Site icon DUNYA PAKISTAN

وہ افغان لڑکی جسے موت کی دھمکیاں اور بم دھماکے بھی اولمپکس میں جانے سے نہ روک سکے

Share

اس سال پیرس اولمپکس میں پہلی مرتبہ سٹریٹ ڈانس کے ایک سٹائل بریکنگ کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ افغانستان کے حالات کسی سے بھی ڈھکے چُھپے نہیں ہیں لیکن اس سب کے درمیان ایک لڑکی اب اس سال اولمپکس میں اپنا ایک خواب پورا کرنے جا رہی ہے۔

افغانستان سے تعلق رکھنے والی اس لڑکی کا نام منیزہ طالش ہے۔ جو اس سال اولمپکس میں شامل ہونے والے سٹریٹ ڈانس کے پہلے ایونٹ میں افغانستان کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنے فن کا مظاہرہ کریں گی۔

منیزہ طالش یہ تاریخ تو رقم کرنے جا رہی ہیں مگر اُن کا پیرس تک کا یہ سفر آسان نہیں تھا۔ وہ افغانستان میں ایک ایسے ماحول میں پروان چڑھیں کہ جہاں انھیں دھمکیوں، بموں اور طالبان کی اقتدار میں واپسی سمیت بہت سے دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں سکیورٹی فورسز نے ایک کلب پر اچانک سے دھاوا بول دیا یہ وہی کلب تھا کہ جہاں منیزہ بھی ٹرینگ کے لیے جایا کرتی تھی، اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے منیزہ بتاتی ہیں کہ ’اُس وقت تو کُچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ہو کیا رہا ہے، لیکن کُچھ ہی وقت کہ بعد سکیورٹی فورسز نے ایک فرد کو حراست میں لیا اُس کے چہرے کو ایک ڈھانپ کر اُسے وہاں سے لے گئے، بعد میں معلوم یہ ہوا کہ وہ ایک شدّت پسند تھا جو ہمارے کلب پر حملے کی غرض سے آیا تھا۔‘

وہ مزید بتاتی ہیں کہ ’انھوں نے ہمیں بتایا کہ اس بار تو ہم خوش قسمت تھے کہ بچ گئے کیونکہ یہ لوگ وہ تھے کہ جو ہمارے کلب پر بم باری کرنا چاہتے تھے۔‘

’ہمیں کہا گیا کہ اگر ہمیں اپنی زندگیوں سے محبت ہے اور ہم اپنی سلامتی چاہتے ہیں تو ہمیں اس کلب کو بند کر دینا چاہیے۔‘

یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ جب کلب کا عملہ خطرے میں تھا۔ اس سے ایک سال قبل 2020 بھی اس کے سامنے والی سڑک پر کھڑی ایک کار میں دھماکہ ہوا تھا کہ جس کی وجہ سے کلب کو خاصا نقصان پہنچا تھا۔

21 سالہ منیزہ نے اُس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’میں واقعی بہت زیادہ ڈر گئی تھی۔‘

انھوں نے اپنے نام کا آخری حصہ تبدیل کر کے طالش رکھ لیا، جس کا مطلب فارسی میں ’کوشش‘ یا ’سخت محنت‘ تھا۔ نہ صرف نام کی تبدیلی علامتی تھی بلکہ انھوں نے یہ بھی امید ظاہر کی کہ اگر ان کے شوق، اُن کے کھیل کی وجہ سے ان کے خاندان والوں کو کوئی خطرہ ہوا تو اُن کا نام تبدیل کرنے کا فیصلہ اُن کی حفاظت بھی کرے گا۔

لیکن جب افغانستان میں کشیدگی میں اضافہ ہوا تو منیزہ کے کلب کو حفاظتی وجوہات کی بنا پر بند کر دیا گیا۔ پھر جب 2021 میں طالبان اقتدار میں واپس آئے تو غیر ملکی افواج کے ملک سے انخلا مکمل کرنے کے بعد رقص اور موسیقی پر مؤثر طور پر پابندی عائد کردی گئی۔

