’جب میں نے اپنے بھائی کی میت دیکھی تو مجھے ایسے شخص کی شکل دکھائی دی جو بے انتہا پریشان تھا۔۔۔ اس نے مجھے بتایا تھا کہ وہ تین چار مہینوں سے صرف تین چار گھنٹے ہی سو رہا تھا۔ ایسی کوئی جگہ نہیں تھی جہاں جا کر وہ کہتا مجھے مدد چاہیے۔ پورے ڈیپارٹمنٹ کی ذمہ داری اس نے اپنے کندھوں پر اٹھائی ہوئی تھی۔ اس کے پاس ایڈمِن سپورٹ بھی بہت کم تھا۔ وہ بہت ہی معزز اور جذباتی طور پر بہت مضبوط شخص تھا۔ اور ایک ایسا شخص جو چند ماہ میں اس مقام تک پہنچ گیا جہاں اسے موت کے سوا کوئی راستہ نظر نہیں آیا۔‘
یہ الفاظ امندیپ سدھو کے ہیں جن کے بھائی ڈاکٹر جگدیپ سِدھو برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) میں بحیثیت کنسلٹینٹ کارڈیالوجسٹ کام کر رہے تھے۔ 2018 میں ایک روز انھوں نے اپنی جان لے لی۔
امندیپ نے بی بی سی کو بتایا کہ اپنی جان لینے سے چند ماہ پہلے سے ہی وہ کافی پریشان نظر آ رہے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ’وہ جوش، وہ چمک، جو ہم سب میں نظر آتی ہے، اس میں جیسے غائب سی ہو گئی ہو۔ وہ بہت تھک چکا تھا لیکن اس بات کو ظاہر نہیں ہونے دیتا تھا۔ شاید وہ بہت ڈیپریسڈ رہا ہوگا، لیکن خود کو کمزور نہیں دکھانا چاہتا تھا۔‘
برطانیہ میں ڈاکٹرز کے خود کو نقصان پہنچانے کے کیسز میں گذشتہ چند برسوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ملک کے آفس آف نیشنل سٹیٹسٹکس کے مطابق 2020 اور 2021 میں برطانیہ میں کم از کم 65 ہیلتھ ورکرز نے خود اپنی جان لے لی۔
لندن کے رائل کالج آف سائیکیٹری سے وابستہ ماہر نفسیات اور ریسرچر ڈاکٹر اننتا دوے کے مطابق برطانیہ میں ’ہر تین ہفتے میں ایک ڈاکٹر اور ہر ہفتے ایک نرس اپنی جان لے رہے ہیں‘۔
ڈاکٹروں کی بڑھتی خودکشیوں اور انھیں روکنے کے لیے ضروری اقدامات کے بارے میں گذشتہ دنوں ڈاکٹر اننتا نے اپنی ریسرچ کی رپورٹ ’پروٹیکٹنگ ڈاکٹرز فرام ڈائنگ بائی سوسائڈ‘ بھی شائع کی، جسے چرچل فاؤنڈیشن اور این ایچ ایس نے کمیشن کیا تھا۔
یہ صورتحال باعثِ تشویش ہے کہ آخر ایسا کیا ہے جو ڈاکٹروں اور نرسوں کی پریشانی کو اس قدر بڑھا رہا ہے؟
اس تحقیق میں بی بی سی نے یہ پتا لگانے کی کوشش کی کہ کیا این ایچ ایس سٹاف کے کام سے متعلق کوئی ایسی باتیں بھی ہیں جو ممکنہ طور پر ان کی ذہنی صحت کو متاثر کر رہی ہیں؟ اور ہمیں ایک نہیں بلکہ زیادہ وجوہات کے بارے میں بتایا گیا۔
ان میں این ایچ ایس سٹاف کی جانب سے کام کے بوجھ یا برن آؤٹ (شدید تھکن) کی شکایت سب سے زیادہ عام ہے۔
کام کا بوجھ یا برن آؤٹ
این ایچ ایس ورک فورس سروے 2023 کے مطابق برطانیہ میں 30.4 فیصد میڈیکل سٹاف برن آؤٹ (شدید تھکن) اور 34.2 فیصد سٹاف جذباتی طور پر دباؤ کی زد میں ہے۔
اپنے بھائی کی موت کے بعد امندیپ نے برطانیہ میں کام کرنے والے ڈاکٹروں اور نرسوں کی مینٹل ہیلتھ سپورٹ کے لیے ایک چیریٹی ’ڈاکٹرز اِن ڈسٹریس‘ کی بنیاد رکھی، جس کا ذکر اب خود این ایچ ایس بھی کرتا ہے۔
