سو طرح کی پابندیوں میں جکڑا پاکستان کا نام نہاد ’’مین سٹریم میڈیا‘‘ اس امر پر توجہ ہی نہیں دے رہا کہ خیبر سے گوادر تک پاکستان کے بیشتر شہروں میں مختلف مقامات پر بجلی کے گھریلو صارفین ٹولیوں کی صورت جمع ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ ’’بجلی کے بل -نامنظور‘‘ مذکورہ ٹولیوں میں واحد نعرہ کی صورت بلند ہوتا ہے۔ پولیس بے ساختہ انداز میں جمع ہوئی ان ٹولیوں کو روکنے کی کوشش نہیں کرتی۔ اکثر مقامات پر بلکہ نظر بھی نہیں آتی۔ احتجاجی ٹولیاں ویسے بھی توڑپھوڑ یا سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کی خواہاں نہیں۔دم گھونٹ دینے والی گرمی چند ہی لمحوں بعد انہیں نعرے بلند کرنے کے قابل بھی نہیں رہنے دیتی۔ بالآخر ایک دو افراد موبائل کیمروں کے روبرو بجلی کے بلوں کو جلاتے ہیں۔انہیں جلانے کے بعد طے نہیں کرپاتے کہ اب کہاں جائیں اور مزید کیا کریں۔ تھک ہارکر گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر میسر پاکستان کے مختلف شہروں کے چند مقامات پر بجلی کے بلوں کے خلاف دلوں میں جمع ہوئے غصے کے اظہار کے لئے اکٹھی ہوئی ان ٹولیوں کی ویڈیوز کو میں نے ’’مونتاڑ‘‘ کی صورت یکجاکروایا۔ ایڈیٹنگ کے بعد جو فوٹیج تیار ہوئی اسے بہت غور سے جانچا۔ کسی ایک بھی مقام پر مجھے کوئی سیاسی جماعت یا صارفین کا گروہ احتجاجی ٹولیوں کا اہتمام کرتا نظر نہیں آیا۔ محلوں اور بازاروں کے باسیوں کے مابین مشاورت ہی احتجاجی ٹولیوں کا باعث محسوس ہوئی۔ خیبر سے گوادر تک مگر ایک ٹرینڈ یا پیٹرن بنتا نظر آرہا ہے اور وہ یہ کہ گھریلو صارفین اور چھوٹے دوکانداروں کی کثیر تعداد اپنے تئیں بجلی کی ناقابل برداشت قیمتوں کے خلاف احتجاج کو بے چین ہے۔ کوئی سیاسی جماعت مگر ان کی قیادت کو آمادہ نہیں۔
میرے بچپن میں چینی کی قیمت بڑھنے کے بعد پاکستان کے مختلف شہروں سے بے ساختہ انداز میں ہوئے احتجاج کی خبریں اخباروں کے اندرونی صفحات میں ایک یا دوکالمی صورت میں چھپی نظر آتی تھیں۔ سیاسی جماعتیں ان کے احتجاج سے لاتعلق رہیں۔دریں اثناء آٹے کی قیمت بھی ناقابل برداشت ہوگئی۔ غالباََ ان ہی دنوں حبیب جالب صاحب نے وہ نظم لکھی ہوگی جس کے ذریعے ’’بیس روپے من آٹا‘‘ کے باوجود ملک پر چھائے ’’سناٹے‘‘ پر حیران کن پریشانی کا اظہار ہوا تھا۔ چند ہی ماہ بعد مگر کراچی سے طلبہ کی احتجاجی تحریک پھوٹ پڑی۔ راولپنڈی سے بھی طلبہ کا ایک گروہ لنڈی کوتل کی ’’سیاحت‘‘ کے بعد شہرلوٹ رہا تھا تو سٹرک پر لگے ایکسائز کے ناکوں سے اس کا پھڈا ہوگیا۔ اس پھڈے کے نتیجے میں پولیس کے ساتھ احتجاجی طلبہ کے جھگڑے شروع ہوگئے۔ اتفاقاََ ان دنوں ایوب حکومت سے مستعفی ہونے کے بعد ایک نئی جماعت یعنی پیپلز پارٹی کے بانی -ذوالفقار علی بھٹو- راولپنڈی آئے ہوئے تھے۔ وہ احتجاجی طلبہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے راولپنڈی کے مرکزی بازار آگئے۔ اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ ہے۔