لیکن طالبان کا کوئی بھی حربہ نے منیزہ کے ارادوں کو توڑ نہیں سکا۔

،تصویر کا کیپشنکابل میں یہ وہ کلب ہے کہ جہاں منیزہ تربیت حاصل کرنے کے لیے جاتی تھیں جس پر ایک کار بم دھماکہ ہوا۔

بچپن میں انھوں نے اپنے والد کے ساتھ کابل کی گلیوں میں ایک ریڑھی پر کھانے پینے کی اشیا فروخت کرنے کا کام کیا۔

ایک لڑکی کے لیے کام کرنا غیر معمولی تھا اور خطرناک ہوسکتا ہے۔ انھوں نے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لیے شوٹ باکسنگ کی تربیت حاصل کرنا شروع کی، شوٹ باکسنگ جاپانی مارشل آرٹ کی ہی ایک قسم ہے کہ جو ریسلنگ اور کک باکسنگ کا ملاپ ہوتا ہے۔ منیزہ نے شوٹ باکسنگ کے کُچھ ہی میچ کھیلے تھے کہ اُن کا کندھا ٹوٹ گیا اور انھیں یہ کھیل چھوڑنا پڑا۔

نوجوانی میں انھوں نے سوشل میڈیا پر کابل کے بریکنگ گروپ سپیریئرز کریو کی ویڈیوز دیکھیں جو وہ اُن سے ملیں اور ڈانس کا یہ سٹائل دیکھا تو وہ اس کے سحر میں گرفتار ہو گئیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’جب میں نے اُنھیں دیکھا تو مُجھے یقین نہیں آیا کہ واقعی یہ ایک حقیقت ہے۔‘

منیزہ کا سپیئرز کریو سے ملاقات اور اس کے بعد اب بریکنگ کا پیرس 2024 اولمپکس میں آنا سب کی کڑیاں جُڑی ہوئی تھیں یعنی منیزہ نے ڈانس کے اس سٹائل کی ٹرینگ شروع کی اور اس کھیل کو ایتھلیٹکس کے اس بڑے ایونٹ میں شامل کر لیا گیا۔ وہ 17 سال کی تھیں جب انھوں نے اولمپکس حصہ لینے کا خواب دیکھا شروع کیا اور اب ایک وہ وقت ہے کہ جب وہ اپنا یہ خواب پورا کرنے جا رہی ہیں۔ انھیں بس وہاں پہنچنا تھا۔

انھوں نے مغربی کابل میں سپیریئرز کریو کے تربیتی کلب کا دورہ کیا جو ہپ ہاپ اور بریکنگ کے لیے ملک کا سرکردہ مرکز سمجھا جاتا تھا، لیکن یہ ان کی توقع کے مطابق نہیں تھا۔

منیزہ یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’جب میں کلب میں داخل ہوئی تو یہ لڑکوں سے بھرا ہوا تھا۔‘

سپیریئرز کریو کے کوچ جواد صابری یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’وہ بہت چھوٹی تھی۔‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’مجھے شک تھا کیونکہ دیگر بی گرلز بھی تھیں جو زیادہ دیر تک نہیں ٹھہرتیں،’ وہ اس اصطلاح کو ایک خاتون پرفارمر کے لیے استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کلب ان لوگوں کے لیے ہدف بن گیا ہے جو اس کھیل کو قبول نہیں کرتے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’ہم پر حملہ ہو رہا تھا، لیکن وہ واپس آ گئی میں نے دیکھا کہ وہ 2024 میں پیرس جانے کا خواب دیکھ رہی تھی، وہ اس کے لئے لڑ رہی تھی۔‘

منیزہ کا جزبہ دیکھنے کے بعد وہ کہتے ہیں کہ ’وہ یہ کر سکتی ہے میں نے مستقبل دیکھا ہے۔‘

،تصویر کا کیپشنمنیزہ کابل میں سپیریئرز کریو کے ساتھ اپنی 18 ویں سالگرہ منا رہی ہیں

منیزہ کی گھریلو زندگی بھی آسان نہیں تھی انھیں متعدد مُشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک تکلیف دہ واقعہ اُس وقت پیش آیا کہ جب اُن کے والد، جن کے ساتھ وہ کام کرتی تھیں، انھیں باغیوں نے اغوا کر لیا۔ اس کے بعد سے انھوں نے اپنے والد کو نہیں دیکھا۔

