Site icon DUNYA PAKISTAN

شدید گرم موسم میں اے سی کام کرنا کیوں چھوڑ دیتے ہیں اور اس کا حل کیا ہے؟

Share

گذشتہ چند ہفتوں سے انڈیا اور پاکستان شدید گرمی کی لپیٹ میں ہے۔ رواں ہفتے بھی ملک کے بیشتر حصوں میں درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ رہنے کا امکان ہے جبکہ کئی علاقوں بشمول ڈیرہ اسماعیل خان، دادو، ڈیرہ غازی خان، سرگودھا، سبی، تربت میں درجہ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی تجاوز کرے گا۔

ایسے میں گرمی سے بچنے کے لیے ایئر کنڈیشنرز (اے سی) کسی نعمت سے کم نہیں۔ تاہم اکثر یہ شکایت سننے میں آتی ہے کہ جیسے جیسے گرمی کا پارہ اوپر جاتا ویسے ویسے اے سی کی کارکردگی میں بھی کمی آنے لگتی ہے۔

کئی لوگ تو یہاں تک کہتے سنے گئے ہیں کہ ’گرمی کی شدت میں اضافے کے ساتھ ان کا اے سی کام کرنا ہی چھوڑ دیتا ہے۔‘

ایسے میں لامحالہ گھروں اور دفتروں میں متمول درجہ حرارت حاصل کرنے کے لیے لوگ اے سی کو مسلسل چلانے پر مجبور ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف لوگوں کے بجلی کے بلوں میں اضافہ ہوتا بلکہ اے سی کے خراب ہونے کا بھی خدشہ ہوتا ہے۔

کچھ معاملات میں درجہ حرارت بڑھنے سے اے سی کے پھٹنے کی بھی خبریں سامنے آئی ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ گذشتہ ہفتے انڈیا کی ریاست اتر پردیش کے شہر نوائیڈا میں پیش آیا جب ایک اپارٹمنٹ میں اے سی کے پھٹنے کے باعث آگ بھڑک اٹھی تھی۔

نوائیڈا فائر بریگیڈ کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ شہر میں گذشتہ کچھ دنوں میں اے سی پھٹنے کے درجن بھر کے قریب واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔

ایسے میں سوال پیدا ہوتے ہیں کہ شدید گرم موسم میں اے سی کے پھٹنے کا خطرہ کیوں ہوتا ہے اور اس دوران یہ ’کام کرنا کیوں چھوڑ دیتے ہیں‘ اور آپ کیسے اپنے اے سی کو محفوظ بناتے ہوئے اس کی بہترین کارکردگی کو یقینی بنا سکتے ہیں؟

،تصویر کا کیپشنگذشتہ ہفتے انڈیا کے شہر نوائیڈا میں ایک اپارٹمنٹ میں اے سی کے پھٹنے کے باعث آگ بھڑک اٹھی

گرمیوں میں اے سی پھٹنے کا خطرہ کیوں ہوتا ہے؟

پاکستان میں تیار کردہ زیادہ تر اے سی کمپریسر 42 ڈگری سینٹی گریڈ پر کام کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں اور مارکیٹ میں ملنے والے عام انورٹر اے سی کی اگر تفصیلات دیکھیں تو کمپنی کی جانب سے بھی اس کی بہترین کارکردگی 42 ڈگری سینٹی گریڈ کے درجہ حرارت تک بتائی جاتی ہے۔

تاہم درجہ حرارت بڑھنے کے ساتھ مسلسل اے سی چلانے کی وجہ سے کمپریسر پر بوجھ پڑتا ہے اور اس کا اندرونی درجہ حرارت بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے جو اے سی میں موجود گیس کے ساتھ ردعمل کر کے دھماکے کا سبب بن سکتا ہے۔

انڈیا کے شہر نوائیڈہ میں اے سی کے پھٹنے کے واقعے کے بعد آئی آئی ٹی وارانسی کے مکینیکل انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر جاہر سرکار نے بی بی سی کو بتایا کہ اے سی کو صحیح طریقے سے کام کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے کمپریسر کے ارد گرد کا درجہ حرارت اس کے کمپریسر یا کنڈینسر کے درجہ حرارت سے اوسطاً 10 ڈگری کم ہو۔

ان کے مطابق اگر باہر کا درجہ حرارت کمپریسر کے درجہ حرارت سے تجاوز کر جائے تو اے سی ٹھیک سے کام کرنا بند کر دیتا ہے اور ایسی حالت میں کنڈینسر پر دباؤ بڑھ جاتا ہے اور اس کے گرم ہو جانے کے باعث اس کے پھٹنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کنڈینسر سے گیس لیکیج بھی ایسے حادثات کی وجہ بن سکتا ہے۔

ان کے مطابق اگر اے کے آؤٹ ڈور یونٹ میں کہیش لیکج ہے تو گیس کمی کے باعث کمپریسر پر دباؤ بڑھتا ہے اور نتیجناً اے سی کمپریسر گرم ہو جاتا ہے اور اس سے آگ لگنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