چیریٹی کا کہنا ہے کہ سنہ دو ہزار بیس میں جب سے انھوں نے اپنی خدمات شروع کی ہیں، ان کے پاس تین ہزار سے زیادہ طبی کارکنان مدد حاصل کرنے کے لیے آ چکے ہیں۔
امندیپ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’آبادی یہاں بہت بڑھ گئی ہے، ہماری تعداد بڑھ گئی ہے، لیکن ہسپتالوں میں بستر اتنے نہیں بڑھے۔ جتنے مریض ہیں، اتنے ذرائع نہیں۔ آپ کہیں غبار نہیں نکال سکتے، رک نہیں سکتے، کام کا سلسلہ ہے جو رکنے کا نام نہیں لیتا، اور آرام کرنے کا وقت ملتا نہیں، جیسے فیکٹری میں کوئی کنوینر بیلٹ ہوتی ہے، لگاتار بغیر رکے چلتی رہتی ہے۔ اسے روک کر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔ کیونکہ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اس کی جگہ کسی اور کو لانے کی ضرورت محسوس کی جانے لگتی ہے۔‘
برطانیہ میں طبی عملے کی ویلفیئر کے لیے کام کرنے والی چیریٹی ’لورا ہائڈ فاؤنڈیشن‘ کے مطابق یہ دباؤ 2020 میں یعنی کووڈ کے آغاز کے بعد اتنا زیادہ بڑھ گیا کہ اس وقت میڈیکل سٹاف کے لیے کلینیکل ہیلتھ سپورٹ کی ڈیمانڈ ساڑھے پانچ سو فیصد بڑھ گئی تھی۔
اور اس سال 220 نرسوں نے اپنی جان لینے کی کوشش کی تھی۔ جبکہ سنہ 2022 میں کم از کم 360 نرسوں نے اپنی جان لینے کی کوشش کی۔
لیکن برن آؤٹ پریشانی کی واحد وجہ نہیں ہے۔
انویسٹیگیشن کے دوران خودکشیوں کے معاملے
برطانیہ میں طبی کارکنان کو ریگولیٹ کرنے والے آزاد ادارے جنرل میڈیکل کونسل (جی ایم سی) کے مطابق 2018 اور 2020 کے درمیان جن ڈاکٹروں کی اموات ہوئیں ان میں سے 29 ایسے ڈاکٹر بھی تھے جن کے خلاف کوئی انویسٹیگیشن چل رہی تھی۔ اور ان میں سے پانچ کی موت کی وجہ خود کشی تھی۔
برطانیہ میں طبی عملے کو قانونی اور اخلاقی تحفظ فراہم کرنے والی میڈیکل پروٹیکشن سوسائٹی نے 2023 میں اپنے ایک سروے کے بعد جی ایم سی سے درخواست کی تھی کہ وہ تحقیقاتی عمل کو بہتر بنانے کے بارے میں غور کریں، تاکہ تحقیقات کے دوران ڈاکٹروں پر پڑنے والے دباؤ کو کم کیا جا سکے۔
اِس سروے کے لیے انھوں نے 926 ایسے ڈاکروں سے رابطہ کیا جن کے خلاف کوئی انویسٹیگیشن ہوئی ہو۔ ان میں سے 197 نے سروے میں حصہ لیا۔ جن میں سے:
- 46 کا کہنا تھا کہ انھیں خودکشی کے خیالات آئے
- 16 نے انویسٹیگیشن کے دوران طبی پیشے کو الودع کہہ دیا اور
- 58 نے سوچا کہ انھیں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے
- 154 کا کہنا تھا کہ انویسٹیگیشن نے ان کی ذہنی حالت کو شدید متاثر کیا
- اور 179 نے کہا کہ اس دوران انھیں شدید ذہنی تناؤ اور بے چینی کا سامنا رہا
تحقیقات کا مہینوں اور سالوں تک چلتے رہنا بھی ذہنی دباؤ کی وجہ بتایا جاتا ہے۔
تحقیقات کی طویل مدت اور ذہنی دباؤ
برطانیہ کے ایک ہسپتال میں بحیثیت یورولوجی کنسلٹنٹ کام کرنے والے پاکستانی نژاد ڈاکٹر شبیع احمد کو ستمبر دو ہزار اکیس میں بتایا گیا کہ ان کے خلاف این ایچ ایس کے وقت میں نجی پریکٹس کرنے کا الزام ہے، جس کی تحقیقات کی جائیں گی۔ یہ معاملہ پچھلے دنوں جون میں اپنے اختتام کو پہنچا۔ یعنی تقریباً تین سال بعد۔
