برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروسز کے پاس اب ہیموفیلیا بی نامی بیماری سے لڑنے والی ایک جین تھراپی کی سہولت دستیاب ہے۔ ہیموفیلیا ایک ایسی بیماری ہے جس میں مبتلا فرد کے خون میں ایسے پروٹینز کی کمی ہوتی ہے کہ جو خون کو جمنے میں مدد کرتے ہیں۔
ایلیٹ کولنز تجرباتی بنیادوں پر اس علاج کے آغاز سے اس کا حصہ رہے اور اُن پر پہلی مرتبہ تجربہ کیا گیا جس میں یہ ثابت ہوا کہ یہ علاج صحیح کام کر رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ ’صحت مند محسوس کر رہے ہیں‘ اور جین تھراپی نے انھیں ’نئی زندگی‘ دی ہے۔ تاہم اسے دُنیا کا ’مہنگا ترین علاج‘ قرار دیا جا رہا ہے جس پر 26 لاکھ پاؤنڈ کی لاگت آتی ہے۔
جب انسانی جسم پر کوئی چوٹ لگتی ہے یا زخم آتا ہے تو جسم خودکار طریقے سے اسے محسوس کرنے کے بعد دماغ کو یہ پیغام بھیجتا ہے کہ جسم کے فلاں حصے سے خون بہہ رہا ہے جس کے بعد انسانی جسم خون کے بہاؤ میں جمنے والے پروٹین کو فعال کرتا ہے۔
انسانی خون میں موجود یہ پروٹین زخم کی جگہ پر خون میں چپچپاہٹ پیدا کرتے ہیں اور پھر اس زخم کو خون کے جمنے سے بننے والے ایک لوتھڑے سے بند کر دینے میں مدد کرتے ہیں۔
لیکن پیدائش کے وقت سے ایلیٹ کے جسم میں موجود خون اسے جمانے والے ’فیکٹر 9‘ کو بنانے سے قاصر تھا۔
خون کے اندر اسے جمنے میں مدد کرنے والے اس عنصر کے بغیر اگر جسم پر کوئی زخم آ جائے تو خون جمتا نہیں اور بس بہتا رہتا ہے۔
ہیموفیلیا کے مریضوں کے لیے یہ اتنا خطرناک ہوتا ہے کہ اُن کے جوڑوں کے اندر بھی خون بہنے کا سبب بن سکتا ہے جس کی وجہ سے اکثر کہنی یا گھٹنے جیسے اہم جوڑوں میں یہ شدید نقصان کا باعث بنتا ہے۔
برطانیہ کے کولچیسٹر سے تعلق رکھنے والے 34 سالہ ایلیٹ بچپن میں یہ جانتے ہوئے بھی رگبی یا سکیٹ بورڈنگ میں حصہ لیتے رہے کہ انھیں ہیموفیلیا ہے۔ لیکن انھیں فٹ بال کھیلتے ہوئے لگنے والی چھوٹی سی چوٹ بھی خطرناک ثابت ہو سکتی تھی۔
ایلیٹ کو 29 سال تک ہفتے میں دو بار فیکٹر 9 کے انجیکشن کی ضرورت پڑتی رہی اور اگر انھیں کوئی چوٹ لگ جاتی تو ان ٹیکوں کی تعداد زیادہ ہو جایی۔ انھوں نے کہا کہ ’مجھے ہر وقت اس کے بارے میں سوچنا پڑتا تھا۔‘
لیکن انھوں نے جین تھراپی کے تجربات میں حصہ لیا جب یہ 2019 میں ابھی ابتدائی مراحل میں تھی۔
اس کے بعد سے، انھیں کسی فیکٹر 9 انجیکشن کی ضرورت نہیں پڑی اور ان کا کہنا ہے کہ اس نے ان کی زندگی بدل دی ہے۔
انھوں نے مجھ سے کہا کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ آپ 29 سال تک اس طرح کی کسی چیز سے گزر سکتے ہیں‘ لیکن اب ’میں ٹھیک محسوس کر رہا ہوں۔‘
حال ہی میں جب اُن کا گھٹنا اچانک الماری کے ساتھ ٹکرا گیا تو اُنھیں علم ہوا کہ یہ علاج واقعی کام کر رہا ہے۔
انھوں نے اپنے گھٹنے کو زور سے دبایا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ کہیں انھیں فیکٹر 9 انجیکشن کی ضرورت تو نہیں۔ لیکن انھوں نے دیکھا کہ جہاں انھیں چوٹ لگی وہاں صرف ایک چھوٹا سا نشان ظاہر ہوا۔
وہ کہتے ہیں کہ اس سے اُن کا یہ احساس اور یقین پختہ ہو گیا کہ یہ تھراپی حقیقی طور پر کام کر رہی ہے۔ ’اب میں پرسکون رہ کر زندگی گُزار سکتا ہوں۔‘
ٹیسٹ سے پتہ چلا کہ ایلیٹ کے خون میں فیکٹر 9 کی سطح 60 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔
یہ علاج کیسے کام کرتا ہے
ایلیٹ اپنے ڈی این اے میں ایک ایسے مسئلے کے ساتھ پیدا ہوئے تھے جس کا مطلب یہ تھا کہ اُن کے جسم میں فیکٹر 9 بنانے کی صلاحیت نہ ہونے کے برابر تھیں۔
