ہمیں بتایا گیا ہے کہ ہمارے تین بڑے دشمن ہیں، انڈیا، دہشت گرد اور آئی ایم ایف۔
انڈیا سے ہم بات کرنا چاہتے ہیں مگر انڈیا ہم سے بات نہیں کرنا چاہتا۔ دہشت گرد تب سے دہشت گرد ہیں جب سے وہ ہمارے کام کے نہیں رہے اور آئی ایم ایف وہ ازلی دشمن ہے جس کے ساتھ بھی گزارا نہیں اور جس کے بغیر بھی گزارا نہیں۔
خوش قسمت ہیں وہ ریاستیں جنھیں ایسی خاندانی اشرافیہ میسر ہو جو آڑے وقت میں درپیش کسی بھی سنگین چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے عوام کو نہیں بلکہ خود کو آگے رکھتی ہیں۔ مگر ایسی مثالیں کم کم ہی پائی جاتی ہیں۔
پاکستان سمیت زیادہ تر ریاستوں کی اشرافیہ کا منشور یہ ہے کہ ’ہمارے پاس آؤ گے تو کیا لاؤ گے۔ ہم تمہارے پاس چل کے آئیں گے تو کیا دو گے۔‘
ایسے ’شرفوں‘ کو اپنی انتظامی و اقتصادی و سیاسی بے اعتدالیوں کو جاری رکھنے، ان پر پردہ ڈالنے یا ان کی ذمہ داری قبول کرنے سے بچنے کے لیے کوئی نہ کوئی پنچنگ بیگ درکار ہوتا ہے۔ ان دنوں چونکہ بجٹ کا موسم ہے لہٰذا آئی ایم ایف ہمارے فیورٹ پنچنگ بیگس میں سرِ فہرست ہے۔
عوام کو ریڑھے پر بٹھا کے قرضے اور خیرات مانگنے والوں کی جانب سے ہمیشہ یہ تاثر دیا جاتا رہا ہے کہ ہم تو عام آدمی کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں مگر موا آئی ایم ایف ہمیں ایسا کرنے نہیں دیتا۔
چلیں ایک لمحے کے لیے آئی ایم ایف کو بھول جائیں اور اپنی قومی آمدنی اور خرچ کی جمع تفریق کر کے عام آدمی کا بوجھ کم کر کے دکھائیں۔
سچ تو یہ ہے کہ ہماری سالانہ وفاقی آمدنی 100 روپیہ ہے۔ اس میں سے 58 روپے صوبے لے جاتے ہیں۔ اب مرکز کے پاس رہ گئے سو میں سے 42 روپے۔ مگر قرضوں کا سود 55 روپے ہے۔ جبکہ دفاع، سویلین انتظام اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے بھی کم ازکم 50 روپے مزید درکار ہیں۔ یعنی مرکز کو 42 روپے سے 105 روپے کی لازمی ذمہ داریاں پوری کرنے کا ناممکن کام درپیش ہے۔
اب دو طریقے ہیں اس مسئلے سے نمٹنے کے۔ اول یہ کہ جتنے لازمی اخراجات ہیں اتنی ہی آمدنی بھی بڑھائی جائے۔ نیت ہو تو یہ کوئی اتنا مشکل کام بھی نہیں۔
خام مال کو تیار مال میں بدل کے بیچنے اور باہر سے صرف لازمی ضرورت کی اشیا خریدنے کی پالیسی سے بھی آمدنی متوازن ہو سکتی ہے۔ ٹیکس چوروں پر پورا ہاتھ ڈال کے بڑھ سکتی ہے، جو حیلہ ساز مسٹنڈے اور شعبے اب تک ٹیکس سے بچتے آئے ہیں ان کی گردن پکڑ کے ٹیکس نیٹ میں لانے سے بھی آمدنی بڑھ سکتی ہے۔