اس سے چند ہفتے پہلے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر شبیع احمد کا کہنا تھا کہ ’آپ کو وہ صرف ایک لائن لکھ کر دے دیتے ہیں کہ ہم معذرت خواہ ہیں کہ اس کارروائی میں اتنا زیادہ وقت لگ گیا۔ کوئی وجہ نہیں بتائی جاتی اور محض ایک جملے سے کسی شخص کا کھویا ہوا وقت بھی واپس نہیں آتا۔‘
ڈاکٹر احمد کے بقول تحقیقات کے دوران ان کے تین سال شدید ذہنی دباؤ میں گزرے۔ وہ کہتے ہیں ’سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ایک طرٖف ایک اکیلا شخص ہے اور دوسری جانب ایک ادارہ ہے جس کے پاس بے حساب ذرائع ہیں۔ کوئی اکیلا شخص کب تک چیزوں کا سامنا کر سکتا ہے؟ اس درمیان آپ کی ذاتی صحت اور پریشانیوں کے بارے میں کوئی نہیں پوچھتا۔‘
تحقیقات طویل عرصے تک کیوں چلتی رہتی ہیں؟ یا ان کے حل ہونے میں بعض مرتبہ برسوں کیوں لگ جاتے ہیں؟ جہاں ڈاکٹر احمد کام کرتے ہیں اس ٹرسٹ کے چیف میڈیکل آفیسر نے اس بارے میں بی بی سی کی ای میل کے جواب میں کہا کہ ’جہاں پیچیدہ معاملوں کی تفتیش کرنی ہو اور بڑی تعداد میں دستاویزات کا جائزہ لینے کی ضرورت پڑتی ہو، وہاں تحقیقاتی عمل میں اس بات کو یقینی بنانے میں زیادہ وقت لگتا ہے کہ معاملے کی تحقیق مکمل اور منصفانہ ہو۔‘
ٹرسٹ نے یہ بھی کہا کہ ’ٹرسٹ اس دوران لوگوں کی مدد کیے جانے کی اہمیت کو بھی سمجھتا ہے۔ بہت سے ڈاکٹروں کو قانونی مدد کے ساتھ ساتھ یونین کی حمایت بھی حاصل ہوتی ہے۔ زیر تفتیش افراد کو ٹرسٹ کی پیشہ ورانہ افراد کی صحت سے متعلق خدمات (آکیوپیشنل ہیلتھ سروسز) سے متعلق آگاہ کیا جاتا ہے، اگر انھیں ان سے تعاون کی ضرورت ہو۔‘
تاہم ڈاکٹر احمد کہتے ہیں ’یہ تو وہی بات ہو گئی کہ جس نے آپ کے خلاف بندوق تانی ہوئی ہے، وہی آپ سے کہہ رہا ہے کہ اگر آپ کو اعتراض ہے کہ آپ پر بندوق کیوں تانی گئی ہے، تو آپ ہم سے ہی بات کر لیں۔‘
حالانکہ ٹرسٹ زور دیتا ہے کہ آکیوپیشنل ہیلتھ اور تحقیقاتی ٹیم کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور ان کی تحقیقات میں منصفانہ عمل اور ویلبینگ سپورٹ دونوں باتوں کا خیال رکھا جاتا ہے۔
نسل پرستی اور تعصب کی شکایات
2022 میں برمنگھم کی ایک زیر تربیت ڈاکٹر ویش کمار نے اپنی جان لے لی تھی۔ تفتیش کے دوران ان کے والدین نے کہا کہ ویش کمار نے انھیں بتایا تھا کہ انھیں اسی ہسپتال میں مزید چھ ماہ ٹریننگ کرنے پر مجبور کیا جا رہا تھا جہاں انھیں ان کے سینیئر ساتھیوں نے کمتر محسوس کرایا تھا۔ ان کے مطابق ویش کمار نے اپنے خودکشی کی وجہ بتانے والے خط میں ہسپتال میں کام کرنے کے ماحول کو اپنی پریشانی کے لیے ذمہ دار بتایا تھا۔
اس ہسپتال کے ٹرسٹ نے بعد میں اس معاملے میں ’ناقابل قبول رویے‘ کے لیے معذرت کے ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ ہسپتال کو ان کی موت سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ این ایچ ایس انگلینڈ کی ورک فورس اور ٹریننگ اینڈ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ نے ویش کے خاندان کو ایک خط لکھ کر غلطیوں کے لیے معافی بھی مانگی تھی۔
