کھیل

عماد وسیم کی انجری، اعظم اور شاداب کی فارم سمیت وہ مسائل جو پاکستانی ٹیم کو درپیش ہیں

Share

جس فارمولا کرکٹ کے باعث پاکستان پچھلے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کا فائنل ہارا تھا، اسے چھوڑنے اور ماڈرن جارحانہ اپروچ اپنانے کی کوششیں لگ بھگ دو سال تک جاری رہیں اور اب عین ورلڈ کپ کے آغاز پر پاکستان پھر سے اسی پرانے فارمولے کی جانب مڑنے پر مجبور ہوا ہے۔

بابر اعظم اور محمد رضوان کی اوپننگ پارٹنرشپ پاکستان کے لیے کئی ایک یادگار فتوحات کا سبب بنی مگر یہ شراکت داری پہلے دن سے ہی ڈیٹا ماہرین کے نشانے پر رہی اور ورلڈ کپ فائنل میں پاکستان کی ہار نے یہ نشانہ مزید پختہ کر دیا۔

جس کے بعد پاکستان نے اپنے اس آئیڈیل اوپننگ پیئر کی تلاش شروع کر دی جو ماڈرن ٹی ٹونٹی کرکٹ کے تقاضے نبھا سکے اور پاور پلے میں اپنے سٹرائیک ریٹ سے فیصلہ کن کردار ادا کر سکے۔

ڈومیسٹک اور فرنچائز کرکٹ میں جو خوبیاں دکھا کر صائم ایوب انٹرنیشنل کرکٹ تک پہنچے تھے، کافی مواقع ملنے کے بعد بھی، اس سطح پر ان خوبیوں کے اظہار میں ناکام رہے۔ اور چونکہ محمد حارث بھی فیصلہ سازوں کی پسندیدگی حاصل نہیں کر پائے تو اب ایک اور ورلڈ کپ میں پاکستان کی اوپننگ جوڑی بابر اور رضوان پر مشتمل ہو گی۔

اور جو کنڈیشنز ابھی تک امریکی وینیوز پر دیکھنے کو ملی ہیں، یہ حیران کن نہیں ہو گا کہ بابر اور رضوان کی اوپننگ ہی پاکستان کے لیے مثبت ثابت ہو۔ فاسٹ بولنگ کے لیے سازگار ان غیر متوازن پچز پر نئی گیند کی سوئنگ اور سیم سے نمٹنے کے لیے ایسے ہی ٹیسٹ کرکٹ کے تجربہ کاروں کا مزاج اور مہارت درکار ہو گی۔

عثمان خان کو یو اے ای کے کنٹریکٹ سے نکال کر پاکستان کی نمائندگی کا فاسٹ ٹریک سفر کروانے کی وجہ ان کا سٹرائیک ریٹ تھی اور ون ڈاؤن پوزیشن پر وہ پاکستان کے لیے موثر ہو سکتے ہیں کیونکہ وکٹ کے سکوائر کھیلنا ان کی وہ مہارت ہے جو بالخصوص مڈل اوورز میں سپنرز کے خلاف مفید ہو سکتی ہے۔

بڑے ایونٹس میں اہم مواقع پر پرفارمنس کا تجربہ رکھنے والے فخر زمان چوتھے نمبر پر پاور پلے کی اس ابتدائی احتیاط کا بھی ازالہ کر سکتے ہیں جو اوپنرز کو ان ڈراپ ان پچز پر نئی گیند سے نمٹنے میں دکھانا پڑ سکتی ہے۔

پاکستان کے لیے مشکل فیصلہ یہ ہے کہ وہ اعظم خان کا کیا کرے۔ جس لیگ سے اعظم خان نے اپنی پاور ہٹنگ کا لوہا منوایا، وہ کریبئین پریمئر لیگ تھی اور ان کنڈیشنز میں اعظم خان کا تجربہ اگرچہ پاکستان الیون میں ان کی شمولیت کی دلیل اٹھاتا ہے تو ان کے انٹرنیشنل کریئر کے اعداد و شمار ہی اس دلیل کو رد بھی کرتے ہیں۔

