ایک سابق گینگسٹر اور بینک ڈکیت جو پہلے ایک نائٹ کلب کا مالک بنا، پھر سیاست دان اور اب حکومت کا حصہ بنتے ہوئے وزارت کے عہدے تک پہنچ گیا۔
یہ جنوبی افریقہ کے گائٹن مکینزی کی کہانی ہے جو ملک میں کھیلوں، آرٹ اور ثقافت کے وزیر بن چکے ہیں۔
جنوبی افریقہ کے صدر سرل رامافوسا نے 29 مئی کو ہونے والے انتخابات میں اپنی جماعت افریقن نیشنل کانگریس کی اکثریت کھونے کے بعد جب ایک اتحادی حکومت قائم کی تو انھوں نے پیٹریاٹک الائنس کے سربراہ گائٹن مکینزی کو بھی وزارت کا عہدہ سونپا۔
50 سالہ سابق گینگسٹر واضح طور پر اس اعلان پر خوش تھے۔ وہ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) کا بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں اور اپنی خوشی کے اظہار کے لیے بھی انھوں نے اسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا استعمال کرتے ہوئے فٹ بال کھیلنے والے جوتے پہنتے ہوئے اپنی تصویر شائع کرتے ہوئے لکھا: ’تمام تہنیتی پیغامات کے لیے شکریہ، میں کچھ ہی دیر میں جواب دوں گا کیوں کہ میں تیار ہونے میں مصروف ہوں، مجھے بہت کام کرنا ہے۔‘
مکینزی کے مداحوں کے لیے ان کی تعیناتی ایک نئی نشانی ہے کہ انھوں نے مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے کیسے کامیابی حاصل کی۔
گائٹن نے ایک مقامی ریڈیو سٹیشن کو دیے جانے والے انٹرویو میں بتایا تھا کہ 16 سال کی عمر سے پہلے ہی انھوں نے پہلی بار بینک لوٹ لیا تھا جس کے بعد وہ جرم کی دنیا میں باضابطہ قدم رکھتے ہوئے ایک فل ٹائم گینگسٹر بنے، پھر سات سال قید کاٹی اور رہا ہونے کے بعد خود کو بدلنے کا عہد کیا۔
2013 میں گائٹن نے سرکاری نشریاتی ادارے ایس اے بی سی کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’میری جیب میں شاید 12 رینڈ (جنوبی افریقہ کی کرنسی کا نام) ہوں گے لیکن میرے ذہن میں ایک ارب رینڈ تھے۔ اور یہی بات عام لوگ سمجھ نہیں پاتے۔ وہ اس چیز پر دھیان دینے کے بجائے کہ وہ کیسے کسی چیز کو پا سکتے ہیں اس نکتے پر مرکوز رہتے ہیں کہ ان کے پاس کیا نہیں ہے۔‘
گائٹن کی زندگی میں ایک نیا موڑ اس وقت آیا جب انھوں نے اپنی زندگی پر کتابیں لکھیں اور وہ کافی زیادہ معاوضہ پانے والے موٹیویشنل سپیکر بنے۔ انھوں نے جرم کی دنیا کو خیرباد کہتے ہوئے کاروباری دنیا میں قدم رکھا اور زمبابوے میں معدنیات کی کانوں سے لے کر جنوبی افریقہ میں نائٹ کلب تک میں سرمایہ کاری کی۔ اس سفر میں ان کے جیل کے وقت کے ایک ساتھی کینی کونینے بھی شریک تھے۔
کونینے کو ’سوشی کنگ‘ کا خطاب اس وقت ملا تھا جب جنوبی افریقہ کے بڑے شہر جوہانسبرگ میں واقع زار لاوئنج نائٹ کلب میں ان کی چالیسویں سالگرہ کی تقریب میں صرف زیر جامہ میں ملبوس خواتین کے جسم پر سوشی رکھ کر پیش کی گئی تھی۔
آئی او ایل نیوز سائٹ کے مطابق یہ نائٹ کلب بعد میں بند ہو گیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ کرایہ اور بجلی کا بل ادا نہ کیے جانے کے تنازع کی وجہ سے گائٹن مکینزی کے نام پر کیپ ٹاون میں رجسٹرڈ اسی نام کی ایک اور شاخ بھی بند ہو گئی تھی۔
اس وقت گائٹن مکینزی نے کہا تھا کہ ’مجھے کلبنگ میں دلچسپی نہیں ہے۔ میں اور منصوبوں میں مصروف ہوں۔ ہم نے زار برینڈ ختم کر دیا اور اسے دوبارہ کھولنے کا ارادہ نہیں ہے۔‘
آج کل ان کی شہرت ایک سیاست دان کے طور پر ہے جنھوں نے ’پیٹریاٹک الائنس‘ نام کی جماعت کا آغاز 2013 میں کونینے کے ساتھ مل کر کیا تھا جو نائب سربراہ ہیں۔
تقریبا ایک دہائی کے بعد ان کی جماعت ملک میں دو فیصد ووٹ حاصل کر چکی ہے جبکہ مغربی کیپ کی صوبائی حکومت کے انتخابات میں ان کی جماعت نے آٹھ فیصد ووٹ حاصل کیا ہے۔
ان کی جماعت کے نعرے کا مطلب افریقی زبان میں کچھ یوں ہے: ’ہم خوف زدہ نہیں‘۔ یہ افریکانز زبان کا جملہ ہے جسے بولنے والے جنوبی افریقہ کی آبادی کا آٹھ فیصد بنتے ہیں اور یہی آبادی گائٹن کی جماعت کی سب سے بڑے حامی ہے۔