بریٹش میڈیکل ایسوسی ایشن کی ایک تاریخی رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں اقلیتی نسلوں سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹرز کے خلاف نسل پرستی اور تعصب کا رویہ ان کی ذہنی صحت کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔ دو ہزار اکیس کے ان کے ایک سروے میں شامل اقلیتی نسلوں سے تعلق رکھنے والے دو ہزار تیس ڈاکٹرز نے حصہ لیا، جن میں سے پچھتر فیصد نے کہا کہ انہیں اپنے کریئر میں ایک سے زیادہ بار نسل پرستی کا سامنا کرنا پڑا۔ جبکہ سترہ فیصد سے زیادہ نے کہا کہ ایسا ان کے ساتھ ہوتا رہتا ہے۔
برطانیہ کے کسی بھی حصے میں نفسیاتی امراض کے ڈاکٹرز اور جونیئر ڈاکٹرز کے لیے’مینٹل ہیلتھ سپورٹ‘ کو یقینی بنانا بھی ڈاکٹر دوے کی ذمہ داریوں کی فہرست میں شامل ہے۔ وہ کہتی ہیں ’ہم اسے میڈیسن کے شعبے میں ٹاکسیسیٹی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس بات کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں کہ کسی اقلیتی طبقے سے تعلق رکھنے والے کو انوویسٹیگیشن کے لیے ریفر کیا جائے، یا اس کے نتیجے میں اس کی معطلی ہو جائے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’برابری کا رویہ نہ ہونے سے ذہن پر شدید اثر پڑتا ہے۔‘
انویسٹیگیشن کے دوران ڈاکٹرز پر پڑنے والے ذہنی دباؤ اور اقلیتی نسلوں کے خلاف تعصب کی شکایات کے بارے میں ہماری ای میل کے جواب میں یو کے کی جنرل میڈیکل کونسل نے کہا کہ ’انویسٹیگیشن کے عمل میں کئی تبدیلیاں کی گئی ہیں تاکہ زیادہ ہمدردی اور متناسب رویہ یقینی بنایا جا سکے اور انویسٹیگیشن سے وابستہ سبھی لوگوں پر کم سے کم اثر ہو۔ اور کسی کی نسل یا اس نے کہاں سے تعلیم حاصل کی ہے، اس بنیاد پر تعصب یا اسے انویسٹیگیشن کے لیے ریفر کیے جانے جیسے معاملے ختم کرنے کے لیے ہم نے کچھ بڑے اہداف بھی طے کیے ہیں، جو ہمیں دو ہزار چھبیس تک پورے کرنے ہیں۔‘
ذہنی دباؤ میں ڈاکٹر مدد کیوں نہیں مانگتے
ڈاکٹر اننتا دوے کے بقول ڈاکٹروں کا ذہنی دباؤ یا اس سے متعلق دیگر مسائل کے لیے آگے نہ آنے کے پیچھے خود اس شعبے کا ماحول ذمہ دار ہے۔ وہ کہتی ہیں ’میڈیکل سکول سے ہی یہ ماحول دیکھنے کو ملتا ہے کہ اگر آپ کسی قسم کے ذہنی مسائل سے گزر رہے ہوں، یا آپ تناؤ یا کام کے بوجھ سے پریشان ہوں تو آپ اچھے ڈاکٹر نہیں ہو سکتے اور کوئی آپ کی عزت نہیں کرے گا۔ امید کی جاتی ہے کہ آپ خود یہ شعبہ چھوڑ کر چلے جائیں۔ یہ بہت زہریلا ماحول ہے۔‘
ان کے مطابق ’لوگ سوچتے ہیں اگر میں نے مدد مانگی تو اور لوگ کیا سوچیں گے۔ جونئیر ڈاکٹرز کو لگتا ہے کہ ایسا ہوا تو ان کی ترقی نہیں ہو سکے گی۔ دوسرا ڈر یہ رہتا ہے کہ کوئی ان کی شکایت جنرل میڈیکل کونسل سے نہ کر دے۔ انہیں لگتا ہے ایسا ہوا تو وہ بدنام ہو جائیں گے اور کوئی انھیں اچھا ڈاکٹر نہیں سمجھے گا۔ تیسرا ڈر معطلی کا ہوتا ہے۔ پھر یہ ڈر بھی رہتا ہے کہ اس سب سے ان کا مستقبل کتنا متاثر ہو سکتا ہے۔‘
