سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کمیشن نے جسٹس عالیہ نیلم کو صوبہ پنجاب کی سب سے بڑی عدالت لاہور ہائی کورٹ کی چیف جسٹس نامزد کرتے ہوئے ان کے نام کی باقاعدہ منظوری دی ہے۔
جسٹس عالیہ نیلم لاہور ہائی کورٹ کی پہلی خاتون چیف جسٹس ہوں گی۔ وہ 2013 میں لاہور ہائی کورٹ کی جج مقرر ہوئیں اور انھیں 2015 میں مستقل جج تعینات کیا گیا۔
سپریم جوڈیشنل کمیشن کے اجلاس میں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے عہدے کے لیے تین سب سے سینیئر ججز جسٹس شجاعت علی خان، جسٹس علی باقر نجفی اور جسٹس عالیہ نیلم کے نام شامل تھے جس پر کمیشن نے جسٹس عالیہ نیلم کا انتخاب کیا۔
لاہور ہائیکورٹ کے سب سے سینیئر جج جسٹس شجاعت علی خان اس وقت قائم مقام چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہیں۔
ججز کی تعیناتی میں سینیارٹی کا تنازع
جسٹس عالیہ نیلم سینیارٹی کے اعتبار سے تیسرے نمبر پر تھیں اور اسی وجہ سے قانونی حلقوں میں اس پر ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔
بعض قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ مارچ 1996 کے الجہاد کیس میں یہ طے ہوا تھا کہ سب سے سینیئر جج ہی ہائیکورٹ کا چیف جسٹس مقرر ہوگا اور اس معاملے میں سینیارٹی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
1996 کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ لاہور ہائیکورٹ میں کسی جج کا تقرر سینیارٹی کے اصول کے ہٹ کر کیا گیا ہے۔
1996 میں اسی فیصلے کی بنیاد پر اُس وقت کے سب سے سینیئر جج جسٹس خلیل الرحمان خان، جنھیں وفاقی شرعی عدالت بھیج دیا گیا تھا، کو چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مقرر کیا گیا۔ مارچ 2024 کے دوران جسٹس ملک شہزاد احمد خان لاہور ہائیکورٹ کے وہ آخری چیف جسٹس تھے جن کا تقرر سینیارٹی کی بنیاد پر ہوا تھا۔
جوڈیشل کمیشن نے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس ملک شہزاد احمد خان کا سپریم کورٹ میں تقرر کرتے وقت چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے تقرر پر غور نہیں کیا اور اسی وجہ سے جسٹس شجاعت علی خان کو قائم مقام چیف جسٹس مقرر کیا گیا۔ اس سے پہلے 1996 میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس ارشاد حسن خان کو ججز کیس سے پہلے لاہور ہائیکورٹ کا قائم مقام چیف جسٹس مقرر کیا گیا تھا۔
ججوں کی تعیناتی میں سینیارٹی کا اصول
1996 سے اب تک سینیارٹی کے اصول کے تحت مختلف چیف جسٹس صاحبان کو اُن کے عہدے پر برقرار رکھا گیا ہے اور ان سے سینیارٹی میں کم ججز کو سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا جاتا رہا ہے۔
سب سے پہلے سابق فوجی صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دور میں اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار چودھری کو اُس وقت تک چیف جسٹس ہائیکورٹ کے عہدے پر برقرار رکھا جب تک وہ ریٹائر نہیں ہو گئے اور ان سے جونیئر جج کو سپریم کورٹ میں تعینات کیا گیا۔
لاہور ہائیکورٹ کی نئی چیف جسٹس عالیہ نیلم اس وقت سینیارٹی کے اعتبار سے تیسرے نمبر ہیں۔ تاہم ان کے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ بننے کے بعد ہائیکورٹ کی سینیارٹی لسٹ تبدیل ہو گئی ہے۔
الجہاد ٹرسٹ کے وہاب الخیری ایڈووکیٹ کی درخواست پر اُس وقت کے چیف جسٹس پاکستان جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں فل بنچ نے ججز کے تقرر اور ان کی سینیارٹی کے اصول کو معین کیا تھا۔
ججز کیس یعنی الجاد ٹرسٹ کیس کے عدالتی فیصلے سے پہلے سینیارٹی کے برعکس بھی چیف جسٹس صاحبان کا تقرر ہوتا رہا اور سینیارٹی نظر انداز ہونے کے باوجود ججز اپنے فرائض ادا کرتے رہے ہیں۔
لیکن اب صورتحال مختلف ہے اور آنے والے دن اس بات کا تعین کریں گے کہ سینیارٹی متاثر ہونے پر سینیئر ججز کیا فیصلہ کرتے ہیں۔
لاہور ہائیکورٹ کی خواتین ججز
لاہور ہائیکورٹ کی لگ بھگ 150 برس کی تاریخ میں گنی چنی خواتین ہی جج بنیں لیکن ان میں سے جسٹس عالیہ نیلم پہلی خاتون ہیں جن کو یہ اعزاز ملا۔ اب تک پانچ خواتین لاہور ہائیکورٹ کی جج بن چکی ہیں۔
