پاکستان کے شہر فیصل آباد میں یونیورسٹی آف ایجوکیشن کے محققین جس نسل کے بچھوؤں کو پکڑتے ہیں ان سے ملنے والے زہر کی قیمت عالمی سطح پر لاکھوں امریکی ڈالرز ہے۔ مثال کے طور پر اینڈروکٹنس جنس کے ان بچھوؤں کے زہر میں ایسی خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے اس کا ایک لیٹر دس ملین ڈالر تک بھی بکتا ہے۔
جہاں بچھوؤں کے زہر کے مہنگے ہونے کی ایک وجہ اس میں پوشیدہ چند نمایاں کیمیائی خصوصیات ہیں وہیں اس کے قیمتی ہونے کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان بچھوؤں کو پکڑنا انتہائی مشکل اور خطرناک کام ہے۔
موٹی دم والے اینڈروکٹنس جنس کے بچھو دنیا میں پائے جانے والے چند انتہائی زہریلے بچھوؤں میں شمار ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر محسن احسن بتاتے ہیں کہ ’اینڈروکٹنس اگر کسی چھوٹے بچے یا جانور کو ایک سے زیادہ مرتبہ کاٹ لے تو اس کی موت واقع ہو سکتی ہے۔‘
ڈاکٹر محسن یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور کے فیصل آباد کیمپس میں زوالوجی ڈیپارٹمنٹ میں پڑھاتے ہیں۔ وہ اور ان کے چند پی ایچ ڈی کے طالب علم ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کے ایک پراجیکٹ کے تحت بچھو پکڑنے کا کام گذشتہ چند برسوں سے کر رہے ہیں۔
بچھوؤں کو پکڑنے میں ایک مشکل یہ بھی ہے کہ یہ گرم موسم ہی میں ہائبرنیشن سے باہر آتے ہیں اور ان تک پہنچنے کے لیے ڈاکٹر محسن اور ان کی ٹیم کو صوبہ پنجاب کے دور دراز علاقوں کا سفر کرنا پڑتا ہے۔
ایسی ہی ایک مہم پر وہ ضلع تونسہ کے پہاڑی علاقے میں پہنچے تو ہم بھی ان کے ساتھ ہو لیے۔ یہاں دن کا درجہ حرارت 47 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ ہمیں وائلڈ میں جانے کے لیے اندھیرا ہونے کا انتظار کرنا ہے۔ رات کے پہلے پہر میں بچھو اپنی بلوں سے باہر آئیں گے۔
یہ ان کو پکڑنے کا بہترین موقع ہو گا لیکن مسئلہ یہ بھی ہے کہ صرف بچھو ہی باہر نہیں آئیں گے۔ یہ سانپوں کا بھی مسکن ہے اور پھر یہ بغیر چاند کے تاریک رات ہے۔ بچھو نظر کیسے آئیں گے۔
اندھیرے کا انتظار کیوں؟
ڈاکٹر محسن احسن اور ان کے ساتھیوں اسماعیل اور سمی نے ایک موزوں مقام پر گاڑی روکی ہے۔ ان کے خیال میں یہ بچھو کا مسکن ہے۔ انھوں نے پورے بازوؤں والی شرٹس پہن رکھی ہیں۔ نیچے اتر کر انھوں نے لمبی جرابیں اور موٹی سول والے جوتے پہنے ہیں۔
ان تینوں کے ہاتھوں میں خاص قسم کی ٹارچز ہیں اور آنکھوں پر انھوں نے خصوصی قسم کے چشمے لگا رکھے ہیں۔ یہ الٹرا وائلٹ روشنی والی ٹارچز ہیں اور خصوصی چشمے آنکھوں کو اس لائٹ سے ہونے والے ممکنہ نقصان سے بچانے کے لیے لگائے گئے ہیں۔
ڈاکٹر محسن نے بتایا کہ یو وی لائٹ ہی کی مدد سے وہ گھپ اندھیرے میں بچھوؤں کو تلاش کریں گے۔
’یہ لائٹ جب بچھو پر پڑتی ہے تو وہ چمکتا ہے۔ بچھو کے اندر ایسے کیمیکلز ہیں جن کی وجہ سے اس میں سبز رنگ کی چمک آ جاتی ہے۔‘
وہ چمکتے ہوئے بچھو کو ایک چمٹی کی مدد سے اٹھا لیتے ہیں اور ڈبے میں بند کر لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ شدید گرم موسم میں رات کے وقت اس علاقے میں آتے ہیں۔ ایک زرد روشنی والی ٹارچ وہ اپنے ساتھ راستہ دیکھنے کے لیے رکھتے ہیں۔
بچھوؤں کے لیے اتنا دور کا سفر کیوں؟
ڈاکٹر محسن احسن کہتے ہیں کہ یہاں انھیں کئی اقسام کے بچھو ملتے ہیں۔ یہ بچھو حجم میں بڑے ہوتے ہیں۔ ان میں زہر پیدا کرنے کی صلاحیت بھی زیادہ ہوتی ہے۔