امندیپ نے بی بی سی سے کہا ’میرا خیال ہے میرے بھائی کی کام کی جگہ پر جس چیز کی کمی تھی وہ ہے ایک عمدہ، مضبوط اور ہم درد لیڈر شپ کی۔‘
ان کے بھائی جگدیپ کی موت پر ڈارٹفرڈ اینڈ گریوشم این ایچ ایس ٹرسٹ کی جانب سے کی جانے والی انویسٹیگیشن کی رپورٹ امندیپ نے ہمیں دکھائی۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ’ان میں انکار کرنے کی صلاحیت کی کمی کی وجہ سے ان پر کام کا بوجھ بڑھ گیا، کلینک ضرورت سے زیادہ بُک ہوتا چلا گیا اور اس طرح ان کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہو گیا۔‘
اس پوری صورت حال کے بارے میں این ایچ ایس نے ہمیں ایک ای میل میں بتایا کہ ’سٹاف کی فلاح این ایچ ایس کے لیے بے حد اہم ہے اور وہ مستقبل میں مقامی سطح پر تعلیم و تربیت میں اضافے کے علاوہ میڈیکل فیسیلیٹیز میں پچیس فیصد اضافے اور ریکارڈ نمبر میں سٹاف کی بھرتی کا منصوبہ رکھتے ہیں۔‘
اس ای میل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’این ایچ ایس میں کام کرنے والے ہر شخص کو محسوس ہونا چاہیے کہ وہ کسی بھی قسم کے امتیازی سلوک یا بدسلوکی سے محفوظ ہے۔ وہ شکایت کر سکتے ہیں، اور انھیں یقین ہونا چاہیے کہ ان کی شکایات کو سنجیدگی سے لیا جائے گا اور مؤثر اقدام کیا جائے گا۔‘
تاہم ڈاکٹر دوے بتاتی ہیں کہ ’کووڈ کے دوران ڈاکٹروں کی ذہنی صحت کو خیال میں رکھتے ہوئے کئی ویل بینگ ہبز کھولے گئے تھے، لیکن حال ہی میں این ایچ ایس میں بجٹ میں کٹوتیوں ہوئیں جس کے بعد بہت سے ایسے سینٹر بند کر دیے گئے۔ کچھ جگہ ایسے ہبز ہیں، کچھ جگہ نہیں ہیں۔ دو باتیں اہم ہیں، ایک تو یہ کہ جتنی ضرورت ہے اتنی سروسز مہیا نہیں ہیں۔ اور دوسری یہ کہ اس قسم کی خدمات خفیہ اور حساس ہونی چاہییں تاکہ لوگ بےخوف آ کر اپنی مشکل بیان کر سکیں۔ رازداری نہ ہونے کی وجہ سے کچھ لوگوں کو ایسی جگہ سے کاؤنسلنگ لینا مشکل لگ سکتا ہے۔‘
حالانکہ ابھی تک کسی بھی سروے یا ریسرچ نے حتمی طور پر یہ نہیں کہا ہے کہ برطانیہ کے طبی عملے میں بڑھتی خودکشیوں کی وجہ این ایچ ایس میں بجٹ میں کٹوتیاں، کام کا بوجھ، تعصب یا نسل پرستی ہے۔ لیکن مختلف سرویز اور سٹاف کی شکایات اس طرف اشارہ ضرور کرتے ہیں کہ این ایچ ایس کو اپنے سٹاف کی فلاح یقینی بنانے اور ان میں سٹریس اور ذہنی صحت کے بڑھتے مسائل سے نمٹنے کے لیے جلد اقدام کرنے ہوں گے۔ کیوں کہ ہیلتھ کیئر ایک ایسا شعبہ ہے جس میں کام کرنے والوں کا سامنا ہر روز دکھ، درد اور موت سے جوجھ رہے لوگوں سے ہوتا ہے۔ جو کہ آسان کام نہیں۔
اپنے بھائی کے بارے میں بات کرتے ہوئے امندیپ کی آنکھیں بھر آئیں۔ انھوں نے کہا ’وہ سب کی مدد کرنا چاہتا تھا۔ مجھے یاد ہے میں نے اس سے کہا بھی تھا کہ تم ایک بے حد ’اِمپرفیکٹ‘ سسٹم میں ’پرفیکٹ‘ ہونے کی کوشش کر رہے ہو، اور ان دو باتوں کا ایک ساتھ گزارا نہیں ہے۔‘