وہ چار ٹیسٹ جو شادی کے بعد آپ کو جنسی اور جینیاتی بیماریوں سے بچا سکتے ہیں
پاکستان میں ایسے متعدد خاندان ہیں جن کی شادیاں تو بڑی خوشیوں اور چاہ سے ہوئیں لیکن شادی کے بعد وہ مشکلات کا شکار ہو گئے۔ کوئی جینیاتی مسائل کا شکار ہوا تو کسی کی اولاد تھیلیسیمیا اور دیگر امراض میں مبتلا ہو گئی۔
اس وجہ سے اب شادی کرنے والے جوڑوں کے لیے چند اہم احتیاطی تدابیر اور میڈیکل ٹیسٹ انتہائی ضروری قرار دیے جا رہے ہیں۔
شادی طے ہونے کے بعد جینیاتی، موروثی، جراثیمی اور بانجھ پن کے ٹیسٹ اس لیے بھی ضروری ہیں کہ تاکہ کہیں شادی کا خوشگوار احساس مشکلات کی نظر نہ ہو جائے۔
اگرچہ کچھ لوگ ان حقائق پر کان دھرنے کی بجائے من گھڑت مفروضوں پر اکتفا کرتے ہیں لیکن ڈاکٹروں کے مطابق ان طبی معائنوں سے آپ مستقبل میں مختلف پریشانیوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔
جنسی تعلق سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے ٹیسٹ
ڈاکٹر حمیرا اچکزئی پشاور کے رحمان میڈیکل کمپلیکس میں ایک ماہر فزیشن ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب لوگوں کو اس بارے میں جاننا انتہائی ضروری ہے کیونکہ جراثیم سے یا موروثی طور پر بھی ایسی بیماریاں پائی جاتی ہیں جو شادی کے بعد اکثر جوڑوں میں نمایاں ہوتی ہیں۔
یہ بیماریاں زندگی کے ساتھ ہمیشہ رہتی ہیں۔ ان میں سے بعض بیماریوں کا علاج ممکن ہے لیکن بعض بیماریاں ایسی ہیں جن سے نہ صرف شادی کرنے والے مرد اور عورت متاثر ہوتے ہیں بلکہ آئندہ پیدا ہونے والے بچوں میں بھی یہ امراض پھیل سکتے ہیں۔
جنسی تعلق سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی تشخیص کے لیے چار میڈیکل ٹیسٹ یا طبی معائنے ہیں نہایت اہم ہیں۔ ان ٹیسٹس میں ایچ آئی وی، ہیپاٹائٹس بی، سی اور جنسی تعلق سے پھیلنے والے دیگر امراض کے معائنے شامل ہیں۔
اگر کسی میں ایچ آئی وی پازیٹو ہے تو آپ کو یہ جاننا ضروری ہے کہ آپ کیا احتیاط کر سکتے ہیں اور اس کا حل مل بیٹھ کر تلاش کیا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ جنسی تعلق سے پھیلنے والی بیماریاں ایسی ہیں جن کا اگر وقت پر علاج کرا لیا جائے تو بانجھ پن اور اسقاط حمل جیسے حالات سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔
جینیاتی بیماریوں کا ٹیسٹ
یہ وہ بیماریاں ہیں جو انسانوں میں جینیاتی طور پر پائی جاتی ہیں جن میں تھیلیسیمیا بہت نمایاں ہے اور پاکستان میں اس بیماری سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
ڈاکٹر حمیرا اچکزئی کے مطابق جینیاتی امراض سب سے زیادہ اہم ہیں کیونکہ آج کل ہر دوسرے گھر میں تھیلیسیمیا کے مریض پائے جاتے ہیں۔
تھیلیسیمیا بنیادی طور پر خون کی کمی سے تعلق رکھنے والی بیماری ہے جس سے زیادہ تر بچے متاثر ہوتے ہیں۔ بچوں پر جو گزرتی ہے وہ تو اپنی جگہ لیکن والدین اس دوران علیحدہ کرب اور تکلیف سے گزرتے ہیں۔
حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں تعینات لیڈی ڈاکٹر صائمہ ایوب نے بتایا کہ ایک عام آدمی بظاہر صحت مند ہوتا ہے لیکن اس میں تھیلیسیمیا مائنر کے جراثیم پائے جاتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اگر یہ جراثیم میاں اور بیوی دونوں میں موجود ہوں تو اس سے تھیلیسیمیا میجر کا بچہ پیدا ہو سکتا ہے۔‘
ڈاکٹر حمیرا اچکزئی نے بتایا کہ ان کے پاس ایسے جوڑے علاج کے لیے آتے ہیں جنھیں اس بارے میں بالکل بھی آگہی نہیں ہوتی اور اب ان کے گھر ہونے والے بچوں میں دو یا دو سے زیادہ تھیلیسمیا کا شکار ہیں۔
اس مرض پر بہت تحقیق ہو چکی ہے لیکن اب تک اس کا کوئی موثر علاج سامنے نہیں آیا۔ اس مرض کے دوران شدید تکلیف سہنے کے بعد بچہ عمر کی ایک حد تک پہنچ کر ہلاک ہو جاتا ہے۔
