پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف کے دورہ چین کے دوران ان کی ملاقات چینی صدر شی جن پنگ سے ہوئی، جس میں چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبوں میں سرمایہ کاری بڑھانے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔
پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس حوالے سے دونوں ملکوں کی مشترکہ پریس ریلیز جاری کی ہے جس کے مطابق اس دورے کے دوران قراقرم ہائی وے، ایم ایل ون، خنجراب پاس، گودار پورٹ منصوبوں اور زراعت، انفراسٹرکچر اور صنعتی تعاون سمیت مختلف شعبوں میں 23 معائدوں اور یادداشتوں پر دستخط کیے گئے ہیں۔
اس دوران دونوں ملکوں کی جانب سے 26 مارچ کو پاکستان میں داسو ہائیڈرو پروجیکٹ پر کام کرنے والے چینی انجینیئرز کے قافلے پر دہشت گردی کے حملے کی بھی شدید مذمت کی گئی اور اس بات پر زور دیا گیا کہ پاکستان اور چین کی دوستی کو کمزور کرنے کی کسی بھی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔
چار جون سے شروع ہونے والا یہ دورہ ایک ایسے موقع پر کیا گیا جب پاکستانی حکومت آئی ایم ایف پروگرام میں شامل ہونے کے لیے ایک نیا معاہدہ کرنے جا رہا ہے اور ایک انتہائی اہم بجٹ بھی دینے والی ہے۔
دورے کے دوران حکومتی اعلامیوں میں سی پیک 2.0 کا لفظ بھی بارہا سننے میں آیا لیکن اس خصوصی دورے کے حوالے سے پاکستانی معیشت پر نظر رکھنے والے ماہرین کا ماننا ہے کہ پاکستان چین کو یہ باور کروانا چاہتا ہے کہ وہ چینی منصوبوں کو لے کر سنجیدہ ہے۔
سنہ 2013 چین پاکستان اقتصادی راہداری یعنی سی پیک کا سنگِ بنیاد بہت ہی دھوم دھام سے مسلم لیگ نواز کی حکومت میں رکھا گیا تھا اور اسے پاکستانی معیشت کے لیے ایک ’گیم چینجر‘ قرار دیا گیا تھا۔ تاہم سنہ 2018 کے انتخابات کے بعد مرکز میں پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران سی پیک سست روی کا شکار ہوتا نظر آیا اور منصوبے تاخیر کا شکار ہونے لگے۔
مسائل اور التوا کے باوجود پاکستان میں کچھ لوگ ان منصوبوں کو ملک کی ممکنہ ترقی سے بھی جوڑتے رہے ہیں اور کچھ پاکستان کے موجودہ معاشی مسائل کی ذمہ داری بھی اس پر ڈالتے رہے ہیں۔
خیال رہے کہ پاکستان کا جغرافیہ اور بحیرہ عرب کے ساتھ اس کی بندرگاہیں چین کے لیے خلیج عدن اور نہر سوئز تک زمینی راستہ فراہم کرتا ہے جو چینی بحری جہازوں کو آبنائے مالاکہ میں ایک ممکنہ چوک پوائنٹ سے بچنے کا موقع دیتا ہے۔
تو سی پیک 2.0 کے بارے میں اب تک ہم کیا جانتے ہیں اور وزیرِ اعظم شہباز شریف کا یہ دورہ اتنا اہم کیوں بتایا جا رہا ہے؟
شہباز شریف سے چینی صدر کی ملاقات اور سی پیک 2.0
سات جون کو شہباز شریف نے بیجنگ کے تاریخی ’گریٹ ہال آف دی پیپل‘ میں چینی صدر شی جِن پنگ سے طویل اور تفصیلی ملاقات کی۔
سنہ 2024 میں چین کے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد وزیرِ اعظم شہباز شریف کی ان کے ساتھ یہ پہلی ملاقات تھی۔
وزیرِ اعظم کے دفتر سے جاری اعلامیے کے مطابق ’اسی جگہ پر شہباز شریف نے صدر شی کا 2015 کا پاکستانی دورہ بھی یاد کروایا جس دوران چین پاکستان اقتصادی راہداری کو باقاعدہ طور پر فعال کیا گیا تھا اور جسے دو طرفہ تعلقات میں نئے باب کا آغاز بھی قرار دیا گیا تھا۔
’دونوں رہنماؤں نے سی پیک کے تحت جاری بڑے منصوبوں کی بروقت تکمیل، سی پیک کی اپ گریڈیشن اور دوسرے مرحلے میں سی پیک کے تحت ترقیاتی منصوبے آگے بڑھانے پر اتفاق کیا۔‘