1968ء کے برس سے ذہن میں جمع ہوئے مناظر پیر کے دن بجلی کے بلوں کے خلاف گھروں سے نکل کر پاکستان کے کئی شہروں میں مختلف مقامات پر جمع ہونے کے بعد نعرے لگانے والوں کی ٹولیوں کو دیکھ کر مسلسل یاد آرہے ہیں۔ان پر غور کرتے ہوئے خیال آیا کہ پاکستان کے کم آمدنی والے ہی نہیں بلکہ نظر بظاہر ’’خوش حال‘‘ متوسط طبقے کی اکثریت کے دلوں میں بھی مہنگائی کے طوفان کے خلاف جو غصہ جمع ہورہا ہے وہ عمران خان کی بنائی تحریک انصاف کو ایک بھرپور احتجاجی تحریک چلانے میں مددگارثابت ہوسکتا ہے۔ 8فروری 2024ء کے انتخاب کی بدولت واحد اکثریتی جماعت ابھرنے کے باوجود یہ جماعت مگر سڑکوں پر احتجاج کے لئے تیار نظر نہیں آرہی۔ ٹی وی سکرینوں پر و ہ سپریم کورٹ کے فل بنچ سے خواتین اور اقلیتوں کے لئے مختص نشستیں حاصل کرنے کو بے تاب ہے۔ اس کے علاوہ ’’قیدی نمبر804‘‘سے اڈیالہ جیل میں ملاقاتوں کی کاوشیں ہیں۔ ان دو موضوعات کے علاوہ وہ کسی اور بات کو زیر غور لاتے ہی سنائی نہیں دیتے۔
تحریک انصاف کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے منتخب ہوئی قیادت کی نظر بظاہر چند اہم عوامی مسائل کے بارے میں اختیار کردہ بے بسی یا لاتعلقی نے تحریک انصاف سے کڑا وقت آنے کے چند ہی دن بعد جدائی اختیار کرنے والے کچھ رہ نمائوں کے لئے انگریزی زبان کے مطابق لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کی گنجائش فراہم کی ہے۔ وہ اچانک عوام میں مقبول اینکروں کو روزانہ کی بنیاد پر میسر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ سابق وزیر اطلاعات فواد چودھری ان میں نمایاں ترین ہیں۔ نہایت ہوشیاری سے یہ پیغام اجاگر کررہے ہیں کہ عمران خان کے نام پر ووٹ حاصل کرنے کے بعد پارلیمان تک پہنچی تحریک انصاف کی قیادت اپنی جماعت کے بانی کی رہائی کے لئے مناسب حکمت عملی تشکیل دینے کے قابل ہی نہیں۔
تحریک انصاف کے ساتھ ڈٹے رہ نما فواد چودھری جیسے ناقدوں کو ’’کڑے وقت میں دغا دے جانے‘‘ کے طعنے دے رہے ہیں۔ ریگولر اور سوشل میڈیا پر لہٰذا دو سوال ہی چھائے ہوئے ہیں۔ زیادہ توجہ یہ طے کرنے پر مبذول ہے کہ تحریک انصاف ’’اپنے حصے‘‘ کی خواتین اور اقلیتوں کے لئے مختص نشستیں حاصل کر پائے گی یا نہیں۔ اس سوال کا اپنی خواہشات کے مطابق جواب فراہم کرنے کے بعد ’’ذہن ساز‘‘ یہ طے کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں کہ ’’تاریخ کے اس فیصلہ کن موڑ پر‘‘ سپریم کورٹ کے کون سے عزت مآب جج ’’حق وصداقت کے ساتھ‘‘ ڈ ٹ کر کھڑے ہیں۔ عدالتی معاملات کے بارے میں گرانقدرخیالات کے اظہار کے بعد ’’ذہن ساز‘‘ سوال یہ اٹھاتے ہیں کہ تحریک انصاف میں فواد چودھری کی واپسی ہوسکے گی یا نہیں۔ مذکورہ بالا سوالات تک محدود رہتے ہوئے کوئی ’’ذہن ساز‘‘ پاکستان کے بیشتر شہروں میں ’’بجلی کے بل نامنظور‘‘ کے نعرے بلند کرتے ہوئے اپنے گھروں سے بے ساختہ انداز میں احتجاج کی خاطر نکلی ٹولیوں پر کماحقہ انداز میں توجہ ہی نہیں دے رہا۔ مہنگائی کے خلاف برجستہ اور فطری احتجاج کی لہریں بالآخر کیا صورت اختیار کریں گی؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنا تو دور کی بات ہے۔