اگرچہ اس مرض کی تکلیف دور کرنے کے لیے ادویات موجود ہیں اور بچے کو خون کے ڈرپ بھی لگائے جاتے ہیں جو اپنی جگہ ایک انتہائی مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔
اس تکلیف سے بچنے کے لیے شادی کرنے والے جوڑے کو اس مرض سے بچاؤ کے ٹیسٹ کروانا ضروری ہے۔
ڈاکٹرحمیرا اچکزئی نے بتایا کہ ’اس مرض کے امکانات خاندان کے اندر شادی کرنے سے بڑھ جاتے ہیں لیکن ایسا لازمی بھی نہیں ہے کیونکہ تھیلیسیمیا کے جراثیم کسی میں بھی پائے جا سکتے ہیں۔‘
’ہمیں اس بارے میں علم نہیں تھا‘
اگر آپ پشاور کے علاقے حیات آباد میں قائم تھیلیسیمیا کے علاج کے مرکز فاطمید فاؤنڈیشن جائیں تو آپ کو وہاں ایک بڑی تعداد ایسے بچوں کی ملے گی جو تھیلیسیمیا کا شکار ہونے کے باعث خون کے ڈرپ لگوا رہے ہوں گے۔
اس مرکز کے عہدیدار محمد اخلاق نے بتایا کہ یہاں آنے والے مریضوں کی تعداد میں وقت گزرنے کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان میں ہرسال 5000 بچے تھیلیسیمیا کا شکار ہوتے ہیں جبکہ ملک کی کل آبادی میں سے چھ فیصد افراد میں تھیلیسیمیا مائنر کے جراثیم پائے جاتے ہیں۔
پشاور کے ایک شہری عبدالعزیز اپنے بچے کے علاج کے لیے فاطمید فاؤنڈیشن میں موجود تھے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے خاندان میں تھیلیسیمیا کا کوئی مریض نہیں ہے اور انھوں نے شادی خاندان سے باہر کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں اس بارے میں علم نہیں تھا ورنہ ہم معائنہ ضرور کرواتے اب ہم اپنے بچے کو دیکھ دیکھ کر پریشان ہوتے ہیں لیکن پچھتاوے کے علاوہ ہمارے پاس اب کچھ نہیں ہے۔‘
موروثی امراض کا ٹیسٹ
یہ ایسی بیماریاں ہیں جو خاندان سے چلتی آئی ہیں۔ یہ بیماریاں ہر انسان میں اپنی ہسٹری رکھتی ہیں۔
موروثی امراض میں اگر خاندان میں کوئی ذہنی یا جسمانی معذور افراد ہیں یا کوئی ایسے شواہد سامنے آئے ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ٹیسٹ کروایا جائے۔
ڈاکٹر حمیرا اچکزئی کے مطابق ’یہ ایک مخصوص ٹیسٹ ہوتا ہے اور یہ معائنہ ہم مریض یا حاندان کی ہسٹری دیکھ کر تجویز کرتے ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’موروثی امراض عموماً ان جوڑوں میں ہوتے ہیں جو خاندان کے اندر شادیاں کرتے ہیں جیسے کزنز کے درمیان شادیوں میں اس طرح کی بیماریوں سامنے آجاتی ہیں۔
’ان امراض میں ذیابطیس اور بلند فشار خون یا بلڈ پریشر کے امراض بھی شامل ہیں۔‘
بانجھ پن کا ٹیسٹ
دنیا کے مختلف ممالک میں بانجھ پن کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے اور چین میں بانجھ پن کا ٹیسٹ ضروری قرار دیا جا چکا ہے۔
اس ٹیسٹ میں یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ نئے جوڑے میں بچے پیدا کرنے کی صلاحیت کتنی ہے۔
ڈاکٹروں کے مطابق یہ انتہائی حساس معاملہ ہے اور اکثر شادی سے پہلے مرد یا خاتون اس طرح کے ٹیسٹ کرانے سے انکار کر دیتے ہیں اور پھر شادی کے بعد مختلف مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں۔
پاکستان سمیت متعدد ممالک میں جن جوڑوں کے ہاں بچے پیدا نہیں ہوتے انھیں متعدد معاشرتی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس مسئلے میں اکثر اوقات خواتین کو مورد الزام ٹھرایا جاتا ہے جبکہ ڈاکٹروں کے مطابق بانجھ پن کے مسائل مردوں میں بھی پائے جاتے ہیں اور اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ مرد اپنا ٹیسٹ ضرور کروا لے۔
ڈاکٹر حمیرا اچکزئی نے بتایا کہ ’یہ حساس مسئلہ ہے اور اس طرف پاکستان میں توجہ کم دی جاتی ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں میں شعور آرہا ہے اور آئندہ لوگ یہ معائنہ بھی ضرور کرائیں گے۔