سنا ہے آج (منگل) الحمرا آرٹس کونسل لاہور میں ممتاز دانشور وارث میر کی یاد میں ایک عظیم الشان تقریب ہو رہی ہے جس کی صدارت صدر پاکستان آصف علی زرداری فرمائیں گے۔ الحمرا آرٹس کونسل میرے آفس سے ایک آدھ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے میں اس بہت بڑے ثقافتی ادارے کا آٹھ سال تک چیئرمین بھی رہا ہوں مگر میں اس تقریب میں شرکت نہیں کر سکوں گا کیونکہ دعوت نامے کے بغیر آپ تقریب میں شرکت نہیں کر سکتے اور مجھے دعوت نامہ نہیں ملا اور جنہیں دعوت نامہ ملا بھی ہے وہ پہلے غالباً شاہی قلعہ جائیں گے وہاں دعوت نامہ شو کریں گے اور اس کے بعد انہیں گاڑیوں میں بیٹھا کر الحمرا ڈراپ کیا جائے گا۔اس تقریب کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اظہار خیال کرنے والوں کے نام یا تو صیغہ راز میں رکھے گئے ہیں یا میرے علم میں نہیں ہیں، صرف ایک سہیل وڑائچ کے نام کا مجھے علم ہے جو یہاں بطور مقرر مدعو ہیں۔ سو اللہ جانے یہاں تقریریں ہوں گی یا صرف وارث میر کے لئے دعائے خیر کی جائے گی۔
مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ وارث میر کے دوستوں میں میرا نام آتا ہے ۔میر صاحب خوبرو خوش مزاج اور خوش گفتار تھے ۔پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ صحافت سے منسلک رہے میرے دوست شعیب بن عزیز ان دنوں صحافت کے طالب علم تھے ان کے ایم اے کے تھسیز کا موضوع ایک نامور صحافی کی حیات اور صحافتی خدمات کے حوالے سے تھا ،میں ایکسٹرنل ایگزامینرتھا اور ڈاکٹر عبدالسلام خورشید اور وارث میر انٹرنل تھے، اس روز میں نے محسوس کیا کہ وارث میر اپنے شاگردوں کو انٹرویو کے دوران بلاوجہ روکتے ٹوکتے نہیں بلکہ انہیں نروس کیےبغیر پوری دیانت داری سے ان کے کلام کو جانچتے ہیں اور ایسا میں نے صرف ایک بار نہیں دیکھا بلکہ انہوں نے جب کبھی مجھے لیکچر کے لئے مدعو کیا میں نے ان کے اور طلبا کے درمیان بہت مضبوط رشتہ محسوس کیا۔
مگر اصل وارث میر صرف ایک اچھا استاد نہیں تھا بلکہ ایک حریت پسند دانشور تھا، میں ان کے مضامین حنیف رامے کے مجلہ ’’نصرت‘‘ میںپڑھتا رہا ہوں میرصاحب اسلامی سوشلزم میں پاکستانی عوام کی نجات سمجھتے تھے وہ انقلابی تھے مگر ایسے انقلابی جو پاکستان کے اندر سے اٹھنے والی انقلابی لہروں کے خواہشمند تھے وہ ’’مسلمان ترقی پسند‘‘ تھے اور میرے خیال میں ہر سچا مسلمان ترقی پسند ہوتا ہے وہ مزدوروں ،کسانوں اور پاکستانی عوام کے ان تمام محروم طبقوں کو ان کے حقوق دلانا چاہتے تھے جن سے وہ محروم چلے آ رہے ہیں ۔وہ رپورٹر نہیں تھے اعتزاز احسن کو غلط فہمی ہوئی اور اس وجہ سے کہ میرصاحب جلسے جلوسوں میں بھی شرکت کرتے تھے۔ بند کمروں میں بیٹھ کر تجزیئے نہیں لکھے جاتے اس کے لئے عوام کے درمیان ہی جانا پڑتا ہے میں میرصاحب کے کالم کے نام پر لکھی گئی تحریروں کو کالم نہیںمانتاوہ دانشورانہ تجزیئے تھے اور میرے نزدیک ان کا ایک جامع انتخاب شائع ہونا چاہئے ۔
میں نے خوش باش رہنے والے وارث میر کو ان دنوں بہت مغموم دیکھا جب مشرقی پاکستان میں اپنے حقوق کے حصول کے لئے تحریک شروع ہوئی۔ بنگالی پاکستان کے خلاف نہیں تھے کہ وہ تو تحریک پاکستان کے ہر اول دستے میں شامل تھے مغربی پاکستان میں کچھ لوگ نہیں بلکہ اکثریت انہیں غدار سمجھتی تھی اور انہیں ’’غدار بنگالی‘‘ کا لقب دیا گیا تھا مگر وارث میر اور سینٹ کے کچھ رہنما چاہتے تھے کہ یہ معاملہ باہمی گفت وشنید سے طے کیا جائے یہ سلسلہ شروع بھی ہوا مگر بوجوہ ناکام ہو گیا اور مشرقی پاکستان میں ملٹری آپریشن کا آغاز ہوگیا۔وارث میر فوجی کارروائی کےسخت خلاف تھے اور انہوں نے اپنا نقطہ نظر بہت ٹھوس دلائل کے ساتھ پیش کیا۔دوسری طرف مکتی باہنی سرگرم عمل ہو گئی تھی اور ہماری فوج اور مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والوں کے علاوہ متحدہ پاکستان کے حامیوں پر حملہ آور ہونے لگی تھی اور یوں دونوں جانب سے جانی نقصان کی تعداد میں اضافہ شروع ہو گیا تھا ۔مغربی پاکستان میں عمومی طور پر بنگالیوں کو غدار قرار دیا جا رہا تھا مگر وارث میر اور دوسرے بہت سے دانشور دہائی دیتے رہے کہ گفتگو کے دروازے بند نہ کئے جائیں، کاش ان کی بات مان لی جاتی اگر فیڈریشن نہیں تو کنفیڈریشن بن سکتی تھی مگر افسوس ایسا نہ ہوا اور ہمارا ملک دو ٹکڑے ہو گیا۔
وارث میر اللہ تمہارے مرقد کو اپنی رحمتوں سے سدا منور رکھے تم ان پاکستانیوں میں سے تھے جنہوں نے پاکستان کو دولخت ہونے سے بچانے کے لئے فرض کفایہ ادا کیا۔
(مذکورہ کالم منگل 9جولائی کو لکھا گیا مگر بوجوہ شائع نہ ہو سکا )