں شدید گرمی پڑ رہی ہے اور مجموعی درجہ حرارت میں چارسے آٹھ ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ سامنے آ رہا ہے، ایسے میں اگر آپ کا بچہ چرچڑا ہو جائے یا سر درد کی شکایت کرے تو اس بات کو ہرگز ہلکا نہ لیں کیونکہ یہ اس بات کی پہلی علامت ہو سکتی ہے کہ آپ کا بچہ ’گرمی کی تھکاوٹ‘ (Heat Exhaustion) کا شکار ہو گیا ہے۔

پاکستان کے بیشتر حصوں میں اس غیر معمولی گرمی کے باعث معمولات زندگی تو شدید متاثر ہو ہی رہے ہیں۔ لیکن اگر آپ کے گھر میں چھوٹے بچے ہیں تو آپ کو ان کا دھیان ایسے میں اور بھی زیادہ رکھنا ہو گا اور انھیں گرمی کے اثرات سے بچانے کے لیے چند باتوں پرکڑی نظر بھی رکھنا ہو گی تاکہ گرمی کی تھکاوٹ آپ کے جگر گوشوں کو شدید بیمار نہ کر دے ۔

اس مضمون میں ہم نوزائیدہ بچوں سے لے کر سکول جانے والی عمر تک کے بچوں کو گرمی لگ جانے کی علامات اور اس کی احتیاط کے ساتھ بچوں کے لیے مفید غذا کے بارے میں بھی بات کریں گے۔

گرمی کی تھکاوٹ کو جانچنا

گرمی کی شدت کے تناظر میں سب سے پہلے بات کر لیتے ہیں بچے میں آنے والی ان علامات کی جن پر ان دنوں کڑی نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے۔

اسلام آبار کے شفا انٹرنیشنل ہسپتال کے پیڈز سپیشلسٹ (ماہر اطفال) ڈاکٹر علی نے مختلف عمر کے بچوں میں ظاہر ہونے والی علامات اور احتیاط کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا۔ ان کے مطابق چلچلاتی گرمی کے دوران اگرآپ کو محسوس ہو کہ:

تو یہ وہ علامات ہیں جن کو دیکھ کر آپ جان جائیں کہ بچہ گرمی کی تھکاوٹ کا شکار ہو گیا ہے جو بنیادی طور پر ہیٹ سٹروک سے پہلے کی کیفییت ہے۔

اس کیفیت کو جان کر آپ چند باتوں پر فوری عمل کر کے بچے کی صحت کو بڑے خطرے سے دور رکھ سکتے ہیں۔

چھ ماہ تک کے بچوں کو گرمی کی شدت سے بچانے کی آسان تجاویز

،تصویر کا کیپشنبچے کو گرمی لگنے کی صورت میں فوری طور پر اس کے کپڑے کم سے کم کر دیں اور اگر وہ بریسٹ فیڈ پر ہیں تو ماں بار بار بچے کو دودھ پلائے

ڈاکٹر مظہرعلی نے ہمارے سوال کے جواب میں مزید بتایا کہ نوزائیدہ اور چند ماہ کے بچے کیونکہ اپنی کیفییت اور احساسات کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتے تو ایسے میں ان کے معمولات میں تبدیلیوں پر نگاہ رکھیں۔

’اگر بچے کی عمر چھ ماہ تک ہے اور وہ گرمی کا شکار ہو گیا ہے تو وہ بچہ چڑچڑا اور بے آرام ہو گا، وہ نیند پوری نہیں لے گا، اس کا جسم گرم ہوگا، ایسے میں سب سے پہلے اس کو آرام دہ حالت میں لائیں اوربچے کے جسم کا درجہ حرارت معمول پر لانے کی کوشش کریں۔‘

اگر بچے کی عمر چند ماہ ہے اور وہ ماں کے دودھ کے علاوہ غذا لیتا ہے تو بچے کو پانی پلائیں اور بہتر ہے کہ نمک اور چینی ملا پانی یا او آر ایس پلایا جائے تاکہ اس میں نمکیات کی کمی نہ ہو پائے۔

ڈاکٹروں کے مطابق گرمی کے موسم میں بچوں کو دن میں کم از کم ایک بار ضرور نہلایا جائے اور اس کا بہترین وقت 10 بجے دن سے شام چار کے درمیان ہے تاکہ دن کے گرم موسم کے درمیان بچے کو ٹھنڈا اور آرام دہ حالت میں رکھا جا سکے۔

’پانچ سے 12 سال کے بچے زیادہ سے زیادہ پانی پیئیں‘

اور اب بات کریں گے ان بچوں کی جو سکول جاتے ہیں یعنی لگ بھگ چار سال سے لے کر 12 سال تک کے بچوں کی۔

پاکستان میں ان دنوں بہت سے سکولوں میں بچوں کے امتحانات کا سلسلہ بھی جاری ہے جس میں سکول آنے جانے کے دوران بچوں کو گرمی نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اس کے لیے ڈاکٹرز کی چند تجاویز یہ ہیں:

ڈاکٹر مظہر کے مطابق اس موسم میں سکول جانے کی عمر کے بچوں کو گرمی کی تھکاوٹ سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ ان کو پانی کی کمی نہ ہونے دیں، سایہ دار اور ہوا دار جگہوں میں رکھیں اور ان کو آرام کروائیں۔

