’لڑکی کا رشتہ آیا ہوا تھا لیکن ان کو پسند کرنے والے نوجوان کو جیسے ہی پتا چلا اس نے جا کر لڑکی کے گھر کے سامنے ہوائی فائرنگ کی اور ساتھ ہی اعلان کیا کہ یہ لڑکی صرف اس کی ہے، رشتہ لانے والے واپس چلے گئے، لڑکی کے گھر والوں نے لڑکے پر حملہ کیا، خون خرابہ ہوا اور اس کے بعد سے لڑکی ابھی تک گھر بیٹھی ہوئی ہے۔‘
یہ افغانستان کے شہر خوست کی ایک لڑکی کی کہانی ہے جو ان کی ہمسائی بدری نے بیان کی کہ کس طرح ایک لڑکے کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے خوشی کا یہ موقع دشمنی میں بدل گیا اور اس نوجوان عورت کی زندگی مشکل بنا دی جو شادی کی خواہش مند تھی۔
یہ سب ’غگ‘ نامی اس فرسودہ رسم کے نتیجے میں ہوا جو افغانستان کے کچھ حصوں میں اب بھی رائج ہے۔
یہ کوئی ماضی کا قصہ نہیں ہے بلکہ اکیسویں صدی میں افغانستان میں رائج رسم اور پیش آنے والے واقعات ہیں جن سے خواتین متاثر ہیں۔
اس حوالے سے طالبان حکومت کی جانب سے بھی تشویش کا اظہار کیا گیا اور اس رسم کے خاتمے کے حوالے سے اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔
غگ کی شکار لڑکی
یہ جھگڑا اس وقت سے شروع ہوتا ہے جب ایک شخص کسی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے لیکن گھر والے رشتہ دینے کے لیے راضی نہیں ہوتے۔
لڑکا تشدد کی راہ اختیار کرتا ہے، لڑکی کے گھر کے سامنے فائر کرتا ہے اور چیخ کراعلان (غگ) کرتا ہے کہ فلاں لڑکی ’میری‘ ہے۔
اس کے بعد اس فرسودہ رسم کا شکار ہونے والی لڑکی کو’غگ کی شکار لڑکی‘ کہا جاتا ہے اور کوئی بھی اس سے شادی پر آمادہ نہیں ہوتا۔
ایسی حالت میں لڑکی کے گھر والوں کے پاس صرف دو راستے رہ جاتے ہیں کہ یا تو اسی لڑکے کو رشتہ دے دیں اور یا ان سے دشمنی مول لیں۔
اسی لیے بدری کہتی ہیں کہ اس ’برے فعل‘ نے بہت سی لڑکیوں کو اپنے باپ کے گھر بیٹھ کر عمر گزارنے اور بہت سے خاندانوں کو دشمنی پر مجبور کر دیا ہے۔
بدری مزید کہتی ہیں کہ ’جو لڑکی غگ رسم کی شکار ہو جائے ان کا مستقبل تاریک ہو جاتا ہے۔ اگر والدین اسی لڑکے سے اپنی بیٹی کا بیاہ کرنے پر راضی ہو بھی جائیں تو عین ممکن ہے وہ لڑکا ان کے لائق نہ ہو۔‘
’اگر والدین رشتہ دینے سے انکار کر دیں یا لڑکے کے گھر والے لڑکی کو گھر لانے سے منع کر دیں تو دونوں خاندانوں کے مابین دشمنی یقینی ہے یا ایسا بھی ممکن ہے کہ لڑکی کے والدین شادی کے لیے قبائلی اضلاع میں نکاح کے بدلے لڑکی کے خاندان کو دی جانے والی رقم کا مطالبہ کریں اور لڑکے والے دشمنی سے بچنے کے لیے اس پر راضی ہو جائیں۔‘
غگ کا شکار لڑکی کا لقب اور افیئر کے الزامات
چاہے لڑکی کی شادی ہو جائے یا رقم دے کر دشمنی کے خاتمے کی کوشش ہو دونوں ہی صورتیں میں لڑکی کی زندگی میں مشکل لے کر آتی ہیں۔
بدری کے مطابق ایسی صورت میں یہ بھی ممکن ہے کہ لڑکی اس سے خوش نہ ہو۔
’ایسی لڑکی معاشرے میں ہمیشہ طنز کا سامنا کرتی ہے۔ لوگ اسے غگ کی شکار لڑکی کا لقب دیتے ہیں اور ان پر شک کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ لڑکے کے ساتھ ان کا پہلے سے افئیر تھا تبھی اس نے غگ کی ہمت کی ہے۔ مطلب ہر طرف سے ہی لڑکی کی زندگی تباہ ہو جاتی ہے۔‘