جب الیکشن نتائج کا اعلان ہوا تو مکینری نے کہا کہ ’پیٹریاٹک الائنس کے ذریعے یہ لوگ پہلی بار پارلیمان تک پہنچیں گے۔ ہم واحد جماعت ہیں جو ہر نسل کو پارلیمان میں لے کر جائے گی۔‘
سیاسی تجزیہ کار کگیسو پوئی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’لوگ یقین کرنا چاہتے ہیں اور اپنے جیسے پس منظر سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کو جب یہ کہتے ہوئے سنتے ہیں کہ ہاں ہم ایسے ہی ہیں تو ان کو اچھا لگتا ہے۔ صدر زوما، صدر ٹرمپ جیسی شخصیات اسی طرح کی مثالیں ہیں۔‘
مکینزی کی انتخابی مہم میں ایسے تارکین وطن کو نشانہ بنایا گیا جو قانونی نہیں ہیں اور اسی بات پر تجزیہ کاروں کے مطابق ان کو شہرت بھی ملی۔
کگیسو کا کہنا ہے کہ مرکزی جماعتوں اور سیاست دانوں نے اس معاملے پر توجہ نہیں دی جبکہ گائٹن نے براہ راست اسی نکتے کو انتخابی نعرہ بنایا۔
مکینزی کی مہم کا نعرہ تھا ’ان کو نکلنا ہو گا‘ اور انھوں نے اس کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے زمبابوے کے ساتھ ملک کی سرحد کا دورہ کیا جہاں انھیں ملک میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے لوگوں کو واپس بھگانے کی کوشش کرتے دکھایا گیا۔
گائٹن پر دوغلے پن کا الزام بھی لگا۔ ان کے نقاد کہتے ہیں کہ 2013 کے ایک انٹرویو میں انھوں نے زمبابوے سمیت افریقہ کے دیگر حصوں سے آنے والے تارکین وطن کو جنوبی افریقہ کی معیشت کا لازمی حصہ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ ’مسئلہ ہمارے ساتھ، سیاہ فاموں کے ساتھ ہے، کیوں کہ ہم کاہل ہیں۔‘
جب انتخابات کے بعد اتحادی حکومت کے قیام کے لیے مزاکرات شروع ہوئے تو مکینزی نے کھلے عام اس خواہش کا اظہار کیا کہ داخلہ امور کی وزارت ان کے نائب یعنی کونینے کو ملنی چاہیے۔
گائٹن کی اپنی خواہش تھی کہ انھیں پولیس کی وزارت مل جائے کیوں کہ ان کے مطابق ان کی بطور گینگسٹر گزاری جانے والی زندگی کا تجربہ جنوبی افریقہ میں جرم کی بڑھتی ہوئی شرح پر قابو پانے میں مددگار ثابت ہو گا۔
ٹائمز لائیو ویب سائٹ نے ان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ’ہم قتل کے جرائم کی جو اوسط دیکھ رہے ہیں، کوئی اور سیاست دان مافیا سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ جنوبی افریقہ کو میری ضرورت ہے۔‘
تاہم یہ وزارت نہ ملنے پر انھوں نے بیان دیا کہ حقیقت میں انھوں نے افریقن نیشنل کانگریس سے خفیہ مزاکرات میں کھیلوں کی وزارت ہی طلب کی تھی۔
انھوں نے کہا کہ ’بچوں کی زندگیاں کھیلوں کی مدد سے تبدیل ہو سکتی ہیں۔ کھیلتا ہوا بچہ عدالت سے دور رہتا ہے۔‘
فیس بک پر کی جانے والی ایک پوسٹ میں گائٹن نے بیان دیا کہ ’میں نے ایک وعدہ کیا ہے کہ میں سپپنگ گاڑیوں کو ملک کا سب سے بڑا کھیل بنا دوں گا۔‘
یہ جنوبی افریقہ میں تسلیم شدہ موٹر سپورٹس ہے جس میں دائروں میں گاڑیوں کو چلاتے ہوئے ڈرائیور باہر نکل کر کرتب کرتا ہے۔
گائٹن کو وزارت سونپنے کا فیصلہ صدر رامافوسا کے لیے خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے کیوں کہ مغربی کیپ کی صوبائی حکومت، جہاں پیٹریاٹک الائنس کی مخالف ڈیموکریٹک الائنس جماعت برسراقتدار ہے، ان کے خلاف تحقیقات کر رہی ہے۔
گزشتہ سال تک گائٹن مکینزی وسطی کارو کے میئر تھے اور ان پر یہ الزام عائد ہوا تھا کہ انھوں نے 2022 میں ایک گالا کے دوران عوامی سہولیات کے لیے جمع کیے جانے والے تین ملیئن رینڈ کے فنڈ میں بے ضابطگیاں کیں۔
مقامی میڈیا کے مطابق گزشتہ ماہ ایک مقامی عدالت نے حکم دیا تھا کہ گائٹن تفتیش کرنے والوں کو مالی ریکارڈ فراہم کریں۔
ان کی جماعت نے اس فیصلے پر تنقید کی تاہم ڈیموکریٹک الائنس نے کہا کہ ’مکینزی کو جلد علم ہو گا کہ کرپشن کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔‘
مکینزی نے جواب میں ایکس کا استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ’سچ بہت جلد سامنے آئے گا۔ میں کچھ نہیں چھپا رہا۔ جھوٹ کی ٹانگیں چھوٹی ہوتی ہیں۔‘