ہیڈلائن

فوجی عدالتوں میں شہریوں کا ٹرائل: انسانوں کے ساتھ غیر انسانی برتاؤ نہ کریں، سپریم کورٹ

Share

سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ انسانوں کے ساتھ غیر انسانی برتاؤ نہ کریں۔

ڈان نیوز کے مطابق جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل منصور اعوان روسٹرم پر آگئے، انہوں نے بتایا کہ ملزمان کے ساتھ میٹنگ فکس ہیں، صرف لاہور میں ملاقات کا مسئلہ بنا تھا، حسان نیازی لاہور میں ہیں، میں نے متعلقہ حکام کو تجویز دے دی ہیں۔

اگر تفتیش مکمل ہوگئی تو جوڈیشل کسٹڈی میں کیوں ہیں؟ جسٹس جمال مندوخیل

اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر تفتیش مکمل ہوگئی تو جوڈیشل کسٹڈی میں کیوں ہیں؟ پھر تو معاملہ ہی ختم ہوگیا، انسانوں کے ساتھ انسانوں والا سلوک کریں، ، جسٹس عرفان سعادت نے ریمارکس دیے کہ انسانوں کے ساتھ غیر انسانی برتاؤ نہ کریں۔

اس موقع پر وکیل لطیف کھوسہ نے بتایا کہ میاں عباد فاروق فوجی تحویل میں ہیں، ان کے 5 سال کے بیٹے کی وفات ہوئی ہے مگر اس کے باوجود بھی میاں عباد فاروق کو ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی۔

اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کروائی کہ آج ان کی ملاقات ہو جائے گی، آج حفیظ اللہ نیازی صاحب کی بھی اپنے بیٹے سے ملاقات ہونی ہے۔

کیا ہر سماعت پر ہمارا آرڈر درکار ہے؟ عدالت

بعد ازاں جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا ہر سماعت پر ہمارا آرڈر درکار ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ ملزمان کا اگر جسمانی ریمانڈ ختم ہو گیا ہے تو وہ جیل میں کیوں نہیں ہیں ؟ اٹرانی جنرل نے بتایا کہ ملٹری کورٹس میں جوڈیشل ریمانڈ نہیں دیا جاتا، اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ اہل خانہ سے ملاقاتیں کرانے کے لیے فوکل پرسن کون ہے؟

اس موقع پر ڈائریکٹر لا بریگیڈیئر عمران عدالت میں پیش ہوئے۔

انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ایک نمبر ملزمان کے اہلخانہ کو دیا گیا ہے جس پر وہ رابطہ کرسکتے ہیں، وہ نمبر ہر وقت رابطے کے لیے میسر رہتا ہے۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے دریافت کیا کہ آپ کے پاس کوئی تفصیلات ہیں ملزمان کے اہلخانہ سے متعلق؟ ڈائریکٹر لا نے جواب دیا کہ میرے پاس اس وقت تفصیلات نہیں ہیں، جسٹس حسن اظہر علی نے مزید کہا کہ جن کے بچے کی وفات ہوئی ہے انہیں اہلخانہ سے فوری طور پر ملوایا جائے۔

بعد ازاں اٹارنی جنرل نے وفاقی حکومت کی جانب سے دلائل کا آغاز کر دیا۔

جسٹس امین الدین خان نے اٹارنی جنرل سے دریافت کیا کہ زیر حراست افراد کی اہلخانہ سے ملاقات کیوں نہیں کرائی جا رہی؟ اٹارنی جنرل منصور اعوان نے بتایا کہ متعلقہ حکام کو بتایا تھا کہ ملاقات کرانے کا حکم عدالت کا ہے، تسلیم کرتا ہوں کہ ملاقاتوں کا سلسلہ نہیں رکنا چاہیے تھا، آج 2 بجے زیرحراست افراد کو اہلخانہ سے ملوایا جائے گا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ جن سے تفتیش مکمل ہوچکی وہ جیلوں میں کیوں نہیں بھیجے گئے؟ تفتیش کے لیے متعلقہ اداروں کے پاس ملزم رہے تو سمجھ آتی ہے، تفتیش مکمل ہوچکی تو ملزمان کو جیلوں میں منتقل کریں۔

اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جیلوں میں منتقلی میں کچھ قانونی مسائل بھی ہیں، جسٹس عرفان سعادت خان نے ریمارکس دیے کہ انسانوں کے ساتھ غیرانسانی سلوک نہیں ہونا چاہیے۔

