Site icon DUNYA PAKISTAN

کیا تربوز کو ٹیکا لگا کر اسے واقعی سرخ اور میٹھا بنایا جا سکتا ہے؟

Share

’ارے دیکھو تربوز کتنا سرخ نکلا۔۔۔ لیکن میں نے تو سنا ہے کہ تربوز کو ٹیکا لگا کر سرخ بنایا جا رہا ہے۔۔۔‘ چند دن قبل یہ بات مجھے تب سننے کو ملی جب میری والدہ مارکیٹ سے ایک تربوز لائیں۔

کاٹنے پر تربوز سرخ نکلا مگر ان کی خوشی اس وقت خاک میں مل گئی جب پاس کھڑی ملازمہ نے کہا کہ ’تربوز کو تو انجیکشن لگا کر سرخ کیا جا رہا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ گاہگ مل سکیں۔‘

اس کے کچھ ہی دن بعد مجھے سوشل میڈیا پر بھی ایسی ہی افواہیں سننے کو ملیں کہ تربوز کو میٹھا اور سرخ بنانے کے لیے اسے ’لال رنگ کے میٹھے انجیکشن‘ لگائے جا رہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ڈاکٹر عفان نامی ایک صارف نے بھی اس حوالے سے ویڈیو پوسٹ کی جس میں انھوں نے انتہائی شاعرانہ انداز میں اپنی بات شروع کرتے ہوئے کہا کہ ’لال ہے ساری گڈی لال ہے۔‘

ڈاکٹر عفان نے اس ویڈیو میں دعویٰ کیا کہ تربوز میں لال رنگ کے لیے لگائے جانے الے انجیکشن کی وجہ سے فوڈ پوائزنگ اور ہیضے کے کیس رپورٹ ہو رہے ہیں۔

جی ہاں یہ وہ ہی ڈاکٹر عفان ہیں جو ماضی میں پاکستانیوں کے من پسند سنیک سموسے میں موجود کیلوریز پر بات کرتے ہوئے سموسے کو ’400 کیلوریز کا ایٹم بم‘ قرار دے چکے ہیں۔

گرمیوں میں اپنے من پسند فروٹ تربوز کے بارے میں ایسی افواہیں سن کر مجھے خاصی بے چینی ہوئی اور میں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا واقعی تربوز کو کسی قسم کا کوئی انجیکشن لگا کر سرخ کیا جاتا ہے؟ اور اگر ایسا ہے تو کیا ایسا کرنے سے یہ لذیذ پھل ہماری صحت کے لیے نقصان دہ بن جاتا ہے؟

’یہ کیسا انجیشکن ہے جو گودے کو سرخ کرتا ہے لیکن چھلکے کو نہیں‘

صارفین کو مختلف چیزوں پر آگاہی فراہم کرنے والی تنظیم کنزیومر سالیڈیرٹی سسٹم کے صدر محسن بھٹی سے جب میں نے تربوز کو انجیکشن لگانے کی افواہوں کے بارے میں جاننا چاہا تو انھوں نے زوردار قہقہے سے اپنی بات شروع کرتے ہوئے بتایا کہ وہ گرمیوں میں روزانہ صبح ناشتے میں تربوز ہی کھاتے ہیں۔

محسن بھٹی نے وضاحت کی کہ تربوز کی تین تہیں ہوتی ہیں: ایک بیرونی چھلکا جو گہرے سبز رنگ کا ہوتا ہے، پھر تربوز کے اندر تقریباً آدھے انچ کا سفید رنگ کا چھلکا اور اس کے بعد سرخ رنگ کا گودا ہوتا ہے۔

انھوں نے سوال کیا کہ ’یہ کیسے ممکن ہے کہ تربوز کو اگر انجیکشن لگایا جاتا ہے تو وہ گودے کو تو سرخ کر دیتا ہے لیکن سفید چھلکے کو سرخ نہیں کرتا؟‘

انھوں نے کہا کہ گھر میں کسی قلم میں استعمال ہونے والی سیاہی کو کسی انجیکشن میں ڈال کر تربوز کو لگایا جائے تو ’آپ دیکھیں گے کہ سیاہی سفید تربوز کے سفید چھلکے کا رنگ بھی بدل دے گی۔‘

ادھر راولپنڈی کی زرعی یونیورسٹی سے ریٹائرڈ پروفیسر ڈاکٹر شاہد جاوید بٹ کہتے ہیں کہ پاکستان میں تربوز کو انجیکشن لگانے کی افواہوں کو مکمل طور پر مسترد بھی نہیں کیا جا سکتا۔

ان کی رائے میں ایسا عمل ’پاکستان میں بہت زیادہ عام نہیں ہے۔

جبکہ محسن بھٹی نے کہا کہ جب تربوز کو کھیتوں سے یا بیلوں سے اتارا جاتا ہے تو اسے سرخ والے درجے سے ایک درجہ پہلے ہی اتار لیا جاتا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ’اس تربوز کو ٹرکوں پر لوڈ کیا جاتا ہے، پھر یہ ایک دو دن میں منڈی پہنچتا ہے۔ وہاں سے یہ مقامی پھل فروشوں تک پہنچتا ہے اور وہاں سے گاہگ اسے خریدتے ہیں۔

’یہ کئی دن پر مشتمل عمل ہے اور اس دوران تربوز موسم کی گرمی سے خود بخود پکتا رہتا ہے اور اس کی رنگت گہری ہوتی جاتی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ اگر تربوز کو انجیکشن لگا کر پنکچر کر دیا جائے گا تو ’تربوز کی جو چار سے پانچ دن کی زندگی تھی تو وہ چار سے پانچ گھنٹے میں ختم ہو جائے گی۔‘