’شربت کے بجائے لیموں پانی، او آر ایس یا سادہ پانی دیں‘

یہ ضروری ہے کہ گرمی کے موسم میں بچوں کے لیے کھانے پینے کا خیال رکھا جائے جو ان کو نہ صرف اس موسم کی شدت سے بچا سکے بلکہ ان میں پانی کی کمی کو بھی پورا کر سکے اور ان کا نظام ہاضمہ بھی خراب نہ ہو۔

ماہرغذائیت زینب غیور نے سب سے پہلے اس جانب توجہ دلائی کہ سکول جانے والے بچوں کی پانی کی بوتل اور لنچ باکس کیسا ہو۔

زینب غیور کہتی ہیں کہ ’اکثر والدین غلطی یہ کرتے ہیں کہ بچوں کو سکول جاتے وقت پانی کی بوتل میں مختلف رنگ برنگے میٹھے مشروبات ڈال دیتے ہیں کہ بچہ پانی شوق سے پیے لیکن وہ چیز بجائے فائدہ دینے کے نقصان دے جاتی ہے۔ کیونکہ اس میں چینی کی زیادہ مقدار موجود ہوتی ہے۔‘

’کھیل کود کے دوران یا گرمی میں پسینہ آنے سے جسم سے نمکیات اور الیکٹرولائٹس بھی نکل جاتے ہیں۔ اس سے بہتر ہے کہ بچے کو لیموں کا شربت بنا دیا جائے جس میں نمک اور معمولی مقدار میں چینی ہو یا او آر ایس بنا کے دیا جائے۔ ورنہ سادہ پانی ہو تو بھی ٹھیک ہے۔‘

زینب غیور نے کہا کہ ’بچے لنچ باکس لے کر جاتے ہیں تو کچھ والدین صرف پھل کاٹ کے دیتے ہیں لیکن کیونکہ لنچ باکس میں کچھ گھنٹوں میں وہ پھل خراب ہونے لگتا ہے تو اس کا نتیجہ ڈائریا کی صورت میں نکلتا ہے یا پیٹ خراب ہو جاتا ہے جس سے پانی کی کمی دور ہونے کے بجائے بڑھ جاتی ہے۔‘

’تو کوشش کریں کہ گرمیوں میں لنچ باکس میں کوئی ایسا پھل یا کھانا نہ رکھیں جو گرمی میں خراب ہو۔ چار گھنٹوں سے زیادہ باہر رہنے کی صورت میں گھر کے کھانے میں بھی بیکٹیریا کی افزائش ہو سکتی ہے اور فوڈ پوائزننگ کا خطرہ ہو سکتا ہے ۔‘

’دودھ والی کوئی چیز بچوں کو سکول لے جانے کے لیے پانی کی بوتل میں نہ دی جائے کیونکہ دودھ میں بہت جلدی بیکٹیریا کی افزائش ہو جاتی ہے اور دودھ یا دودھ سے بنا کوئی بھی مشروب سکول لے جانے کے لیے نہ دیں البتہ سکول سے گھر آنے کے بعد دیا جا سکتا ہے۔‘

’ایک غلطی اور یہ ہوتی ہے کہ بچہ ابھی گرمی سے آتا ہی ہے کہ اس کو فورا پانی دے دیا جاتا ہے۔ ایسا کرنے سے الیکٹرولائٹس کا توازن بگڑتا ہے اور چکر آنے یا متلی کی شکایت ہو سکتی ہے۔‘

’کوشش کرنا چاہیے کہ گرمی سے آتے ہی بچے کو بھر کے دو گلاس پانی نہ دیں بلکہ تھوڑا تھوڑا کر کے دیں کیونکہ بچوں کے گردے کمزور ہوتے ہیں وہ ایک دم سے اتنا پانی برداشت نہیں کر پاتے۔‘

مختلف پھلوں کے جوس

ماہرین کے مطابق بچوں کو موسمی پھل کا جوس کیوبس یا پاپس کی صورت میں جما کر دیں تو اس طرح جب بچے وہ کھائیں گے تو ان کو اس میں مزا بھی آئے گا ، پانی کی کمی بھی نہیں ہو گی اور بچوں کو وٹامن بھی ملیں گے۔

موسم چاہے سرد ہو یا گرم، بچوں کی پانی کی ضرورت بڑوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے اور گرم موسم میں یہ ضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہے لیکن بچوں کی کڈنی ابھی اتنی مضبوط نہیں ہوتی کہ پانی کو زیادہ دیر تک روک سکییں۔

ماہرین کے مطابق بچوں کو لیموں پانی، تازہ ناریل کا پانی یا پھلوں کا ملک شیک دیا جا سکتا ہے تاہم بڑھتے ہوئے درجہ حرارت میں پھل خراب ہونے کے خدشات ہوتے ہیں جبکہ گرمیوں کے پھلوں میں پانی کی مقدار زیادہ ہونے کے باعث اس میں بیکٹیریا بھی تیزی سے پنپتے ہیں جو بچوں کے پیٹ میں گیس پیدا کر کے خرابی کا سبب بنتی ہیں۔

اس لیے ماہرین کا کہنا ہے کہ ہاتھ دھو کر کھانا کھائیں اور باہر کا کھانا کھانے سے پرہیز کریں۔

اس کے علاوہ ماہرین کا کہنا ہے کہ کابونیٹیڈ ڈرنک میں چینی کی بڑی مقدار ہوتی ہے جبکہ بہت زیادہ کافی یا کاربونیٹڈ ڈرنکس لینے سے بچوں میں ہاضمے کے مسائل، موٹاپا، ہڈیوں کی کمزوری سمیت دیگر مسائل کا سامنا رہتا ہے۔

Exit mobile version