آپ ہمیں غلط دکھائے بغیر ہم سے نیا اور الگ فیصلہ چاہتے ہیں، جسٹس شاہد وحید

اس موقع پر جسٹس شاہد وحید اور جسٹس محمد علی مظہر کے درمیان جملوں کا تبادلہ ہوا، جسسٹس شاہد وحید نے کہا کہ آپ ہمیں غلط دکھائے بغیر ہم سے نیا اور الگ فیصلہ چاہتے ہیں،جسٹس محمد علی مظہر نے بتایا کہ اپیل میں اگر کیس آیا ہے، تو پھر سب کچھ کھل گیا ہے، جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ یہ نکتہ نظر میرے ساتھی کا ہوسکتا ہے میرا نہیں،ہمیں اس اپیل کا اسکوپ دیکھنا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی سیکشن 5 کے تحت اپیل کا اسکوپ وسیع ہے، جسٹس شاہد وحید نے استفسار کیا کہ ہم اپیل میں اس کیس کو ریمانڈ بھی کرسکتے ہیں ؟ اٹارنی جنرل منصور اعوان نے کہا کہ آپ کے پاس ریمانڈ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں؟ اپیل میں فیصلہ کالعدم برقرار یا ریمانڈ کیا جاسکتا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ اپیل کا اسکوپ وسیع ہے تو آگے بڑھیے ، جسٹس عرفان سعادت خان نے بتایا کہ اٹارنی جنرل صاحب ایک جواب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ اپیل ہے، ریویو نہیں۔

بعد ازاں اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ وفاق یہاں عدالت کے سامنے ایک قانون کا دفاع کرنے کھڑا ہے، عدالت کو اس بات کو سراہنا چاہیے، جس قانون کو کالعدم کیا گیا وہ ایسا تنگ نظر قانون نہیں تھا جیسا کیا گیا۔

اس پر اٹارنی جنرل نے آرمی ایکٹ کی کالعدم شقوں سے متعلق دلائل دیے۔

جسٹس شاہد وحید نے دریافت کیا کہ کیا اپیل کا حق ہر ایک کو دیا جا سکتا ہے؟ ہر کسی کو اپیل کا حق دیا گیا تو یہ کیس کبھی ختم نہیں ہوگا، کل کو عوام میں سے لوگ اٹھ کر آجائیں گے کہ ہمیں بھی سنیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایک قانون سارے عوام سے متعلق ہوتا ہے، جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ متاثرہ فریق ہونا ضروری ہے اپیل دائر کرنے کے لیے۔

اس پر جسٹس شاہد حید نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل کو اختیار ہے جس وکیل سے چاہے معاونت لے سکتا ہے۔

بعد ازاں عدالت نے خواجہ حارث کو وزارت دفاع کی جانب سے دلائل دینے کی اجازت دے دی۔

وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل کا آغاز کریا جس پر جسٹس شاہد وحید نے استفسار کیا کہ کیا فرد جرم سے پہلے کیس ٹرانسفر ہوسکتا ہے؟ جسٹس محمد علی مظہر نے بتایا کہ کیس فرد جرم سے پہلے یا بعد میں کسی بھی وقت ٹرانسفر ہوسکتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے خواجہ حارث سے مکالمہ کیا کہ کیس کے دائرہ اختیار کے حوالے سے بھی ہمیں آگاہ کریں۔

اسی کے ساتھ عدالت نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی، عدالت نے ریمارکس دیے کہ بینچ کی دستیابی پر کیس دوبادہ سماعت کے لیے مقرر ہوگا۔

پس منظر

یاد رہے کہ 8 جولائی کو سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مدوخیل نے ریمارکس دیے کہ قائد اعظم نے جہاں زندگی کے آخری ایام گزارے، اسے آگ لگائی گئی۔

یاد رہے کہ 4 مئی کو سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس شاہد وحید نے فوجی عدالتوں کے مقدمات کی جلد سماعت کی ضرورت پر روشنی ڈالی تھی کیونکہ اس مقدمے میں جن مسائل کو اجاگر کیا گیا ہے ان میں شہریوں کی زندگی اور ان کی آزادی شامل ہے۔

7 مئی کو فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف کیس کی جلد سماعت کے لیے سپریم کورٹ میں متفرق درخواست دائر کردی گئی تھی۔

واضح رہے کہ 24 اپریل کو سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کو کالعدم قرار دینے کے خلاف اپیل ججز کمیٹی کو واپس بھجوا دی تھی۔