اس فرسودہ رسم کا سامنا آج بھی افغانستان میں لڑکیوں کی زندگی کو مشکل بناتا ہے۔
ابھی دو ہفتے پہلے ہی خوست صوبے میں ایک شخص نے اس لڑکی کے گھر کے سامنے فائر کر کے غگ کر دیا ہے جس کا خاندان اس لڑکے کو رشتہ دینے سے انکاری تھے۔
اس لڑکی سے ہماری بات تو نہیں ہو سکی لیکن ان کے بھائی نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی۔ ہم یہاں ان کا ذکر قادر کے نام سے کریں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ان لوگوں کی خواہش تھی کہ ہمارے ساتھ رشتہ کر لیں، لیکن ہمارے معاشرے میں لڑکی کا رشتہ دینے سے پہلے بہت سی چیزوں کو دیکھا جاتا ہے جیسا کہ قوم، نسب اور اس طرح کے دوسرے اقدار اور اوصاف۔
’ان چیزوں میں وہ ہمارے مقابلے کے نہیں تھے اور ہم نہیں چاہتے کہ ان کے ساتھ رشتہ داری جوڑیں۔ ہم نے ان کو صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ ہمارا ابھی لڑکی کو بیاہنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے برائے مہربانی آپ مزید اس رشتے کے لیے اصرار نہ کریں۔‘
لیکن اس لڑکے نے قادر کے گھرانے کی بات نہ مانی اور زور زبردستی پر اتر آیا۔
قادر کا کہنا ہے اس لڑکے نے جبر کا راستہ اختیار کیا۔ ’پہلے انھوں نے ہمارے گھر اور پھر اپنے گھر کے سامنے فائر کر کے اعلان کر دیا کہ لڑکی ان کے نام ہو چکی۔‘
قادر کے مطابق انھوں نے اس لڑکے کے خلاف خوست میں طالبان کے امن کمانڈر کو درخواست دے دی جس کے بعد وہ گرفتار ہو گیا اور اب جیل میں ہے۔
فائرنگ اور دعویداری کے بعد کیا ہوتا ہے؟
جب ایک شخص ہوائی فائر کر کے کسی لڑکی پر دعویداری (غگ) کرتا ہے تو ایسی صورتحال میں لڑکی کے خاندان کے پاس چند ہی راستے باقی رہ جاتے ہیں۔
- لڑکے کو قتل کردیا جائے اور لڑکی کو غگ سے آزاد کر دیا جائے لیکن اس صورت میں لڑکے کے خاندان سے دشمنی یقینی ہوتی ہے اور ایسی لڑکی سے دوسرے لوگ بھی شادی کرنے سے کتراتے ہیں کیونکہ پھر انھیں بھی غگ کرنے والے لڑکے کے خاندان سے دشمنی مول لینی پڑے گی۔
- لڑکی کا رشتہ اس لڑکے کے ساتھ کر دیا جائے تاہم ایسے میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ لڑکی کا خاندان لڑکے سے اتنی زیادہ رقم (ولور) کی ڈیمانڈ کرتا ہے جسے پورا کرنا ان کے بس میں نہیں ہوتا۔
- بدلے میں لڑکے کے گھر کی کسی لڑکی کا رشتہ مانگا جاتا ہے اور ساتھ شرم یا سبکی کے لیے ان پر بطور جرمانہ کچھ نقد بھی رکھا جاتا ہے۔ لیکن اگر لڑکی اسی لڑکے کو بیاہی بھی جاتی ہے تو انھیں ساری عمر غگ یا فائر کرنے کے طنز اور تحقیر کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔
- لڑکی کی شادی کسی دوسرے گاؤں یا قبیلے میں کر دی جائے۔ اکثر اوقات ایسے خاندان میں ان کا رشتہ کر دیا جاتا ہے جو بااثر ہوں اور لوگوں میں ان کا خوف بھی ہو۔
- لڑکی کے گھرانے کا کوئی لڑکا انتقام کے طور پر اسی لڑکے کے خاندان کی کسی لڑکی پر ایسے ہی غگ کرتا ہے۔ پھر دونوں خاندانوں کے مابین یا تو دشمنی کا آغاز ہوتا ہے یا دونوں لڑکیوں کو انھیں لڑکوں کو بیاہا جاتا ہے۔ لیکن ایسی لڑکیوں کی ساری زندگی پھراجیرن ہوتی ہے۔
یہ فیصلے روایتی طور پر قبائلی رہنما اور جرگہ کرتے ہیں جن پر انسانی حقوق اور حقوق نسواں کے کارکنان تنقید بھی کرتے ہیں۔
