Site icon DUNYA PAKISTAN

سمندر میں تیرنے والی شارک مچھلیوں میں کوکین کہاں سے آئی؟

Share

سائنسدان یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ برازیل کے ساحل سے ملنے والی شارک مچھلیوں میں کوکین کہاں سے آئی۔

اوسوالڈو کروز فاؤنڈیشن کے سمندری حیاتیات کے ماہرین نے ریو ڈی جنیرو کے ساحل پر 13 شارکس (جنھیں برازیلین شارپ نوز شارک کے نام سے جانا جاتا ہے) کو جب ٹیسٹ کیا تو ان کے پٹھوں اور جگر میں منشیات کی خاصی مقدار ملی۔

یہ پہلی تحقیق ہے جس سے شارکس میں کوکین کا پتا چلا ہے۔ ان مچھلیوں میں ملنے والی کوکین کی مقدار دیگر سمندری جانوروں کے مقابلے میں تقریباً 100 گنا زیادہ ہے۔

شارکس کے جسموں میں منشیات کیسے پہنچیں اس حوالے سے کئی نظریات موجود ہیں۔

کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ کوکین منشیات کی تیاری کے لیے استعمال ہونے والی غیر قانونی لیبارٹریوں یا منشیات استعمال کرنے والوں کے پاخانے اور پیشاب کے ذریعے سمندری پانی تک پہنچ رہی ہے۔

اس حوالے سے کی گئی تحقیق کے مصنفین میں سے ایک ماہر حیاتیات اور اوسوالڈو کروز انسٹیٹیوٹ کی لیبارٹری میں محقق ریچل ڈیوس کا کہنا ہے کہ ’ہمارا مقالہ یہ بتاتا ہے کہ اوپر بتائے گئے دونوں مفروضے شارک میں ملنے والی کوکین کی بنیادی وجہ ہو سکتی ہیں: پہلا انسانوں کے پاخانے اور پیشاب کے ذریعے یہ منشیات مچھلیوں تک پہنچی اور دوسرا منشیات تیار کرنے والی لیبارٹریوں کے ذریعے۔‘

اس کی ایک اور وجہ کوکین کے وہ پیکج یا پارسل بھی ہو سکتے ہیں جو سمگلر سمندر میں پھینک دیتے ہیں یا جو کسی وجہ سے سمندر میں گر جاتے ہیں تاہم محققین کا ماننا ہے کہ اس کا امکان بہت کم ہے۔

’میکسیکو اور فلوریڈا کے برعکس یہاں ہمیں سمندر میں ایسے کوکین کے پیکج نظر نہیں آتے۔ لہذا ہم پہلے بیان کیے گئے دونوں مفروضوں کو زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔‘

میرین ایکوٹوکسکولوجسٹ سارہ نووائس نے جرنل سائنس کو بتایا کہ ’یہ دریافت بہت اہمیت کی حامل ہونے کے ساتھ ساتھ تشویشناک بھی ہے۔‘

وہ پرتگال کی پولی ٹیکنک یونیورسٹی آف لیریا کے سینٹر فار انوائرمنٹل اینڈ میرین سائنسز میں میرین ایکوٹوکسکولوجسٹ ہیں۔

جن مادہ شارکس کا ٹیسٹ کیا گیا، وہ سب کی سب حاملہ تھیں تاہم فی الحال یہ معلوم نہیں کہ کوکین کے فیٹس یا جنین کو کوئی اثر ہوا یا نہیں۔

کوکین شارک کے رویے میں کوئی تبدیلی لا رہی ہے یا نہیں، اس بات کا تعین کرنے کے لیے بھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

پچھلی تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ منشیات جانوروں پر بھی انسانوں جیسا اثر کرتی ہیں۔

محققین نے شارک کی صرف ایک نسل پر تجربات کیے ہیں، تاہم ان کا خیال ہے کہ اگر اس علاقے میں موجود شارک کی دیگر نسلوں کا ٹیسٹ کیا جائے تو ان میں بھی کوکین ملنے کا امکان ہے۔

ریچل ڈیوس کہتی ہیں کہ شارک گوشت خور جانور ہیں اور بہت حد تک امکان یہی ہے کہ غذائی راستے سے کوکین ان کے جسم میں داخل ہوئی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ شارک جن جانوروں کا شکار کرتی ہے (چھوٹی مچھلیاں اور دیگر سمندری جانور) ان میں کوکین موجود ہو۔

کوکین کی ترسیل کا راستہ

کیملا نونس ڈیاس جو ساؤ پالو یونیورسٹی میں سماجیات کی ڈاکٹر ہیں، وہ بتاتی ہیں کہ برازیل میں کوکین کی ایک بڑی مقدار موجود اور اس کی وجہ اس ملک کا محل وقوع ہے جو اسے یورپ اور افریقہ کی منڈیوں میں منشیات سمگل کرنے کے لیے بہت پرکشش بناتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ برازیل مجرموں کے لیے منشیات کا مرکز بن چکا ہے جہاں سے وہ ڈرگز کی تقسیم کا مربوط نظام چلا رہے ہیں۔