لہذا ڈاکٹروں نے ان کے جسم میں انجینئرڈ وائرس داخل کیے جن کی مدد سے ان کے خون میں فیکٹر 9 کی سطح کو بلند کرنے کی کوشش کی گئی۔
یہ وائرس مائیکرو سکوپک پوسٹ مین کے ایک بیڑے کی طرح کام کرتے ہیں اور ان کی مدد سے جمنے والے پروٹین تیار ہو سکتے ہیں۔
یہ تقریبا ایک گھنٹے تک جاری رہنے والا انفیوژن تھا جس سے ایلیٹ پانچ سال بعد بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ لیکن ہر کسی کو ایلیٹ کی طرح اچھا ردعمل نہیں ملے گا۔ 54 مردوں پر تجربات میں، دو کو ابھی بھی فیکٹر 9 انجیکشن کی ضرورت پڑ رہی تھی۔ اور کوئی نہیں جانتا کہ یہ کب تک چلے گا۔
ایلیٹ کا کہنا ہے کہ ’میں اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہوں کہ یہ نیا طریقہ ہے، میں کسی بھی قسم کی بڑی مایوسی سے بچنے کے لیے خود کو تیار کر رہا ہوں۔‘
اتنا مہنگا علاج کیوں؟
یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا جین تھراپی پر اتنے پیسے خرچ کرنا مناسب ہے بھی کہ نہیں۔
عام طور پر مارکیٹ میں موجود خون کے جمنے کے لیے استعمال ہونے والے عنصر کے انجیکشن کی قیمت ڈیڑھ لاکھ پاؤنڈ سے دو لاکھ پاؤنڈ کے درمیان ہے لیکن جین تھراپی برینڈڈ ہیمجینکس کی قیمت 26 لاکھ پاؤنڈ ہے۔
ایلیٹ کا کہنا ہے کہ اب ان کے پاس کروڑوں پاؤنڈ کا خون ہے اور انھیں ’شاید لائف انشورنس ملنی چاہیے۔‘
یہ علاج کمپنی سی ایس ایل بیہرنگ، این ایچ ایس انگلینڈ اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اینڈ کیئر ایکسیلینس کے درمیان ایک معاہدے کے بعد پیش کیا جا رہا ہے۔
ایلیٹ کہتے ہیں کہ ’جیسا کہ میں سمجھتا ہوں، این ایچ ایس اس بات کا پتہ لگائے کہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک مریضوں کو کتنا فائدہ ہوتا ہے اور یہ طے کرے گا کہ سی ایس ایل بیہرنگ کو کتنی رقم ادا کی جاتی ہے۔‘
اگر فیکٹر 9 کی سطح توقع سے پہلے گر جاتی ہے تو، این ایچ ایس کم ادائیگی کرے گا۔ یہ بنیادی طور پر اس طرح کا پہلا معاہدہ ہے جس پر این ایچ ایس نے اتفاق کیا ہے۔
یہ تھراپی فوری طور پر آٹھ مراکز آکسفورڈ، مانچسٹر، لیڈز، برسٹل، برمنگھم، کیمبرج اور لندن کے دو مراکز میں دستیاب ہوگی۔
برطانیہ میں تقریبا 2000 افراد ہیموفیلیا بی کے مرض میں مبتلا ہیں اور این ایچ ایس ان میں سے 250 کا علاج کرے گا۔
ہر کوئی جین تھراپی کے لیے موزوں نہیں ہوگا کیونکہ کچھ بہت کم عمر ہیں یا صحت کے دیگر مسائل کا شکار ہیں جس کی وجہ سے اُن کی یہ تھراپی نہیں ہو سکتی۔
این ایچ ایس کے نیشنل میڈیکل ڈائریکٹر پروفیسر سر سٹیفن پووس کا کہنا ہے کہ ’تبدیلی لانے والی جین تھراپی ’حقیقی طور پر زندگی بدلنے والی‘ ہو سکتی ہے۔‘
’ایک بڑی اور حقیقی کامیابی‘
ہیموفیلیا ایک ایسی بیماری ہے کہ جو خاندانی طور پر آگے سے آگے چلتی ہے۔
ایلیٹ کے چھوٹے بھائی چھ دن کے تھے جب اُن کے دماغ میں خون بہہ جانے کی وجہ سے ان کی موت ہو گئی۔ ان کے ایک اور رشتہ دار 14 سال کی عمر میں اس بیماری سے ہلاک ہوئے۔
ہیموفیلیا میں مبتلا افراد کی جانب سے یہ مرض اکثر اُن کی بیٹیوں میں منتقل ہوتا ہے جو اس کی کیریئر بن جاتی ہیں۔
یہ تھراپی اس جینیاتی وراثت کو تبدیل نہیں کرے گی لہذا اسے حقیقی ’علاج‘ نہیں سمجھا جا رہا۔
تاہم ہیموفیلیا سوسائٹی کی چیف ایگزیکٹیو کیٹ برٹ کا کہنا ہے کہ یہ ایک ’حقیقی سنگ میل‘ ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ ’یہ حالات کو تبدیل کر سکتا ہے، یہ دہائیوں تک چل سکتا ہے اور اس مرض کو مکمل طور پر ختم کر سکتا ہے۔‘
اسی طرح کی جین تھراپی ہیموفیلیا اے کے لیے بھی تیار کی جا رہی ہیں، جو زیادہ عام ہے اور برطانیہ میں تقریبا 9،000 افراد کو متاثر کرتی ہے۔