Site icon DUNYA PAKISTAN

وہ آیا، اُس نے ہنسایا اور وہ چلا گیا

Share

جب بھی میں کسی اداکار کے مرنے کی خبر سنتا ہوں تو دل گرفتہ ہوجاتا ہوں، چاہےاُس اداکار سے زندگی میں کبھی ملا بھی نہ ہوں ، اور اگر وہ مزاحیہ اداکار ہو تو غم اور بھی بڑھ جاتا ہے ۔سردار کمال کی موت کی خبر نے بھی افسردہ کردیا ۔ حق مغفرت کرے،عجب فنکار تھا۔ میں بارہا لکھ چکا ہوں اور یہ میرا دعویٰ ہے کہ مغربی پنجاب نے جس اعلیٰ پائے کے مزاحیہ اداکار پیدا کیے ہیں اُس کی مثال دنیا میں مشکل سے ہی ملے گی۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے علاوہ کہیں عمدہ مزاح تخلیق نہیں ہوتا، دنیا میں ایک سے بڑھ کر ایک منفرد اداکار موجود ہے، ایسے ایسے لوگ ہیں جن کی مزاحیہ اداکاری دیکھ کر بندہ قہقہے لگانے پر مجبور ہو جاتا ہے، مگر یہ تخلیق کار اِس آسانی کے ساتھ فی البدیہہ جملے کہنے پر قادر نہیں جس روانی کے ساتھ ہمارے پنجاب کے اداکار قادر ہیں۔ سردار کمال اِس کی ایک مثال تھا۔ وہ سٹیج ڈراموں میں نہایت اعلیٰ درجے کا مزاح پیدا کرتا تھا، وہ تیزی سے جملے ادا کرتا تھا اور مزاحیہ فقرے اُ س کے منہ سے یوں نکلتے تھے کہ لگتا تھا جیسے یہ اُس کے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔ پنجاب کے سٹیج ڈراموں میں سردار کمال نے اُس وقت اپنا نام بنایا جب وہاں مزاحیہ اداکاروں کی کہکشاں جگمگا رہی تھی، یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اب تو خیر یہ ڈرامے ماضی کا قصہ ہوئے، اِن میں سوائے فحش گوئی اور لچر پن کے کچھ بھی باقی نہیں رہا۔ جس طرح لاہور میں راوی اور بسنت برباد ہوئی اسی طرح یہ سٹیج ڈرامے بھی زوال پذیر ہو گئے، اور اِس میں کسی امریکی یا مغربی سازش کا دخل نہیں تھا، سب ہمارا اپنا کیا دھرا ہے۔

سردار کمال ہو، ببو برال یا طارق ٹیڈی، سب کی موت ناگہانی تھی، یہ لوگ چالیس پچاس کے پیٹے میں تھے، اِس عمر میں لوگوں کی دوسری زندگی کی شروعات ہوتی ہیں، مگر ہمارے اداکاروں کی موت ہو جاتی ہے، اِن کی بد قسمتی یہ ہے کہ یہ اپنے معمولات زندگی میں نظم و ضبط قائم نہیں رکھ پاتے۔ اِن کی ’صبح‘ کا آغاز رات نوبجے ہوتا ہے اور انجام صبح کاذب کے وقت ۔صحت بخش غذا کیا ہوتی ہے، انہیں اِس کا نہ تو علم ہے اور نہ ہی پروا، اِن میں سے کچھ لوگ نشے کے عادی بھی ہو جاتے ہیں اور اپنے گُردے تباہ کروا لیتے ہیں۔ اِن کی موت کے بعد اِس قسم کی خبریں بھی سننے میں آتی ہیں کہ مرحوم نے پسماندگان میں پانچ بیٹیاں اور دو بیوائیں چھوڑیں جن کے پاس رہنے کو گھر بھی نہیں۔ یہ جان کر مزید رنج ہوتا ہے کہ وہ فنکار جو تمام عمر لوگوں کی زندگیوں میں قہقہے بکھیرتے رہے، اُن کے اپنے بیوی بچوںکے لبوں پر شاید اب مشکل سے ہی مسکراہٹ آسکے! طارق ٹیڈی کی بیٹیاں بھی اپنے باپ کے مرنے کے بعد مدد کی طلب گار تھیں، اُس وقت بھی میں نے لکھا تھا کہ فیصل آباد جیسے شہر میں کیا ایک بھی صنعتکار نہیں جو اپنے اِس سپوت کے بیوی بچوں کی دیکھ بھال کا ذمہ اٹھا سکے؟ سردار کمال کا تعلق بھی فیصل آبادسے تھا، لیکن میرا خیال ہے کہ اِس فنکار نے اپنی مالی منصوبہ بندی قدرے بہتر اندا زمیں کی تھی، غالباً ایک بیٹا برطانیہ میں ہے اور دوسرا پاکستان میں، شکر ہے کہ اِس فنکار کی حالت طارق ٹیڈی جیسی نہیں۔