’کون اتنا بے وقوف ہے جو اپنی پراڈکٹ کی زندگی کو دنوں سے گھنٹوں تک محدود کر دے گا۔‘

انھوں نے مزید وضاحت کے لیے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم تربوز کو گھر لانے سے پہلے کٹ لگوا کر لاتے ہیں تاکہ یہ چیک کر سکیں کہ یہ سرخ ہے یا نہیں۔ آپ ایسا کریں کہ آپ اسے کٹ لگے تربوز کو فریج میں رکھنے کی بجائے اسے ایسی جگہ پر رکھ دیں جہاں براہ راست دھوپ آتی ہو(تو) آپ دیکھیں کہ اگلے دو سے تین گھنٹے میں وہ گل جائے گا اور کھانے کے قابل نہیں رہے گا۔‘

’ جو چیز ایئر ٹائٹ ہے جس کے اندر کوئی ملاوٹ نہیں ہوئی، اس کو آپ مختلف سوئیوں (انجیکشن) کی مدد سے پنکچر اور ملاوٹ کر کے یہ سمجھیں کہ یہ تربوز صحیح سلامت گاہگ تک پہنچ جائے گا تو یہ ممکن ہی نہیں۔‘

ہر پھل کا ’قدرتی رنگ ہوتا ہے‘

سوشل میڈیا پر اگر نظر دوڑائی جائے تو بہت سے لوگ اس خدشے کا اظہار بھی کر رہے ہیں کہ موسم گرما میں فوڈ پوائزننگ، ہیضے اور دوسری بیماریوں کی وجہ بھی ایسے تربوز ہیں جن کو سرخ اور میٹھا بنانے کے لیے انجیکشن لگائے گئے۔

محسن بھٹی کے مطابق اس کی وجہ تربوز نہیں بلکہ ’ہماری کھانے پینے کی عادات ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جب ہم بازار سے تربوز خریدتے وقت اس کا رنگ دیکھنے کے لیے اسے کٹ لگواتے ہیں تو چھری صاف نہیں ہوتی اور نجانے کتنے روز پہلے اسے دھویا گیا ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے صحت کو مسئلہ ہو سکتا ہے۔‘

ڈاکٹر عفان اپنی ویڈیو میں تربوز کو ٹشو سے صاف کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں اور پھر وہ ناظرین کو دیکھاتے ہیں کہ ٹشو پر لگنے والا رنگ تربوز کا نہیں بلکہ انجیکشن کا ہے۔

اس بارے میں محسن بھٹی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جہاں تک تربوز سے رنگ نکلنے کی بات ہے تو بہت سے پھلوں کے رنگ نکلتے ہیں۔

’آپ سٹرابری بھی کھاتے ہیں، اس میں سے بھی رنگ نکلتا ہے۔ آپ کے ہاتھ سٹرابری کی وجہ سے لال ہو جاتے ہیں۔ آم اگر آپ کے کپڑوں پر لگے تو اس پر بھی رنگ لگ جاتا ہے۔‘

’انھوں نے سوال کیا کہ کیا اس کا مطلب ہے کہ سٹرابری اور آم کو بھی ٹیکے لگائے گئے ہیں۔ نہیں بلکہ ان پھلوں میں قدرتی رنگ ہوتے ہیں۔‘

محسن بھٹی نے مزید کہا کہ ’تربوز ایک بہت اچھی چیز ہے۔ یہ ایسا پھل ہے جو عام شہری کی بھی پہنچ میں ہے۔ اس طرح کی افواہوں سے ہم عام شہری کو پھل سے محروم کر رہے ہیں اور کسانوں کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں جو پہلے سی ہی مشکلات کا شکار ہیں۔‘

پروفیسر ڈاکٹر شاہد جاوید بٹ نے اس بات کی نشاندہی بھی کی کہ کسان پھل کی کاشت کے دوران مختلف کیمیکلز استعمال کرتے ہیں تاکہ اسے جلدی تیار کیا جا سکے۔

’جب تربوز کو کاشت کیا جاتا ہے اور یہ تیار ہونے کے ابتدائی مراحل میں ہوتا ہے تو بہت سے کسان اس کی پیداوار کو بڑھانے کے لیے اور اس کے بہتر رنگ کے لیے مختف ہارمونز کا استعمال کرتے ہیں۔ پھل کی کاشت کے ابتدائی یا درمیانی مرحلے پر اگر اس میں کچھ ایسے کیمیکلز جیسے کہ آکسی ٹوسن (Oxytocin) کو شامل کیا جائے تو یہ پھل جلدی تیار ہو جاتا ہے اور اس کا رنگ بھی زیادہ لال ہوتا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’تربوز میں قدرتی طور پر لائکو پین (Lycopene) پایا جاتا ہے، جو اسے لال رنگ دیتا ہے۔ اس کے علاوہ تربوز میں کافی مقدار میں اینٹی آکسیڈینٹ (Antioxidant) بھی پایا جاتا ہے، جو کیسنر کے خلاف کام کرتا ہے۔‘

تاہم ڈاکٹر شاہد جاوید بٹ کے مطابق اگر تربوز کے تیار ہو جانے کے بعد اس میں کسی رنگ یا میٹھے کے لیے کوئی انجیکشن لگایا جاتا ہے تو یہ پھل میں پائے جانے والے قدرتی رنگ سے بہت مختلف نظر آتا ہے۔

ان کے مطابق اس قسم کا کوئی انجیکشن لگانے کی صورت میں تربوز کا بیرونی چھلکا خراب ہو سکتا ہے اور اس کے اندر موجود گودا بھی خراب ہو گا۔

Exit mobile version