برازیل کی مغربی سرحدیں منشیات پیدا کرنے والے ممالک پیرو، کولمبیا اور بولیویا کے ساتھ ملتی ہیں اور دوسری جانب اس کی کئی بندرگاہوں کے ذریعے بحر اوقیانوس تک باآسانی رسائی ممکن ہے۔

’میرے خیال میں اسی سے اس چیز کی وضاحت ہوتی ہے کہ یورپ اور افریقہ جانے والی مصنوعات کا ایک بڑا حصہ برازیل سے کیوں گزرتا ہے۔ رقبے کے لحاظ سے یہ بڑا ملک ایک بہت سٹریٹجک پوزیشن میں واقع ہے۔‘

کیا غوطہ خور منشیات پھیلا سکتے ہیں؟

اوپر بیان کی گئی تحقیق کے مصنفین کے خیال کے برعکس نیوس ڈائس کا ماننا ہے کہ سمندر کا پانی اس خطے کی لیبارٹریوں میں موجود کوکین سے آلودہ نہیں ہوا۔ وہ یو ایس پی کے سینٹر فار وائلنس سٹڈیز میں ماہرِ عمرانیات کے طور پر کام کرتی ہیں۔

ان کا خیال ہے کہ زیادہ امکان یہ ہے کہ سمندر کا پانی آلودہ ہونے کی وجہ وہ غوطہ خور ہیں جو یہ منشیات بحری جہازوں پر لاد رہے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ہم نے غوطہ خوروں کے ذریعے بحری جہازوں پر کوکین منتقل کرنے والے عمل کی نشاندہی کی ہے۔ دور سے دیکھ کر میرا اندازہ یہی ہے کہ یہ وضاحت زیادہ معنی خیز ہے۔‘

نیوس ڈائس کا کہنا ہے کہ کوکین ملک کی کئی بندرگاہوں اور ہوائی اڈوں کے ذریعے یورپ بھیجے جانے سے قبل دریاؤں اور سڑکوں کے ذریعے برازیل پہنچتی ہے۔

نونس ڈیاس بتاتی ہیں کہ امریکہ بھیجے جانے والی کوکین زیادہ تر میکسیکن اور کولمبیا کے سمگلر لے جاتے ہیں تاہم برازیل ایک بڑے مرکز کا کردار ادا کرتا ہے۔

’تمام برازیلی بندرگاہیں باہر نکلنے کا راستہ ہیں۔ ان میں سے ہر بندرگاہ کا کنٹرول مختلف جرائم پیشہ گروہوں کے پاس ہے جو مرضی کے مطابق اسے استعمال کرتے ہیں۔‘

کیا شارک کا گوشت کھانے والے انسانوں کے جسم میں بھی کوکین داخل ہو سکتی ہے؟

شارک کے جسم میں ملنے والی کوکین فوڈ چین کے ذریعے انسانوں تک پہنچ سکتی ہے۔

محقق ریچل ڈیوس کا کہنا ہے کہ برازیل میں ڈاگ فش شارک بہت زیادہ مقدار میں کھائی جاتی ہے لہذا اس ذریعے سے یہ کوکین انسانی جسم میں داخل ہو سکتی ہے۔

’کوکین پہلے ہی فوڈ چین میں داخل ہو چکی ہے کیونکہ برازیل، امریکہ، برطانیہ، میکسیکو اور بہت سے دوسرے ممالک کے انسان عام طور پر روزانہ کی بنیاد پر شارک کھاتے ہیں۔‘

لیکن یہ واضح نہیں کہ ان جانوروں کو کھانے سے کوکین کی جتنی مقدار انسانوں کے جسم میں داخل ہوتی ہے وہ ان کے لیے نقصان دہ ہے یا نہیں۔

ڈیوس کا کہنا ہے ’شارک کے فوڈ چین میں داخل ہونے سے اس کے انسانی صحت پر پڑنے والے خدشات ابھی ثابت نہیں کیے جا سکتے۔‘

شارک اور دیگر مچھلیاں اپنی جلد اور گلے کے ذریعے پانی جذب کرتی ہیں۔ ڈیوس کا کہنا ہے کہ اگر کوکین سمندر کے پانی میں گھل جاتی ہے تو اس کا سمندر میں تیرنے والے انسانوں پر اثر ہونے کا امکان نہیں۔

لیکن اگر یہ پانی براہِ راست انسانوں کے جسم میں داخل ہو رہا ہے، تب بھی ہمارا ماننا ہے کہ اس کا اثر کم سے کم ہو گا۔‘

Exit mobile version