کسی شخص کا قدرتی طور پر ذہین اور با صلاحیت ہونا ایک بات ہے اور مالی منصوبہ بندی کی اہلیت اور سمجھ بوجھ رکھنا دوسری بات۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی یہ منصوبہ بندی نہیں کرپاتے اور پھر زندگی بھر پچھتاتے ہیں۔ نوجوان یو ٹیوبر فیصل وڑائچ نے، جو بے حد ذہانت کے ساتھ تاریخ پر ویڈیوز بناتے ہیں، ڈاکٹر مبارک علی کا انٹرویو کیا، اُس انٹرویو میں ڈاکٹر صاحب نے مایوس کُن لہجے میں بتایا کہ انکا کوئی مستقل ذریعہ آمدن نہیں اور حکومت بھی اُن کی کسی قسم کی مالی امداد نہیں کرتی۔ مجھے یہ انٹرویو دیکھ کر بہت دکھ ہوا، مہذب ممالک میں ایسے لوگوں کی سرپرستی جامعات یا وہاں کی حکومتیں کرتی ہیں تاکہ یہ بے فکر ہوکر تحقیق و تدریس کا کام جاری رکھ سکیں۔ لیکن ہمارے ملک میں چونکہ ایسا رواج نہیں اِس لیے یہاں لکھاریوں، تخلیق کاروں، فنکاروں، اداکاروں اور گلوکاروں کو اپنی زندگی کی مالی منصوبہ بندی خود کرنی چاہیے اور یہ کام اُس وقت ممکن ہے جب اپنا عروج ہو، بڑھاپے میں کوئی نہیں پوچھتا۔ اِس حوالے سے سب سے بہتر مثال جو میرے ذہن میں آرہی ہے وہ سہیل احمد کی ہے، اِس فنکار نے نہ صرف اپنے ٹیلنٹ کا بھرپور استعمال کیا ہے بلکہ انتھک محنت سے وہ مقام حاصل کیا جو ہمارے ہاں چند فنکاروں کو ہی حاصل ہے۔ سہیل احمد کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے سٹیج پر فحش جُگتیں لگانے سے انکار کیا اور نہ صرف انکار کیا بلکہ یہ ثابت کیا کہ عوام اچھا اور معیاری مزاح پسند کرتے ہیں، گھٹیا اور لچر پن نہیں۔

پنجاب کے مزاحیہ اداکار اِس حوالے سے بھی بد قسمت ہیں کہ انہیں معاشرے میں وہ مقام نہیں ملتا جس کے یہ حقدار ہیں، لیکن یہاں بھی سہیل احمد کا ذکر کیے بغیر چارہ نہیں، اِس شخص نے نہ صرف اپنا وقار برقرار رکھا بلکہ معاشرے سے عزت بھی کمائی۔ دوسری جانب ہمارے زیادہ تر فنکار یہ کام نہ کر سکے، اِس معاملے میں کچھ شہر کے لوگ بھی ظالم تھے اور کچھ انہیں بھی مرنے کا شوق تھا۔ ہماری اشرافیہ اِن فنکاروں کی محض اِس وجہ سے وہ قدر نہیں کرتی کہ یہ بیچارے شکل سے مسکین لگتے ہیں، سوٹ نہیں پہنتے، انگریزی نہیں بولتے اور پنجابی میں ایسی جُگتیں لگاتے ہیں جو ’جنٹری‘ میں پسند نہیں کی جاتیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح یہ فنکار لوگوں کو قہقہے لگانے پر مجبور کرتے ہیں، اور وہ بھی اکثر و بیشتر بغیر کسی سکرپٹ اور تیار ی کے، وہ ایک ایسا ٹیلنٹ ہے کہ جسے اگر امریک میں ترجمہ کر کے پیش کیا جائے اور بتایا جائے کہ اِس کے پیچھے لکھاریوں اور ہدایتکاروں کی ٹیم نہیں بلکہ یہ واحد آدمی خو د ہے، تو شاید وہ یقین ہی نہ کریں۔ جس زمانے میں امان اللہ اپنے عروج پر تھا، اُس وقت ڈرامے کے سکرپٹ میں لکھا ہوتا تھا کہ یہاں امان اللہ کی انٹری ہے، وہ آئے گا، ہنسائے گا، اور چلا جائے گا۔ سردار کمال، گرچہ امان اللہ جیسا فنکار تو نہیں تھا، مگر ہنر اُس کا بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ وہ آیا، اُس نے ہنسایا، اور وہ چلا گیا۔ خدا کرے کہ آئندہ سردار کمال جیسے فنکار اتنی جلدی یوں زندگی سے منہ نہ موڑیں، آمین۔

Exit mobile version