اس کے علاوہ شہباز شریف کی جانب سے چینی ورکرز کی پاکستان میں حفاظت یقینی بنانے کے بارے میں بھی بات کی گئی ہے اور چینی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی دعوت بھی دی گئی ہے۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف کے دفتر کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق حالیہ دورہ چین کے دوران پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک کے تحت جاری بڑے منصوبوں کی بروقت تکمیل، سی پیک کی اپ گریڈیشن اور دوسرے مرحلے میں سی پیک کے تحت ترقیاتی منصوبے آگے بڑھانے پر اتفاق رائے ہوا ہے۔
جبکہ چینی نشریاتی ادارے سی جی ٹی این کی ایک خبر میں چینی صدر شی جِن پِنگ کی شہباز شریف سے ملاقات کے دوران ایک بیان کو نشر کیا ہے۔ اس بیان کے مطابق صدر شی نے یہ ’امید ظاہر کی ہے کہ پاکستان ایک محفوظ، مستحکم، اور موزوں بزنس ماحول بنائے گا جس میں چینی اہلکار، منصوبوں پر کام کرنے والے افراد اور منصوبوں کو تحفظ ملے۔‘
پاکستان مسلم لیگ نواز سی پیک منصوبوں کو اپنے دورِ حکومت کی سب سے بڑی کامیابی سمجھتی ہے اور ان کے بعد آنے والی عمران خان کی حکومت پر یہ الزام عائد کرتی ہے کہ 2018 سے شروع ہونے والے پاکستان تحریکِ انصاف کے دورِ حکومت میں ان منصوبوں کو ’جان بوجھ‘ کر سست روی کا شکار کیا گیا تھا جبکہ عمران خان ان الزامات کو رد کرتے رہے ہیں۔
عمران خان کے دورِ حکومت میں سی پیک منصوبوں کی سست روی کے بارے میں اس وقت انھیں منصوبوں سے جڑے دو افسران نے بتایا تھا کہ ’جن منصوبوں میں پاور پلانٹ اور ہائڈرو پاور پلانٹ شامل ہیں ان پر خاصا قرضہ لگتا ہے۔ جو پاکستان اپنی معاشی صورتحال کے پیشِ نظر برداشت نہیں کرسکتا اسی لیے کم قرضے والہ منصوبوں کو پہلے نمٹا رہا ہے۔‘
دوسری جانب ایک افسر کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’عالمی مالیاتی ادارے یعنی آئی ایم ایف نے پاکستان پر مزید شرط بھی لگائی ہے کہ وہ آئی ایم ایف سے لیا ہوا قرضہ کسی اور ملک کا قرض اتارنے میں نہیں لگا سکتا۔ اسی لیے پاکستان پر چینی قرضہ بڑھ رہا ہے اور ان منصوبوں پر کام بہت حد تک سست روی کا شکار ہے۔‘
نئے منصوبے شروع کرنے میں چین کی دلچسپی
خیال رہے کہ سنہ 2022 سے لے کر رواں سال میں چینی منصوبوں پر کام کرنے والے چینی افراد کو نشانہ بنایا گیا۔ جس سے ان منصوبوں میں کئی بار تعطل کے بعد کام شروع ہوا۔
بی آر آئی پر کام کرنے والے صحافی ضمیر اسدی کا کہنا ہے کہ ’بشام میں ہونے والے حالیہ حملے کے بعد چین پاکستان سے یہ یقین دہانی چاہتا ہے کہ اس کے ورکر پاکستان میں محفوظ رہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اب کیونکہ پاکستان میں چین ایک واحد امید سمجھا جارہا ہے اس لیے وزیرِ اعظم کا یہ دورہ چین کے سرمایہ داروں کی اعتماد سازی سے بھی جڑا ہے۔ کوشش یہی کی جا رہی ہے کہ جو چینی کمپنیاں پہلے سے پاکستان میں سرمایہ لگا رہی ہیں وہ واپس نہ جائیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہ نئی یادداشتیں نہیں بلکہ وہ ہی بنیادی یادداشتیں ہیں جن پر پہلے سے دستخط کیے جا چکے تھے۔ اب ایک بار پھر یاددہانی اور یقین دہانی کے لیے ان منصوبوں اور خاص طور سے سپیشل اکنامِک زون پر پاکستان کی جانب سے بات کی جا رہی ہے۔
’اسی طرح وزیرِ اعظم کے اس دورے کی شروعات چینی شہر شین زین سے ہوئی کیونکہ وہ آئی ٹی ہب ہے اور وہاں کے سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ لگانے کے لیے اعتماد میں لینا ضروری ہے۔‘