پہلی مرتبہ سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں لاہور ہائیکورٹ میں خواتین ججز کا تقرر کیا گیا۔ ان میں جسٹس فخرالنسا کھوکھر، شاعر مشرق محمد اقبال کی بہو ناصرہ جاوید اقبال اور سابق وزیر ریحانہ سرور کی بہن طلعت یعقوب لاہور ہائیکورٹ کی جج مقرر ہوئیں۔
مارچ 1996 کے الجہاد ٹرسٹ کیس یعنی المعروف ججز کے فیصلے کی وجہ سے جسٹس فخرالنسا کھوکھر لاہور ہائیکورٹ کے عہدے پر برقرار رہیں جبکہ دیگر دو خواتین ججز کو اپنے عہدوں سے الگ ہونا پڑا۔
سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں لاہور ہائیکورٹ میں دوبارہ ایک خاتون جج کا تقرر ہوا۔ ناصرہ اقبال، جو سپریم کورٹ کے سابق جج جاوید اقبال کی اہلیہ ہیں، کو ایک مرتبہ پھر لاہور ہائیکورٹ کی جج مقرر کیا گیا لیکن وہ جج کے عہدے سے سبکدوش ہو گئیں۔
لاہور ہائیکورٹ کی جسٹس فخرالنسا کھوکھر لاہور ہائیکورٹ کی پہلی خاتون جج تھیں جو سب سے سینیئر جج کے عہدے پر فرائض رہیں لیکن انھیں لاہور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس نہیں بنایا گیا۔
جسٹس ریٹائرڈ فخرالنسا کھوکھر لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی صدر منتخب ہوئیں اور پھر پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی بنیں۔
وکلا تحریک کے بعد اُس وقت کے ساتھ چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار چودھری نے لاہور ہائیکورٹ میں ایک خاتون جج کا تقرر کیا اور اس طرح جسٹس عائشہ اے ملک لاہور ہائیکورٹ کی طرف جج مقرر ہوئیں۔
ان کے بعد جسٹس عالیہ نیلم کو لاہور ہائیکورٹ کا جج مقرر کیا گیا۔ جسٹس عائشہ اے ملک کو سینیارٹی کے اصول کے برعکس سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا گیا اور ان کے تقرر کو ججز کیس کے فیصلے کے منافی قرار دیا گیا۔
جسٹس عالیہ نیلم کے بعد لاہور ہائیکورٹ میں جسٹس ارم سجاد گل کا تقرر کیا گیا لیکن وہ ایڈیشنل جج کی حیثیت سے کام کرتی رہیں اور عہدے کی معیاد ختم ہونے پر سبکدوش ہوگئیں۔
نئی چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس عالیہ نیلم کون ہیں؟
فوجداری قانون میں مہارت رکھنے والی جسٹس عالیہ نیلم 12 نومبر 1966 کو پیدا ہوئیں۔ وہ 1995 میں وکالت کی ڈگری لینے کے بعد 1996 میں وکیل بنیں۔
فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی کے مطابق انھوں نے آئینی معاملات، وائٹ کالر کرائم، دیوانی، فوجداری، انسداد دہشت گردی کے قوانین، نیب، بینکنگ جرائم، خصوصی مرکزی عدالتوں کے قانون اور بینکنگ قوانین سے متعلق پریکٹس کر رکھی ہے۔
اس کے مطابق ’بار میں پریکٹس کرتے ہوئے انھوں نے کامیابی کے ساتھ متعدد مقدمات لڑے جن میں دیوانی قانون، فوجداری قانون، بینکنگ قانون اور انسداد دہشت گردی کے قوانین شامل ہیں۔‘
فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی کے مطابق انھوں نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں 2009 سے فروری 2013 تک تقریباً 91 مقدمات، لاہور ہائی کورٹ میں تقریباً 850 مقدمات اور ٹرائل کورٹس میں تقریباً 1473 مقدمات لڑے۔
وہ 2013 میں لاہور ہائی کورٹ کی ایڈجسٹ جج مقرر ہوئیں اور انھیں 2015 میں مستقل جج تعینات کیا گیا۔
جسٹس عالیہ نیلم نے کئی اہم مقدمات پر فیصلے کیے۔ وہ وزیر اعظم شہباز شریف کی منی لانڈرنگ کے الزام میں ضمانت منظور کرنے والے تین رکنی بنچ کی رکن تھیں۔
جسٹس عالیہ نیلم نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی نو مئی کے واقعات پر درج مقدمات کی انسداد دہشت گردی عدالت کے ضمانت مسترد کرنے کے خلاف درخواست پر فیصلہ دیا اور ضمانت کی درخواستوں کو بحال کیا۔
جسٹس عالیہ نیلم نے نو مئی کے مقدمات میں گرفتار خواتین خدیجہ شاہ اور عالیہ حمزہ سمیت دیگر ملزمان کی ضمانتیں منظور کیں۔
سپریم جوڈیشل کمیشن کی منظوری کے بعد پارلیمانی کمیٹی ان کی تعیناتی کی رسمی منظوری دے گی اور اس کے بعد صدر مملکت ان کی چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے عہدے پر تقرر کا نوٹیفیکیشن جاری کریں گے۔ پھر گورنر پنجاب ان سے اس عہدے کا حلف لیں گے۔
سپریم کورٹ کی جج مقرر نہ ہونے کی صورت میں وہ 11 نومبر 2028 کو چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے عہدے سے ریٹائر ہوجائیں گی۔