’جب ہم انھیں لیبارٹری میں لے جاتے ہیں تو وہاں ہم ان سے زیادہ زہر حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ بچھو سائز میں بڑے اور انتہائی زہریلے ہیں۔‘
چمٹی کی مدد سے انھوں نے ایسا بچھو پکڑا، جو دوسروں کی نسبت کافی پھرتیلا ہے۔ یہ اینڈروکٹنس جنس کا بچھو ہے۔ اس کو دن کی روشنی میں دیکھیں تو اس کا جسم زردی مائل ہے، دم موٹی ہے جو مڑ کر اس کے جسم کے اوپر آ رہی ہے۔
اس کا ڈنک والا زہریلا حصہ کالے رنگ کا ہے۔ اس کے منھ کے سامنے موجود پنسرز بہت بڑے اور مضبوط ہیں۔ ان کی مدد سے وہ شکار کو دبوچتا ہے، ڈنک اس کے جسم میں داخل کرتا ہے، چند سیکنڈز میں شکار ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ بچھو اگلے کچھ منٹ میں اس کو نگل جاتا ہے۔
ڈاکٹر محسن بتاتے ہیں کہ ’اینڈرکٹنس کو پکڑتے وقت ہمیں خاص احتیاط سے کام لینا ہوتا ہے۔ یہ بہت پھرتیلا ہے۔ ہمیں اس کے کاٹنے سے بچنا ہوتا ہے ورنہ ہم طبی سہولیات سے بہت دور بیٹھے ہیں۔‘
لیکن جتنے اینڈروکٹنس جنس کے بچھو وہ زیادہ پکڑ رہے ہیں انھیں اتنا ہی اچھا محسوس ہو رہا ہے۔ ان کا زہر بہت قیمتی ہے۔
ڈاکڑ محسن کے مطابق ’اگر لیٹر میں بات کی جائے تو اس کی قیمت کئی ملین امریکی ڈالرز ہے اور اگر ملی لیٹرز کی بات کی جائے تو لاکھوں نہیں تو ہزاروں ڈالرز میں ان کی قیمت چلی جاتی ہے۔‘
بچھو کا زہر اتنا قیمتی کیوں ہے؟
یونیورسٹی آف ایجوکیشن کے ڈاکٹر محسن اس کی وجہ بتاتے ہوئے اس علاقے کی طرف اشارہ کرتے ہیں جہاں وہ موجود ہیں۔
’آپ یہ دیکھیں کہ ہم کتنا رسک لے کر کیسی خطرناک جگہ پر آئے ہوئے ہیں۔ یہاں ہمارا سامنا سانپوں سے بھی ہو جاتا ہے اور اتنے وقت میں ہمیں بہت تھوڑے سے بچھو مل پائے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں ان بچھوؤں میں سے بہت تھوڑی سی مقدار میں زہر نکلے گا۔ ایک بچھو سے محض چند مائیکرو گرام کے برابر زہر حاصل ہو سکتا ہے۔
’ایک تو ان کو پکڑنا بہت مشکل اور خطرے والا کام ہے۔ پھر ان سے نکلنے والے زہر کی مقدار بہت کم ہوتی ہے۔ ہمیں لیٹرز میں زہر لینے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں بچھو پکڑنے ہوں گے تب جا کر اتنا زہر نکل پائے گا۔‘
ان کے ساتھیوں نے درجن بھر سے زیادہ چھوٹے اور بڑے ڈبوں میں اس مہم پر پکڑے بچھو اٹھا رکھے ہیں۔ یہاں سے ان کا رخ قریبی انسانی آبادی کی طرف ہے۔
وہاں بھی دیواروں کی درزوں سے اور بلوں میں پانی ڈال کر باہر نکال کر انھوں نے کچھ مزید بچھو پکڑے ہیں۔ اس مہم سے پکڑے گئے تمام بچھوؤں کو وہ واپس فیصل آباد میں اپنی یونیورسٹی میں بنی لیبارٹری میں منتقل کریں گے۔
فیصل آباد میں لیبارٹری ڈاکٹر محسن نے مہم سے پکڑے تمام بچھووں کے لیے بنائی ہے۔ یہاں انھیں کچھ وقت کے لیے رکھا جائے گا تاکہ وہ سفر اور جگہ کی تبدیلی کے پریشر سے باہر آ سکیں۔
اس کے بعد ان بچھوؤں کا زہر حاصل کرنے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ وہ بچھو کو چمٹیوں کی مدد سے پکڑ کر ہلکے سے درجے کا بجلی کا جھٹکا دیتے ہیں۔ اس کے ڈنک کو ایک چھوٹی سی نلکی کے اندر ڈال دیا جاتا ہے۔
اس سے نکلے والا زہر اس نلکی میں جمع ہو جاتا ہے۔ کئی بچھوؤں سے اسی عمل کے ذریعے زہر نکالا جاتا ہے۔ جمع کیے گئے زہر کو وہ ایک خاص قسم کے کم درجہ حرارت والے فریزر میں منفی 86 درجہ حرارت پر محفوظ کر لیتے ہیں۔
اس زہر کو بعد میں مخلتف طریقوں سے تحقیق کی غرض سے تجربوں میں استعمال کرتے ہیں۔ ’ہم کینسر کے خلاف اس کی افادیت دیکھنے کے لیے تجربات کر چکے ہیں جو ہم نے سفید چوہوں پر کیے ہیں۔ ہمارے نتائج کے مطابق یہ کینسر کی بڑھوتی کو روکنے میں مفید ثابت ہوا۔‘
