پاکستان

عدالتی رپورٹنگ پر پابندی: عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا، اگلے ہفتے سنایا جائے گا

Share

اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدالتی رپورٹنگ پر پابندی کا پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دینے کی پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) اور اسلام آبادہائی کورٹ جرنلسٹ ایسوسی ایشن کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

ڈان نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کیس کی سماعت کی، وائس چیئرمین اسلام آباد بار کونسل عادل عزیز قاضی، سینئر وکیل اظہر صدیق عدالت میں پیش، اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر ریاست علی آزاد بھی عدالت پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران وکیل اظہر صدیق کی جانب سے مختلف عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیا گیا، وکیل اظہر صدیق نے بتایا کہ پیمرا پابندی معلومات تک رسائی کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، اگر اس معاملہ کو یہاں روکا نہیں جائے گا تو خطرناک نتائج ہوں گے۔

وکیل اظہر صدیق نے حامد میر اور ارشد شریف شہید کیس کا حوالہ بھی دیا، انہوں نے کہا کہ عدالت شہریوں کے بنیادی حقوق کو نظر انداز نہیں کرسکتی۔

وکیل اظہر صدیق کے دلائل مکمل ہونے پر وائس چیئرمین اسلام آباد بار کونسل عادل عزیز قاضی نے دلائل شروع کردیے، انہوں نے پاکستانی اور بین الاقوامی عدالتوں کے فیصلوں کا حوالہ دیا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے دریافت کیا کہ ایسا کیا رپورٹ ہوا تھا جس سے احکامات جاری کرنا پڑا؟ آپ سیدھا سیدھا پابندی پر ہی چلے گئے۔

اس پر پیمرا کے وکیل سعد ہاشمی نے جواب دیا کہ پیمرا نے اجازت دی ہے کہ جب تحریری فیصلہ آئے تو رپورٹ کرسکتے ہیں، جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ زمانہ تبدیل ہوچکا ہے، چیزیں تبدیل ہوچکی ہیں، ہمیں ان چیزوں کے ساتھ خود کو ڈھالنا ہے ، اسلام آباد ہائی کورٹ کی بات کروں تو ایسا کچھ نہیں کہ کہیں غلط رپورٹنگ ہوئی ہے، کل میں نے جو کہا وہ بالکل درست رپورٹ ہوا، میں نے ہر سیاسی جماعت کے رہنماؤں کے کیس سنے لیکن کوئی ایک کیس ایسا نہیں جو مس رپورٹ ہوا، ہم نے کبھی ایسا کچھ نہیں دیکھا کہ یہ کہنا پڑے یہ میں نے کہا ہی نہیں تھا۔

انہو نے مزید کہا کہ اگر کہیں غلط رپورٹنگ ہوئی ہے تو اس کے لیے بھی طریقہ کار موجود ہے، اس پر پیمرا کے وکیل نے بتایا کہ یہ ہدایت میڈیا چینلز کو جاری کی گئی ہیں،انہوں نے سپریم کورٹ کی ایک بھی گائیڈ لائن پر عمل نہیں کیا۔

اس پر عدالت نے استفسار کیا کہ سوال یہ ہے کہ بات پابندی کی طرف کیوں گئی؟ آپ کے سامنے کوئی کمپلینٹ نہیں آئی، ہوتی تو آپ یہاں پیش کر دیتے ، اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایسے کوئی شکایت نہیں بھیجی کہ غلط رپورٹنگ ہوئی ہے، کل ہم نے گھنٹوں سماعت کی لیکن سماعت کا حکمنامہ چار سطروں پر مشتمل تھا، جو عدالتی آبزرویشن ہیں وہ بھی رپورٹ ہوسکتی ہیں۔

اس پر وکیل نے بتایا کہ سپریم کورٹ میں عوامی مفاد کے مقدمات کی لائیو اسٹریمنگ ہوتی ہے، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ عامر فاروق یہاں بھی سب کیس رپورٹ نہیں ہورہے ہیں صرف پبلک نوعیت کے مقدمات رپورٹ ہورہے ہوتے ہیں، آپ بتا دیں غلط رپورٹنگ ہوئی اور پیمرا نے ایکشن لیا ہو، زمانہ آگے جارہا ہے واپس مت جائیں، ہم بہت پیچھے رہ جائیں گے، قانون قاعدے کے حساب سے آپ چلیں تو کوئی عدالت آپ کو نہیں روکے گی۔

وکیل پیمرا سعد ہاشمی نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ڈائریکٹو جاری کیا گیا، اس پر وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ یہ پتھروں کے دور میں واپس جانا چاہتے ہیں مگر میں نہیں جانا چاہتا، کوئی قانون کی خلاف ورزی کررہا ہے تو قانون کے مطابق طریقہ کار موجود ہے۔

بعد ازاں عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا، جسٹس عامر فاروق نے بتایا کہ آئندہ ہفتے فیصلہ سنایا جائے گا۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز عدالتی رپورٹنگ پر پابندی کا پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دینے کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ رپورٹرز تو بالکل درست رپورٹنگ کرتے ہیں، شام کو جو پروگرامز میں بیٹھ کر فیصلے سناتے ہیں وہ مسئلہ ہے۔

یاد رہے کہ 5 جون کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے عدالتی کارروائی کی رپورٹنگ پر پابندی سے متعلق کیس میں ریمارکس دیے کہ عدالتی رپورٹنگ پر کوئی پابندی نہیں ہے، میڈیا عدالتی کارروائی کو رپورٹ کرسکتا ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی نے زیر سماعت عدالتی مقدمات سے متعلق خبر یا ٹکرز چلانے پر پابندی عائد کردی تھی۔

پیمرا کے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ خبروں، حالات حاضرہ اور علاقائی زبانوں کے تمام ٹی وی چینلز زیر سماعت عدالتی مقدمات کے حوالے سے ٹکرز اور خبریں چلانے سے گریز کریں اور عدالتی تحریری حکمناموں کی خبریں بھی رپورٹ نہ کریں۔

اس سلسلے میں مزید کہا گیا کہ عدالت، ٹریبونل میں زیر سماعت مقدمات کے ممکنہ نتیجے کے حوالے سے کسی بھی قسم کے تبصرے، رائے یا تجاویز و سفارشات پر مببنی کوئی بھی مواد نشر نہ کیا جائے۔

بعد ازاں، عدالتی رپورٹنگ کے حوالے سے صحافتی تنظیموں نے پیمرا کی جانب سے عدالتی رپورٹنگ پر پابندی کے نوٹیفکیشن کو مسترد کردیا تھا۔

صحافتی تنظیموں پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن کا اجلاس منعقد ہوا جس میں عدالتی رپورٹنگ پر پیمرا کی جانب سے عائد پابندی کا جائزہ لیا گیا۔

صحافتی تنظیموں نے پیمرا کی جانب سے عدالتی رپورٹنگ پر پابندی کے نوٹیفکیشن کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ پیمرا نوٹیفکیشن کو آزادی صحافت اور آزاد عدلیہ کے خلاف قرار دیتے ہیں۔

اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ پاکستان کا آئین آزادی اظہار رائے اور معلومات تک رسائی کا حق دیتا ہے اور پیمرا عدالتی کارروائی کو رپورٹ کرنے پر پابندی لگانے کا اختیار نہیں رکھتا۔

اس حوالے سے کہا گیا کہ پیمرا نوٹیفکیشن آئین کے آرٹیکل 19 اور 19۔اے کی صریحاً خلاف ورزی ہے اور مطالبہ کیا کہ عدالتی رپورٹنگ پر پابندی کا نوٹیفکیشن واپس لیا جائے۔