جنوری میں سال کی سب سے سرد رات کو اہنے کتے کو چہل قدمی کے لیے لے جانے والے شخص نے ایلسا کو ایک تھیلے میں ایک تولیے میں لپٹا ہوا دیکھا۔
رواں برس کے آغاز میں مشرقی برطانیہ کے علاقے نیو ہیم سے ملنے والی ایلسا اپنے والدین کی تیسری ایسی اولاد ہیں، جسے انھوں نے سات سال کے عرصے میں پہلے دو بچوں کی طرح لاوارث چھوڑ دیا ہے۔
ایسٹ لندن کی ایک عدالت میں ڈی این اے ثبوت پیش کیے گئے ہیں جن سے یہ علم ہوتا ہے کہ ایلسا کی ایک بہن اور ایک بھائی کو اسی طرح سنہ 2017 اور سنہ 2019 میں لاوراث چھوڑ دیا گیا تھا۔
میٹروپولیٹن پولیس کی کوشش کے باوجود ان بچوں کے والدین کی شناخت ابھی تک نہیں ہو سکی ہے۔
بی بی سی اور پی اے میڈیا کو فیملی کورٹ سے خصوصی اجازت ملی ہے کہ اس افریقی نژاد بچی اور اس کے دو بہن بھائیوں کے درمیان تعلق کو ظاہر کیا جائے۔
جج کیرن ایٹکنسن کا کہنا ہے کہ یہ ’عوامی مفاد‘ کی خبر ہے کیونکہ اب برطانیہ میں بہت کم ہی بچوں کو لاوارث چھوڑا جاتا ہے۔
ایک ماہر نے عدالت کو بتایا کہ ان کی رائے میں جینیاتی نتائج سے یہ بہت حد تک سائنسی بنیادوں پر ثابت ہوتا ہے کہ ایلسا بھی چند برس پہلے ملنے والے دو لاوراث بچوں کی بہن ہیں۔
اس سے پہلے والے بچوں کو گود لے لیا گیا تھا جبکہ ایلسا کو ابھی نگہداشت میں رکھا گیا ہے۔
ایلسا کے بہن بھائیوں کے نام ہیری اور رومن ہیں، جنھیں لندن کے اسی علاقے میں لاوارث چھوڑ دیا گیا تھا۔ وہ بھی کمبل میں لپٹے ہوئے تھے۔
فیملی کورٹ کی دستاویزات کے مطابق ایلسا کو ابھی بھی ’آنول نال‘ (پیدائش سے قبل بچے کو خوراک پہنچانے والی نالی) لگی ہوئی تھی۔ ڈاکٹروں کے اندازے کے مطابق وہ ایک گھنٹہ پہلے ہی پیدا ہوئی تھی۔
رپورٹنگ نہ کرنے کی اجازت
مقامی حکام اور برطانیہ کی فیملی کورٹ ایڈوائس اینڈ سپورٹ سروس، جو عدالتوں کو بچوں کے بہترین مفاد میں مشورے دیتی ہے، نے ان بچوں کے آپس کے تعلق کو ظاہر کرنے کی حمایت نہیں کی۔
میٹروپولیٹن پولیس کا کہنا ہے کہ اب یہ عدالت پر منحصر ہے کہ وہ یہ طے کرے کہ ان بچوں کے درمیان تعلق کو ظاہر کیا جائے یا نہیں۔ تاہم ان کے مطابق وہ یہ چاہتے ہیں کہ وہ بلاواسطہ اس بات کی حوصلہ افزائی نہیں کرنا چاہتے کہ مائیں پیدا ہونے والے بچوں کو عوامی مقامات پر لاوارث چھوڑ دیں۔
ایسٹ لندن فیملی کورٹ ایک شفافیت سے متعلق پائلٹ پروجیکٹ میں حصہ لے رہی ہے جو برطانیہ اور ویلز کی آدھی فیملی کورٹس کا احاطہ کرتا ہے۔ اس سے بی بی سی اور دیگر میڈیا کے لیے اس طرح کے کیسز کی کوریج آسان ہو گئی۔
بی بی سی اور پی اے میڈیا نے عدالت کو بتایا کہ یہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے کہ ایک ہی والدین کی طرف سے تین بچوں کو لاوارث چھوڑ دیا گیا ہے۔
’بہت غیرمعمولی‘
ایسٹ لندن فیملی کورٹ کے جج کیرل ایٹکنسن نے ریمارکس دیے کہ اس ملک میں ایک بچے کو لاوارث چھوڑ دینا بہت ہی غیرمعمولی واقعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے مقدمات میں عوام کی بہت حد تک دلچسپی ہوتی ہے۔
جج نے مزید کہا کہ ’یہ تینوں بہن بھائی ہمارے معاشرے کے لیے بہت ہی دلچسپی کے حامل ہو گئے ہیں۔‘ جج نے کہا کہ اگر انھوں نے اس مقدمے پر رپورٹنگ کی اجازت نہیں دی تو اس طرح کے امور پر عوامی آگاہی کا عمل متاثر ہو گا اور اس طرح کے مقدمات میں شفاف انصاف کی رسائی بھی محدود ہو گی۔
بی بی سی اور پی اے میڈیا کا کہنا ہے کہ اس مقدمے میں مزید رپورٹنگ سے حکام کو بچوں کے والدین تک پہنچنے میں آسانی ہو گی اور ان بچوں کے آپس کے تعلق کو ظاہر کرنے سے ان کی ماں پر توجہ جائے گی۔
برطانیہ اور ویلز میں لاوارث بچوں کی بہت کم تعداد ہے۔ 2015 تک کے ڈیٹا کے مطابق گذشتہ تین برس میں ملک میں کوئی بھی نیا لاوارث بچہ سامنے نہیں آیا ہے۔
سنہ 2011 میں صرف ایک لاوارث بچے کا اندراج کیا گیا۔ تاہم تعلیمی محققین نے 1998 سے لے کر 2005 تک کے عرصے کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ تعداد زیادہ بنتی ہے اور ہر سال 16 لاوارث بچے سامنے آتے ہیں۔
سنہ 2020 میں ایسٹ لندن میں ہیکنے کے مقام پر میڈیا نے ایک لاوارث بچے کی اطلاع دی اور سنہ 2021 میں برمنگھم میں ایک لاوارث بچے کے بارے میں خبر شائع ہوئی۔ ان بچوں کی ماؤں کی کئی ماہ بعد شناخت کر لی گئی تھی۔