وہ اپنے خاندان والوں کے لیے واحد کفیل تھیں، پہلے اشیائے خوردونوش فروخت کرتی تھیں اور پھر اپنی والدہ، بہن اور دو بھائیوں کی مدد کے لیے ایک ہسپتال میں کام بھی کرتی تھیں۔

ہر ہفتے وہ اپنی کمائی کا ایک حصہ اپنی ٹرینگ پر خرچ کرنے کے لیے بچایا کرتی تھیں اور اس سب کے ساتھ وہ اپنی والدہ کو بس بات پر قائل کرنے کی بھرپور کوشش بھی کرتیں کہ اس کھیل کا حصہ ہونا قابل قدر ہنر ہے۔

منیزہ بتاتی ہیں کہ ’زیادہ تر لوگ اسے رقص سے جوڑتے ہیں۔ لیکن میرا ماننا ہے کہ یہ ایک کھیل ہے کیونکہ اس کے لیے آپ کو جسمانی طور پر مضبوط ہونے اور بھر پور طاقت کے ساتھ حرکت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔‘

لیکن منیزہ کا جذبہ، جو جواد اور سپیریئرز کریو کلیکٹو کے ساتھ شیئر کیا گیا تھا، خطرناک تھا اور لوگ اس سے ناخوش تھے۔

منیزہ کہتی ہیں کہ ’سب سے پہلے یہ سوشل میڈیا پر تبصرے تھے، جنھیں میں نے سنجیدگی سے نہیں لیا۔‘ کلب کے باہر 2020 میں ہونے والے بم دھماکے کا حوالہ دیتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ’لیکن جب بم حملہ ہوا تو اس نے مجھے واقعی خوفزدہ کر دیا۔‘

اگرچہ وہ دھماکے سے خوفزدہ تھی اور اس شخص کی گرفتاری کے بعد کلب بند ہوگیا تھا جس نے اس پر بم باری کرنے کی کوشش کی تھی منیزہ نے بریکنگ کو نہیں چھوڑا۔

وہ گھر پر پریکٹس کرتی تھی جس میں اُن کے پاس کتنی چھوٹی سی جگہ تھی۔ لیکن جیسے جیسے کابل میں سکیورٹی کی صورت حال خراب ہوتی جا رہی تھی، وہ پریشان تھیں کہ ان کے پڑوسی ان کی تربیت جاری رکھنے کے بارے میں کیا سوچ سکتے ہیں۔

پھر 2021 میں طالبان اقتدار میں واپس آئے اور شریعت یعنی اسلامی قانون کی اپنی سخت تشریح نافذ کردی۔ نوعمر لڑکیوں اور خواتین کو تعلیمی اداروں اور جم میں جانے سے روک دیا گیا تھا اور خواتین کو سر سے پاؤں تک با پردہ رہنے کا حکم دیا گیا تھا۔ موسیقی اور رقص پر بھی مؤثر طور پر پابندی عائد کردی گئی اور بریکنگ پر بھی۔

نئی پابندیوں نے منیزہ اور اس کے بریکنگ کرنے والے دوستوں کو ایک فیصلہ کرنے پر مجبور کیا جس کے بعد انھیں اپنا ملک اپنا گھر چھوڑنا پڑا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اگر میں افغانستان میں رہتی تو مجھے نہیں لگتا کہ میں اب تک زندہ ہوتی۔ وہ مجھے مار دیتے یا سنگ سار کر دیتے۔‘

منیزہ اور جواد سمیت سپیریئرز کریو کے کچھ ارکان سپین کے شہر میڈرڈ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

انھوں نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ وہ کیا کام کر سکتے ہیں اور اپنے اہل خانہ کو پیسے گھر بھیجنے کی ایک کوشش کر سکتی ہیں۔ انھوں نے مقامی بریکرز کے ساتھ تعلق بنائے اور جہاں بھی ممکن ہو پریکٹس کرنا شروع کی۔ کلبوں میں، سڑکوں پر اور یہاں تک کہ شاپنگ مالز میں بھی۔