ڈاکٹر محسن کہتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ بچھو کے زہر کی قیمت اتنی زیادہ ہے۔ ’یہ کینسر کے علاج میں اس کو روکنے کی غرض سے استعمال ہونے والی ادویات میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ دافع درد ادویات میں بھی استعمال ہوتا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں اب تحقیق کرنے والوں کو بچھوؤں کے زہر میں اینٹی ایجنگ خصوصیات بھی مل رہی ہیں۔ یعنی بڑھاپے کے اثرات کو چھپانے یا کم کرنے والے علاج کے طریقوں میں بھی اس کا استعمال ہو رہا ہے۔
کیونکہ بہت بڑی مقدار میں اس کا ملنا نایاب ہے، اس کو حاصل کرنا مشکل ہے اور اس کی خصوصیات بہت زیادہ ہیں اس لیے اس کی قیمت بھی بہت زیادہ ہے۔
وہ یہ زہر کیوں حاصل کر رہے ہیں؟
ڈاکٹر محسن احسن کہتے ہیں کہ بچھوؤں کو پکڑ کر ان سے زہر حاصل کر کے وہ مختلف تجربات میں استعمال کرتے ہیں۔
’ان تمام تجربات کے اور مشاہدات کے نتائج ہم جمع کر رہے ہیں جو ہماری تحقیق کا حصہ ہیں۔ جب ہمارے پاس تمام نتائج مکمل ہو جائیں گے تو ہم ان کو کسی بین الاقوامی جریدے میں شائع کروا دیں گے۔‘
کینسر کے خلاف بچھو کے زہر کی افادیت جاننے کے لیے انھوں نے تاحال صرف جانوروں پر تجربہ کیا ہے۔ اس سے آنے والے تنائج کی تصدیق کے لیے ابھی اس میں بہت سے مراحل باقی ہیں جو خاص طور پر کنٹرولڈ ماحول میں کرنا ضروری ہوتے ہیں۔
ڈاکڑ محسن کہتے ہیں کہ آنے والے وقت میں اگر ضرورت پڑی تو وہ حکومت سے انھیں زیادہ سہولیات دینے کی درخواست کریں گے تا کہ وہ اپنی تحقیق کا استعمال کرتے ہوئے عملی طور پر ملک کو فائدہ پہنچا سکیں۔
ان کا اشارہ بچھو کے زہر کو استعمال کرتے ہوئے مقامی طور پر ادویات کی تیاری کی طرف ہے۔
ڈاکٹر محسن ایچ ای سی پاکستان کے پراجیکٹ کے تحت بچھوؤں کی پنجاب میں پائی جانے والی تمام نسلوں اور قسموں کا ریکارڈ بھی بنا رہے ہیں تا کہ ان کے غیر قانونی شکار کی روک تھام کے لیے قانون سازی کرنے میں مدد ہو پائے۔
کیا وہ اس زہر کو فروخت کرتے ہیں؟
ڈاکٹر محسن احسن نے بتایا کہ وہ بچھوؤں سے حاصل ہونے والے زہر کو صرف تحقیقاتی مقاصد کے لیے حاصل کرتے ہیں اور اسی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
’ہم اس کو باہر کسی کو بھی فروخت نہیں کرتے۔ بہت سی دوا ساز کمپنیوں اور بیرون ملک مقیم ریسرچرز نے ہم سے یہ زہر حاصل کرنے کے لیے رابطہ کیا لیکن ہم ان کو نہیں دے رہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ یہ زہر وہ صرف ان سائنسدانوں اور تحقیق کرنے والوں کو دیتے ہیں جو ان کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔
’جہاں تک اس کو فروخت کرنے کی بات ہے تو اگر کوئی ہماری یونیورسٹی کے ساتھ اس حوالے سے کوئی معاہدہ کرتا ہے تو پھر یہ یونیورسٹی کی صوابدید ہے کہ وہ اس حوالے سے فیصلے کرے۔‘
تاہم اب تک وہ جتنا بھی زہر جمع کر رہے ہیں اس کو محفوظ کر رہے جو ان کے اپنے تحقیقاتی پراجیکٹس میں استعمال ہوتا ہے۔ ایک بچھو سے زہر حاصل کر لینے کے بعد اسے واپس اینیمل ہاؤس منتقل کر دیا جاتا ہے۔
یہاں وہ 15 دن کے لیے ریچارج کرتے ہیں جس کے بعد وہ دوبارہ زہر دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ بچھو کو اگر موافق ماحول میسر رہے تو اس سے 20 مرتبہ سے بھی زیادہ زہر حاصل کیا جا سکتا ہے۔