لیکن بطور ٹیم پاکستان اگر یہ طے کرنا چاہے تو اسے کوئی ٹیکنیکل پریشانی بھی نہیں ہے کہ اسے پہلے ہی محمد رضوان اور عثمان خان کی شکل میں دو وکٹ کیپرز میسر ہیں۔ اور اگر بطور بلے باز بھی اعظم خان کو شامل کیا جائے تو نہ صرف نمبرز ان کا ساتھ نہیں دیتے بلکہ فیلڈنگ میں ان کی افادیت کا تعین کرنا بھی دشوار ہے۔ اس اعتبار سے افتخار احمد پانچویں نمبر پر پاکستان کے لیے مفید ہو سکتے ہیں۔

shaheen

یوں تو چھٹے نمبر پر عماد وسیم دہری ذمہ داری نبھا سکتے تھے جو مناسب پلیٹ فارم ملنے پر پاور ہٹنگ کا تقاضہ کرتی ہے اور اننگز بکھرنے کی صورت میں میچ کو آخر تک لے جانے کا۔

لیکن پاکستان کے لیے مسئلہ یہ بھی درپیش ہے کہ عماد انجری کے باعث اس میچ کے لیے دستیاب نہیں ہیں۔ ایسے میں پاکستان کے پاس بینچ پر موجود آلراؤنڈ آپشن شاداب خان کی ہے۔

یہاں بھی پاکستان کو یہ دشواری درپیش ہے کہ اعظم خان ہی کی طرح شاداب خان کا بھی کیا کیا جائے۔ گو، شاداب پچھلے سات سال سے پاکستانی ٹیم کا اہم رکن رہے ہیں مگر پچھلے دو سال میں ان کی غیر مستقل پرفارمنس اب ٹیم میں ان کی جگہ پر سوالیہ نشان اٹھاتی ہے۔

ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹس میں جہاں بلے بازوں اور پیسرز کا ایک کردار ہوتا ہے، وہیں لیگ سپنرز بھی بہت اہم ہوتے ہیں اور ان کی کارکردگی ٹیم کا اگلا راستہ طے کرنے میں فیصلہ کن ثابت ہوا کرتی ہے۔ حالیہ ون ڈے ورلڈ کپ میں ایڈم زیمپا کی بولنگ آسٹریلیا کی مہم جوئی میں اہم رہی تھی۔

گروپ سٹیج کے میچز پاکستان کو جن پچز پر کھیلنا ہیں، وہاں پر اب تک ہوئی کرکٹ کا محدود ڈیٹا یہ تجویز کرتا ہے کہ چار پیسرز کی موجودگی ضروری ہے اور یہاں پاکستان اپنے پرانے کمبینشن شاہین آفریدی، نسیم شاہ، حارث رؤف کے ساتھ محمد عامر کا قابلِ قدر تجربہ شامل کر کے سرخرو ہو سکتا ہے۔

کیریبئین کنڈیشنز میں ٹورنامنٹ گزرنے کے ساتھ ساتھ بدلاؤ آنے اور پچز سست ہونے کا امکان ہے لہذا وہاں دو سپیشلسٹ سپنرز کھلانے کی گنجائش ہو گی اور الیون میں شاداب خان کی شمولیت کی توجیہ کرنا بھی آسان ہو گی مگر امریکی کنڈیشنز میں پاکستان کے لیے اپنے اکلوتے سپیشلسٹ سپنر کا انتخاب اہم فیصلہ ہو گا۔

عماد کی انجری کے بعد شاداب خان ہی ڈیلاس میں الیون کا حصہ بنتے دکھائی دے رہے ہیں ایسے میں کیا پاکستان اعظم خان کی صورت میں بیٹنگ کو مضبوط کرے گا یا ابرار احمد کی شمولیت سے بولنگ کو یہ فیصلہ یقیناً میچ کے دن پچ دیکھ کر کیا جائے گا۔

بابر اعظم اب تک ایک ورلڈ کپ سیمی فائنل، ایک ایشیا کپ فائنل اور ایک ورلڈ کپ فائنل میں شکست کا تجربہ حاصل کر چکے ہیں اور پر عزم ہیں کہ وہ پاکستان کے لیے ایک آئی سی سی ٹرافی لائیں گے اور ان کے اس سکواڈ میں وہ تجربہ کار کھلاڑی بھی موجود ہیں جو فرنچائز کرکٹ کی بدولت کیریبئین کنڈیشنز سے گہری واقفیت رکھتے ہیں۔

لیکن اس خواب کی عملی تعبیر کے لیے پلیئنگ الیون کے چناؤ میں تدبیر کو ترجیح دینا ہو گی اور آن فیلڈ فیصلوں میں بھی بابر اعظم کو وہ باریکی دکھانا ہو گی جو چھوٹے چھوٹے لمحات کو فیصلہ کن بنا سکتی ہے۔