ضمیر نے بتایا کہ ’صدر شی جِن پنگ کا بیان اس لیے بہت اہم ہے کیونکہ انھوں نے چینی حفاظتی خدشات کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی یقین دہانی کی ہے کہ چین پاکستان کی علاقائی سالمیت کو مدِ نظر رکھتا ہے اور اہمیت دیتا ہے اور دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔‘
پاکستان میں چینی ورکرز کو درپیش سکیورٹی چیلنج
اسی دورے پر نظر رکھنے والے ماہرین بتاتے ہیں کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف اور صدر شی جِن پنگ کے درمیان بشام کے حملے اور تحقیقاتی رپورٹ پر تفصیلی گفتگو بھی ہوئی۔ اس دوران پاکستان کے بیانیے، جس میں وہ پاکستانی طالبان پر مبینہ طور پر افغانستان کی سرزمین کو پاکستان میں حملہ کرنے کا الزام لگاتا رہا ہے، اسے بھی تقویت ملی۔
ضمیر اسدی بتاتے ہیں کہ ’اس سے یہ بھی ہو گا کہ افغانستان پر پاکستانی دباؤ کے ساتھ ساتھ چینی دباؤ بھی بڑھ جائے گا۔‘
حملوں پر تحقیقات کے بارے میں اس سے قبل بھی بات چیت جاری رہی ہے۔ اس سے قبل پلاننگ ڈویژن اور سپیشل انیشئیٹو کے وزیر احسن اقبال نے چھ مئی کو سی پیک منصوبوں کا حفاظتی جائزہ لیتے ہوئے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ جوائنٹ ورکنگ گروپ (جے سی سی) کی میٹنگ میں جس رفتار سے سکیورٹی اقدامات پر بات ہونی چاہیے تھی ویسے پچھلے چار سال میں نہیں ہوئی۔
احسن اقبال نے اس سے قبل بی بی سی کو بتایا تھا کہ کراچی یونیورسٹی میں چینی انسٹیٹیوٹ پر حملے کے بعد جہاں چینی افراد کی حفاظت ’فُول پروف‘ بنائی گئی، وہیں اقدامات کیے جا رہے ہیں کہ بلوچ نوجوانوں سے بھی بات چیت جاری رکھی جائے۔
جبکہ اسی اجلاس میں شامل وزارتِ داخلہ کے ترجمان کو بھی بتایا گیا کہ جو حفاظتی پروٹوکول سی پیک پر کام کرنے والے افراد کے لیے وضع کیے گئے ہیں ’وہ ان اقدامات پر عمل بھی کروائیں۔‘
دوسری جانب کراچی یونیورسٹی میں چینی انسٹیٹیوٹ میں حملے کے بعد صوبہ پنجاب اور دیگر صوبوں میں موجود درسگاہوں میں حفاظتی اقدامات بڑھا دیے گئے ہیں۔
تاہم پنجاب یونیورسٹی کے چیف سکیورٹی افسر کرنل عبید نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’حفاظتی اقدامات کرنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم سب کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں لیکن ہم یہ حق رکھتے ہیں کہ جانچ پڑتال کریں اور یہاں پر آنے والے ہر طالبعلم اور ٹیچر کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔‘
اب اگر بات کریں وزیرِاعظم کے اس دورے کی، جو کہ آٹھ جون یعنی آج اختتام پذیر ہو گا اور سی پیک میں مزید چینی دلچسپی کی، تو اس کے بارے میں خرّم حسین کہتے ہیں کہ ’چین شروع سے ہی سنکیانگ اور پاکستان اقتصادی راہداری کی بات کرتا رہا ہے نہ کہ پاک چین اقتصادی راہداری کی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’چین نے اکثر زراعت کے شعبے میں سرمایہ لگانے کی بات کی ہے نہ کہ آئی ٹی اور توانائی کے شعبے میں۔ یہ بات شہباز شریف کے حالیے بیانات کی نفی کرتی ہے۔ اور اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ چین پاکستان کی معیشت کے مسائل کو دیکھتے ہوئے، اس کے سکیورٹی چیلنجز دیکھتے ہوئے اور اس کے سیاسی مسائل دیکھتے ہوئے پاکستان میں مزید سرمایہ لگانا نہیں چاہتا اور یہ دورہ چینی قرضے کو کم کرنے کی مشق زیادہ اور سی پیک کو ’ری لانچ‘ کرنے کی مہم کم لگتی ہے۔‘