ان کے مطابق ایسے فیصلوں میں زیادہ تر معصوم لڑکیاں اور خواتین مردوں کی غلطیوں کا شکار ہوتی ہیں اور ماضی میں وہ حکام سے ایسے روایتی فیصلوں کو روکنے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔
گذشتہ چند ماہ میں کم از کم چھ واقعات رپورٹ ہوئے
پورے افغانستان میں اس طرح کے کتنے واقعات کون سے صوبوں میں ہوئے ہیں اس بارے میں کوئی درست معلومات نہیں ہیں لیکن خوست میں طالبان حکومت کے پولیس کمانڈر کے ترجمان طاہر احرار نے اعتراف کیا ہے کہ گذشتہ چند ماہ کے دوران ان کے ساتھ ایسے چھ واقعات درج کیے گئے ہیں۔
طاہر احرار نے بی بی سی پشتو کو بتایا کہ لڑکیوں کی جانب سے شکایت درج کروانے کے بعد انھوں نے ایسے لوگوں کے خلاف ’سخت کارروائی‘ کی ہے۔
ترجمان نے مزید بتایا کہ ’خوست کی پولیس نے ہوائی فائرنگ سے لڑکیوں پر دعویداری کرنے والوں کے خلاف کارروائیاں کی ہیں اور اسماعیل خیل، مندوزئی اور گربز نامی اضلاع سے ایسے چھ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے جنھوں نے لڑکیوں کی مرضی کے خلاف انھیں اپنے نام سے منسوب کرنے کی کوشش کی تھی۔‘
ترجمان طاہر احرار کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے اپنے قائد کے اس حکم نامے کے بعد اس مسئلے کے خلاف سنجیدگی سے اقدامات کرنا شروع کر دیے ہیں، جس میں جبری شادی پر پابندی لگانے کی سفارش کی گئی تھی۔
واضح رہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے سربراہ ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ نے اپنے اقتدار کے پانچویں مہینے یعنی 3 دسمبر 2021 کو ’خواتین کے حقوق‘ کے حوالے سے ایک حکم نامے میں کہا تھا کہ کوئی بھی خواتین سے زبردستی نکاح نہیں کر سکتا، عورت مال نہیں بلکہ ایک باوقار اور آزاد انسان ہے اور کوئی بھی انھیں صلح کے لیے دشمن کو نہیں دے سکتا۔
انھوں نے اپنے عہدیداروں، علمائے کرام اور قبائلی رہنماؤں کو ہدايات دی ہیں کہ اگر کوئی اس حکم کی خلاف ورزی کرے تو اسے روک کر سزا دی جائے۔
شادی کے لیے لڑکیوں کی رضامندی
غگ کی رسم کا شکار ہونے والی ایک لڑکی کے بھائی قادر(فرضی نام) نے مزید بتایا کہ خوست پولیس کے سربراہ نے یقین دہانی کروائی ہے کہ ان کی بہن کی شادی کو کوئی نہیں روک سکتا۔
’ہمیں کہا گیا ہے کہ یہ مسئلہ شریعت کی رو سے حل کیا جائے گا اور کوئی بھی لڑکی کی مرضی کے نکاح کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتا۔ مجرم بھی اپنے الفاظ واپس لے گا اور جو افواہ انھوں نے پھیلائی تھی اس کو بھی ختم کرنا بھی ان کی ذمہ ہو گی۔‘
شریعت اور اسلامی احکامات اپنی جگہ لیکن بدری افغانستان میں جرگوں کے ان فیصلوں پر شدید تنقید کرتی ہیں جن میں دشمنی ختم کرنے کے لئے خواتین کی قربانی دی جاتی ہے۔
بدری کا کہنا ہے ’اگر ایسے اعمال اور فیصلے کرنے والوں کو سخت سزائیں دی جائیں تو آئندہ کسی کی جرات نہیں ہو گی کہ فائر کر کے کسی کی بہن، بیٹی پر دعویداری کریں اور ان کی مرضی کے بغیر ان کو شادی پر مجبور کریں۔‘
بدری نے زور دیا کہ ’خاندان اور گھر والوں کو چاہیے کہ شادی کے معاملے پر اپنی لڑکیوں کو پسند اور مرضی کا حق دیں اور حالات اس نہج تک نہ پہنچنے دیں کہ معاملہ دشمنی تک پہنچ جائے۔‘