بدھ12جون2024ء کی صبح اٹھ کر یہ کالم لکھ رہا ہوں۔ آج سہ پہر مسلم لیگ (نون) کی تیسری حکومت نے اپنا پہلا بجٹ پیش کرنا ہے۔اصولی طورپر یہ کالم لکھتے ہوئے مجھے ممکنہ بجٹ کے خدوخال پر غور درکار تھا۔ مطلوب مشق سے مگر اجتناب کو ترجیح دے رہا ہوں۔ بنیادی وجہ اس کی یہ حقیقت ہے کہ معاشیات کی مبادیات سے بھی نابلد ہوں۔ قومی اقتصادی سروے کے ذریعے منگل کی سہ پہر جو اعدادوشمار قوم کے روبرو رکھے گئے ہیں انہیں بنیاد بناتے ہوئے یہ طے کرنے کے قابل ہی نہیں کہ وطن عزیز معاشی استحکام کی جانب بڑھ رہا ہے یا ہمارے مقدر میں فی الوقت اداسی ہی لکھی ہوئی ہے۔
وزیر خزانہ کی جانب سے پیش کردہ اعدادوشمار ٹِکروں کی صورت ٹی وی سکرینوں پر چلنا شروع ہوئے تو نجانے کیوں میری سوئی اس ’’خبر‘‘ پر ٹک گئی کہ گزشتہ برس ہمارے ہاں گدھوں کی تعداد میں دو لاکھ کا اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ بھیڑوں کی تعداد میں بھی چالیس لاکھ کی بڑھوتی ریکارڈ ہوئی۔ گدھا ہماری ثقافت میں بے وقوفی کی علامت ہے۔ باربرداری کے لئے استعمال ہونے کے باوجود اس کے دیگر پالتو یا ’’کارآمد‘‘جانوروں کی طرح نازنخرے نہیں اٹھائے جاتے۔گدھے جب بوجھ اٹھانے کے قابل نہ رہیں تو اس کے مالک انہیں اپنے ٹھکانوں سے دور علاقوں میں چھوڑ دیتے ہیں۔
چند برس قبل ’’ناکارہ‘‘ ٹھہرائے جانے کی وجہ سے ایسا ہی ایک گدھا اسلام آباد کے نواح میں واقعہ ایک بستی میں میری بیوی کو ورثے میں ملے زمین کے ایک ٹکڑے کے قریب کھڑا ہواملا تھا۔میری بیٹیاں اس کی لاوارثی اور بے بسی پر انتہائی پریشان ہوگئیں۔ ضد کرکے اسے پناہ دینے کا حکم صادر کردیا۔ اس کی خوراک پر موبائل فون کی مدد سے ’’ریموٹ‘‘ نگاہ رکھی۔ ایک ماہ گزرنے کے بعد وہ تندرست وتوانا نظر آنے لگا۔ میں اور بچے اس کے پاس جاتے تو عجیب وغریب آوازیں نکالتے ہوئے ہمارا ’’خیرمقدم‘‘ کرتا۔ ہم راستے میں اس کیلئے گاجریں وغیرہ خریدلیتے تو انہیں دیکھتے ہی مچل اٹھتا۔ بسا اوقات وہ چارہ کھانے میں مصروف ہوتا تو اپنے قریب کھڑے افراد کو دولتی مارنے کی دھمکی سے دوررکھتا تاکہ وہ چارے پر توجہ مرکوز رکھ سکے۔ ٹی وی سکرینوں پر گدھوں کی تعداد میں دو لاکھ اضافے کے ٹِکرچلتے رہے اور میں اس گدھے کے بارے میں سوچتا رہا جو لاوارثی کی وجہ سے ہماری ذمہ داری بن گیا تھا۔ اس کے بارے میں سوچتے ہوئے خیالات جس جانب بھٹک گئے اس کے ذکر سے اجتناب ہی بہتر ہے۔ سرجھکاکر آج کا کالم مکمل کرنا ہی عافیت کی ضمانت ہے۔
ذہن مگرکھسک چکا ہے۔ گدھوں کی تعداد نے خیال کی لو سے جوتصویریں ذہن میں ابھاریں ان سے جند چھڑائی تو بھیڑوں کی تعداد میں چالیس لاکھ کے اضافے والے ٹِکر نے ’’بھیڑچال‘‘ کے لفظ پر توجہ دینے کو مجبور کردیا۔ گزشتہ کئی برسوں سے ہمارے ہاں ایک سیاسی رہ نما دلاور دیوتا کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ سرکار کے حکم پر چلائے روایتی اخبارات اور ٹی وی چینل’’آزادی صحافت‘‘ کی خودساختہ علامتیں ہونے کے باوجود مگر اس کا نام نہیں لیتے۔ اب اسے ’’بانی‘‘ پکارا جاتا ہے۔ ’’قیدی نمبر804‘‘ اور ’’اڈیالہ جیل کا باسی‘‘ والے استعارے بھی کبھی کبھار استعمال کرنا پڑتے ہیں۔ روایتی میڈیا کے برعکس ’’متبادل‘‘ اور ’’حقیقی سچ‘‘ نظر بظاہر اب فقط سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارموں کے ذریعے ہی بیان ہورہا ہے۔ وہاں مگر ’’قیدی نمبر804‘‘کی عقیدت نے ایک اور نوعیت کی بھیڑچال متعارف کروادی ہے۔ عوام میں مقبول ہر یوٹیوب چینل کے لئے تیار ہوئی وڈیوز کا آغاز وانجام اس شخص کے ذکر ہی پر مبنی ہے جس کا روایتی میڈیا میں نام لینا ممنوع ٹھہرادیا گیا ہے۔
نہایت خلوص سے معذرت کا طلب گار ہوں۔جس روز یہ کالم چھپے گا آپ اخبارات اور ٹی وی چینلوں کی جانب سے وزیر خزانہ کے تیار کردہ اعدادوشمار پر توجہ دیتے ہوئے اپنی روزمرہّ زندگی پر اس کے اثرات کا جائزہ لے رہے ہوں گے۔ایسے نازک مرحلے پر گدھوں اور بھیڑوں کی تعداد میں اضافے کی خبر کی بنیادپر ہوئی یاوہ گوئی سے آپ ناخوش ہوسکتے ہیں۔ آپ کو خوش کرنے کو لیکن میرے پاس کوئی ٹھوس خبر موجود ہی نہیں۔
بجٹ تیار ہونے سے قبل ہماری وزارت خزانہ کے مختلف شعبوں کے چند افسر آئی ایم ایف سے مسلسل رابطے میں تھے۔ قومی اسمبلی سے بجٹ منظور ہوجانے کے فوری بعد ہماری حکومت کو آئی ایم ایف سے رجوع کرنا ہے۔ عالمی معیشت کے اس نگہبان ادارے سے ہم 6سے 8ارب ڈالر کا ایک پیکیج لینا چاہیں گے۔ آئی ایم ایف رضا مند ہوگیا تو مطلوب رقم ہمیں مختلف قسطوں میں ملے گی۔ ہر قسط کے حصول سے قبل ہمیں عالمی معیشت کے نگہبان ادارے کی عائد کردہ شرائط پر عملدرآمد کی ’’پراگرس رپورٹ‘‘ دکھانا ہوگی۔ جو رپورٹ درکار ہے وہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ یقینی بنانے کی ’’خبر‘‘ ہے۔ ہماری آمدنی اور خرچے کے مابین فرق کو کم کرنے کے لئے آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ حکومت اپنی آمدنی میں دو کھرب روپے (میں نے کھرب کا لفظ استعمال کیا ہے’’ارب‘‘ نہیں) نئے ٹیکس متعارف کروانے یا موجودہ ٹیکسوں میں اضافے کے ذریعے حاصل کرے۔ اس بھاری بھر کم رقم کا بوجھ ہمارے ہرشعبے کو برداشت کرنا پڑے گا۔
قومی اقتصادی سروے پیش کرتے ہوئے کاروباری اعتبار سے ایک کامیاب ترین بینک سے مستعار لئے وزیر خزانہ اورنگ زیب صاحب نے صاف لفظوں میں بتا دیا ہے کہ فی الوقت ہمارے پاس آئی ایم ایف کی پیش کردہ تجاویز (جنہیں شرائط کہنا چاہیے) سے جند چھڑانے کے لئے کوئی ’’پلان بی‘‘موجود ہی نہیں۔ کسی موذی مرض کے تکلیف دہ آپریشن کی طرح ہمیں نئے ٹیکس کا بوجھ لہٰذا برداشت کرنا ہی پڑے گا۔ اپریل 2022ء میں عمران حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے ہٹانے کے بعد ہم ملک کو دیوالیہ سے بچانے میں اپنا حصہ ڈالتے رہے ہیں۔ اب ’’معیشت کو بحال‘‘ کرنا مقصود ہے جس کے لئے ہم عامیوں کو مزید دو تین برسوں تک خود کو خط غربت کے قریب پہنچنے سے بچانا ہوگا۔ غلام علی کا گایا ’’تانگاں والے نین…‘‘لہٰذا لوپ کی صورت اپنے موبائل فون وغیرہ پر لگا لیجئے اور مسلسل انتظار کیجیئے کہ کب ہماری آنکھوں کو سکھ کی نیند نصیب ہوسکے گی۔