ان کے مطابق اگر کمپریسر کا کوائل خراب ہو جائے یا اس پر گرد جم جائے تو بھی اس سے گیس کی روانی میں دشواری پیش آتی ہے۔ اس سے کمپریسر کے گرم ہونے اور آگ لگنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ وولٹیج میں بار بار اتار چڑھاؤ کمپریسر کی کارکردگی کو متاثر کرتا ہے اور یہ حادثات کا باعث بن سکتا ہے۔

گرمیوں میں اے سی کام کرنا کیوں بند کر دیتے ہیں؟

صدام حسین پاکستان کے دارالحکومت میں تقریباً دو دہائی سے اے سی کے کام سے منسلک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شدید گرمی میں اے سی کارکردگی میں کمی آنے کی وجہ ناقص اور غیر معیاری کولنٹ گیس کا استعمال ہے۔

’اگر آپ نے اپنے پرانے اے سی میں گیس ڈلوائی ہے اور وہ شدید گرمی میں کام کرنا کم کر دے تو ہو سکتا ہے کہ کاریگر نے آپ کے اے سی میں غیر معیاری گیس ڈال دی ہو۔‘

ان کے مطابق، غیر معیاری گیس سستی ہوتی ہے اور اکثر کاریگر پیسے بچانے کے لیے اے سی میں یہ گیس بھر دیتے ہیں۔ ایسے کرکے وہ تقریباً دو سے تین ہزار روپے بچا لیتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’کسٹمر کو اکثر و بیشتر معلوم نہیں ہوتا کہ ان سے کس چیز کے پیسے لیے جا رہے ہیں اور اس کے بدلے کیا دیا جا را ہے۔ جب درجہ حرارت بڑھتا ہے تو یہ گیس کام کرنا چھوڑ دیتی ہے۔‘

اس کے علاوہ مارکیٹ میں ملنے والی سستی یا غیر معیاری گیس، اے سی کی سروس کرواتے وقت غیر تربیت یافتہ مکینک کی کوتاہی کے باعث بھی اے سی کے کمپریسر کے پھٹنے کا خطرہ رہتا ہے۔

ماہرین کے مطابق ’ہر اے سی کمپریسر میں ایک سی گیس نہیں بھری جاتی بلکہ مختلف ماڈلز اور ٹیکنالوجی کے مطابق کمپریسر میں گیس ڈالی جاتی ہے۔ اگر کسی انورٹر اے سی میں کسی غیر تربیت یافتہ مکینک نے نان انورٹر اے سی گیس ڈال دی تو نہ صرف اس اے سی کے خراب ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے بلکہ یہ دھماکے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

اے سی کی گیس بھرتے وقت بھی احتیاط برتنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ 2021 میں کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں چار افراد بشمول تین بچے اس وقت ہلاک ہو گئے تھے جب اے سی میں گیس بھرتے وقت اے سی کا انڈور یونٹ دھماکے سے تباہ ہو گیا تھا۔

اس کے علاوہ ایک اور چیز جو اے سی کی کارکردگی کو متاثر کرتی ہے وہ تانبے کی جگہ الیومینیم کے پائپ اور کمپریسر کا استعمال ہے۔

صدام مشورہ دیتے ہیں اے سی خریدتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ جو اے سی آپ خرید رہے ہیں اس کے پائپ اور کنڈینسر تانبے سے بنے ہوں۔

وہ کہتے ہیں اے سی کی کارکردگی میں کمی کی سب سے بڑی وجہ ان کی ایک جگہ سے دوسری منتقلی کے دوران ہونے والے نقصانات ہیں۔

’اے سی کو جب بار بار اتارا اور لگایا جاتا ہے تو اس کی وجہ سے ان کے پائپ جو انڈور اور آؤٹ دور یونٹ کو جوڑتے ہیں، ان کو نقصان پہنچتا ہے اور وہ خراب ہوجاتے ہیں۔‘

کچھ پرانے اے سی کی وقت پر سروس نہ ہونے کی وجہ سے ان پر زنگ لگ جاتا ہے اور کائی جم جاتی ہے، جس کی وجہ سے وہ ٹھنڈا کرنا بند کر دیتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ سروس کی وجہ سے کسی بھی اے سی کی کولنگ میں بھی فرق پڑجاتا ہے۔ اگر آپ اے سی کو چار سے چھ مہینے استعمال کرتے ہیں تو اس کے بعد اے سی کی سروس کروانا لازمی ہے۔

ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ جب درجہ حرارت بڑھتا ہے تو اس بات کو یقینی بنائیں کہ اے سی کمپریسر سائے میں ہو۔ اس بات کو بھی یقینی بنائیں کہ اے سی کمپریسر اور کنڈینسر یونٹ کے ارد گرد ہوا کا بہاؤ بہتر ہو۔

Exit mobile version