وزارتوں اور محکموں کی تعداد کم کر کے یا انھیں ضم کر کے انتظامی اخراجات میں کمی سے بھی بڑھ سکتی ہے۔ عسکری و سویلین افسر شاہی کی غیر دفاعی و غیر انتظامی و غیر ضروری مراعات ختم کر کے یا مراعاتی عدم توازن مٹا کے بھی آمدنی بڑھ سکتی ہے۔ ہمسائیہ ممالک کو اقتصادی راہداری کی سہولت دینے اور اس کے عوض ٹرانزٹ فیس سے بھی کمائی ہو سکتی ہے۔
غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے امن و امان بہتر بنا کے اور ون ونڈو منظوری کا خودکار نظام نافذ کر کے اور علاقائی ممالک میں بیرونی سرمایہ کاروں کو حاصل مراعات کے برابر سہولتیں دے کر اور ان سے تجارت بڑھا کے بھی پیسہ بچایا اور کمایا جا سکتا ہے۔
دوسرا راستہ یہ ہے کہ قرض پر قرض لے کے کاروبارِ ریاست تب تک چلایا جائے جب تک اس ملک کی ہر قابلِ رہن شے کے عوض ادھار کے بوجھ سے ریاست کا بھٹہ نہ بیٹھ جائے۔
مگر یہ راستہ وہی اشرافیہ چن سکتی ہے جو اپنے ہی ملک کو ایک نوآبادی سمجھ کے چلا رہی ہو۔ جس نے ملک ڈوبنے یا ٹوٹنے کی صورت میں یہاں نہیں رہنا۔ اس نے اپنا، اپنے عزیزوں اور حواریوں کا بیرونی ممالک میں ایک جامع پیشگی بندوبست کر لیا ہو۔
ایسی اشرافیہ جو اندھی مراعات یا ملک کے مستقبل میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کے فیصلہ کن موڑ پر مراعات کسی صورت ترک نہ کرنے کی راہ پر لگ چکی ہو۔
اور جو بھی اس نظامِ بدمعاشیہ کو چیلنج کرتے ہوئے قومی معاشی و سیاسی ڈھانچے میں بنیادی اصلاحات کا مطالبہ کرے اشرافیہ اسے غدار قرار دینے میں زرا دیر نہ لگائے اور جلد از جلد بچا کھچا گوشت بھی ریاست کے پنجر سے اتارنے کے بعد رعایا کے لیے ہڈیاں چھوڑ کے آگے بڑھ جائے۔
نوبت جب ’کرو یا مرو‘ تک آ جائے تو جنتا کو بھی یہ کہہ کر ٹرک کی بتی کے پیچھے زیادہ دیر تک نہیں دوڑایا جا سکتا کہ ہم تو آپ کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں مگر آئی ایم ایف ہمیں کرنے نہیں دے رہا۔
اس ملک کے لوگ بھلے ’کنزیومر پرائس انڈیکس‘ نامی پرندے سے واقف نہ ہوں، خطِ غربت یا فوڈ سکیورٹی کس بلا کا نام ہے یا مائکرو اور میکرو انڈیکٹرز کا فرق نہ جانتے ہوں، خسارے کی سرمایہ کاری اور توازنِ ادائیگی کی اصطلاحات بھلے ان کے سر سے گزر رہی ہوں، مگر ایک بات سے اب بچہ بچہ واقف ہو چکا ہے کہ طوفان میں گھرے جہاز کے کپتان، سینئیر عملے اور درجہِ اول میں سفر کرنے والے شرفا کی توجہ روٹ میپ پر کم اور جہاز سے منسلک ہنگامی حالات میں استعمال ہونے والی لائف بوٹس پر زیادہ ہے۔
عرشے پر کھڑے وائلن نوازوں کو حکم ہے کہ تب تک ’سب اچھا ہے‘ کی دھن بجاتے رہو جب تک جان بچانے والی کشتیوں کی سواریاں پوری نہیں ہو جاتیں۔