28 مئی کو جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 6 رکنی بینچ نے اپنے 13 دسمبر 2023 کے حکم نامے میں ترمیم کی تھی جس کے تحت 23 اکتوبر کے اس فیصلے کو معطل کردیا گیا تھا جس نے 9 مئی کے تشدد میں ملوث شہریوں کے خلاف فوجی ٹرائل کو کالعدم قرار دیا تھا۔

ترمیم شدہ حکم نامے کے مطابق ایک ہدایت جاری کی گئی تھی کہ فوجی عدالتیں ٹرائل شروع کر سکتی ہیں لیکن وہ حکومت کی طرف سے قائم کردہ انٹرا کورٹ اپیلوں کے زیر سماعت ہونے تک کسی ملزم کو سزا یا بری نہیں کریں گی۔

8 اپریل کو وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار جیل جانے والے 20 افراد کو رہا کر دیا گیا ہے تاکہ وہ اپنی سزا کا بڑا حصہ کاٹنے کے بعد عید الفطر اپنے اہل خانہ کے ساتھ منا سکیں، ان کی سزا کی مدت آرمی چیف نے معاف کر دی تھی۔

واضح رہے کہ 25 مارچ کو فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلیوں پر سماعت کے دوران عدالت نے اٹارنی جنرل سے زیر حراست 103 افراد کی تفصیلات طلب کی تھیں۔

جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ بتائیں کتنے ملزمان کو کتنی سزائیں ہوئی ہیں؟ یہ بھی بتائیں کتنے ملزمان بری ہوئے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ٹرائل مکمل ہو چکا ہے لیکن عدالت نے حتمی فیصلے سے روکا تھا، عدالت نے کہا آپ ہدایات لے لیں۔

سماعت کے دوران خیبرپختونخوا حکومت نے فوجی عدالتوں میں سویلنز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف دائر اپیلیں واپس لینے کی استدعا کردی تھی۔

یاد رہے کہ 22 مارچ کو سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلیں سماعت کے لیے مقرر ہوگئی تھیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے اپیلوں کی سماعت کے لیے نیا 6 رکنی بینچ تشکیل دے دیا تھا۔

یاد رہے کہ 20 مارچ کو سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ملٹری ٹرائل کے خلاف اپیلوں کی جلد سماعت کی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کردی تھی۔

سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے وکیل ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین کے ذریعے ایک درخواست دائر کی، جس میں استدعا کی گئی کہ اگر اپیل خارج کر دی گئی تو شہریوں کو بلا جواز کئی مہینوں تک فوجی حراست میں رہنا پڑے گا۔

درخواست گزار نے مطالبہ کیا کہ ترجیحی بنیادوں پر 25 مارچ تک کیس کی سماعت کی جائے کیونکہ شہریوں کے مسلسل فوجی حراست میں رہنے سے ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔

سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ اُن درخواست گزاروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے گزشتہ سال 9 مئی کو پرتشدد مظاہروں کے الزام میں گرفتار کیے گئے شہریوں کے فوجی ٹرائل کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا۔

واضح رہے کہ اکتوبر 2023 میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے متفقہ فیصلہ دیا، تھا جس میں 103 شہریوں کے ٹرائل کو آئین کے خلاف قرار دیا گیا تھا۔

اس فیصلے کو وفاقی حکومت، وزارت دفاع، پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان حکومت نے انٹراکورٹ اپیلوں کے ذریعے چیلنج کیا تھا، بعدازاں 6 ججوں کے بینچ نے 13 دسمبر 2023 کو یہ فیصلہ 5-1 کی اکثریت سے معطل کر دیا تھا۔

29 جنوری جسٹس سردار طارق مسعود (جو کہ ریٹائر ہو چکے ہیں) نے یہ انٹرا کورٹ اپیل 3 ججوں پر مشتمل کمیٹی کے پاس بھیج دی تھی تاکہ اسے لارجر بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا جا سکے۔

چیف جسٹس اور 2 سینئر ججوں پر مشتمل کمیٹی کو سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کے تحت بینچوں کی تشکیل کا کام سونپا گیا تھا۔

معاملہ کمیٹی کو دیتے ہوئے سابق جسٹس (ر) سردار طارق مسعود نے واضح کیا تھا کہ 23 اکتوبر کا حکم نامہ بینچ کی تشکیل تک معطل رہے گا۔