لیکن یہ سب اتنا آسان نہیں تھا۔

منیزہ اس بات کو تسلیم کرتی ہیں کہ ’ہر رات جب میں بستر پر جاتی تھی تو مجھے بہت سے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ افغان خواتین کیا کر سکتی ہیں؟ میں اپنے آپ سے پوچھتی ہوں کہ ’میں ان کے لیے کچھ کیوں نہیں کر سکتی؟‘

وہ جانتی تھیں کہ طالبان کی واپسی کے بعد وہ اولمپکس میں اپنے آبائی ملک کی جانب سے حصہ نہیں لے سکیں گی۔ وہاں کی حکومت نے خواتین کے کھیل کھیلنے پر پابندی عائد کردی تھی اور وہ حکومت خواتین کھلاڑیوں کو ان میں حصہ لینے کے لیے نہیں بھیجے گی۔

لیکن منیزہ کے پاس پیرس جانے کا ایک اور راستہ تھا۔ انھوں نے دریافت کیا تھا کہ وہ ریفیوجی اولمپک ٹیم کے لیے مقابلہ کرنے کی اہل ہیں، ان کھلاڑیوں کے لیے جن کے آبائی ممالک تنازعات یا خانہ جنگی کا سامنا کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی واپسی بہت خطرناک ہو گئی ہے۔

مئی میں وہ کھیلوں میں پناہ گزین ٹیم کی نمائندگی کرنے کے لیے منتخب ہونے والے کھلاڑیوں میں سے ایک تھیں اور بین الاقوامی اولمپک کمیٹی نے ان کے لئے کوچنگ کا انتظام کرنے میں مدد کی۔

منیزہ کہتی ہیں کہ ’جب انھوں نے میرے نام کا اعلان کیا، تو میں ایک ہی وقت میں خوش بھی ہوئی اور دل کُچھ افسردہ بھی ہوا۔‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ ’میں اداس تھی کیونکہ جب میں نے افغانستان چھوڑا تو مجھے اپنے خاندان کو پیچھے چھوڑنا پڑا۔ میں نے ان کی حفاظت پر اپنے مقصد کا انتخاب کیا۔‘

وہ فکرمند تھیں کہ بین الاقوامی سطح پر مقابلہ کرنے کے لیے ان کا انتخاب ان کی ماں اور بہن بھائیوں کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔

لیکن اس اعلان کے بعد منیزہ کو خبر ملی کہ ان کا خاندان افغانستان چھوڑنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ اب وہ دو سال سے زیادہ کی علیحدگی کے بعد سپین میں ان کے ساتھ رہتی ہیں۔

اپنے خاندان کے ساتھ ساتھ اب وہ اپنا خواب پورا کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں اور بس اسی پر اُن کی توجہ ہے۔

وس اس بات کو بھی تسلیم کرتی ہیں کہ ’اولمپکس کی تیاری کرنا واقعی مشکل ہے۔ میں ایک ایسے شخص کے ساتھ کام کر رہی ہوں جس کے پاس 21 سال کا تجربہ ہے، لہٰذا جب میں اولمپکس کی تیاری کر رہی ہوں تو مجھے ان تمام سالوں کی محنت کو کامیابی میں بدلنا ہوگا کہ جو میں نے اس مقام کے حصول کے دوران کھو دیے۔‘

منیزہ کا کہنا ہے کہ ’اس بات کا امکان نہیں ہے کہ وہ پیرس سے تمغہ حاصل کریں گی لیکن پوڈیم پر جگہ حاصل کرنا ان کی ترجیح نہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’میں اپنے دوستوں اور ان کے خوابوں اور امیدوں کے لیے مقابلہ کروں گی، اس یقین کے ساتھ کہ ان کی موجودگی سے ایک اہم پیغام جائے گا۔‘

وہ مزید کہتی ہیں کہ ’افغانستان کی لڑکیاں کبھی ہتھیار نہیں ڈالیں گی۔ آپ کسی افغان لڑکی پر جو بھی دباؤ ڈالیں اسے محدود کریں، یا اسے قید بھی کریں، وہ یقینی طور پر اس سے نکلنے کا راستہ تلاش کرے گی اور یقینی طور پر اپنے مقاصد کو حاصل کرے گی۔ ہم لڑیں گے اور جیتیں گے۔‘

Exit mobile version