آپ یہ بات تو یقینا جانتے ہوں گے کہ دنیا کا سب سے بڑا آئس برگ(برفانی تودہ) اے 23 اے ہے لیکن یہ بات کئی لوگوں کے لیے نئی ہو گی کہ اے 23 اے کے ساتھ کچھ ایسی منفرد بات ہوئی ہے جس نے دنیا کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی ہے۔
یہ برفانی تودہ گذشتہ کئی مہینوں سے انٹارکٹیکا کے بالکل شمال میں ایک ہی مقام پر گھوم رہا ہے جب کہ اسے ان دنوں کرۂ ارض کی سب سے طاقتور بحری رو کے ساتھ تیزی سے سفر کرنا چاہیے تھا۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ لندن کے رقبے سے دوگنا بڑا یہ آئس برگ سمندر میں ایک بڑی بھنور جیسی چیز کے اوپر پھنس گیا ہے۔
سمندری ماہرین اس صورتحال کو ’ٹیلر کالم‘ اور عین ممکن ہے کہ اے 23 اے کئی برس تک اس ’قید‘ سے آزاد نہ ہو سکے۔
قطبی ماہر پروفیسر مارک برینڈن کا کہنا ہے کہ ’عام طور پر آپ برف کے تودوں کو ایسی عارضی چیز سمجھتے ہیں جو بالآخر پگھل کر ختم ہو جاتے ہیں لیکن یہ تودہ ایسا نہیں ہے۔‘
اوپن یونیورسٹی کے محقق نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ اے 23 اے ایسا آئس برگ ہے جو کبھی نہیں پگھلتا۔
اس آئس برگ کی طویل العمری کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں جس کے مطابق یہ 1986 میں انٹارکٹک کی ساحلی پٹی سے آزاد ہوا لیکن پھر فوراً ہی بعد سمندر کے تہہ میں نیچے کیچڑ میں پھنس گیا۔
تین دہائیوں تک یہ ایک جامد ’برف کا جزیرہ‘ سمجھا جاتا رہا جو اپنی جگہ سے نہیں ہلا۔
پھر 2020 کے بعد یہ دوبارہ تیرنے لگا۔ یہ پہلے آہستہ آہستہ بہنا شروع ہوا اور پھراس کے بعد شمال کی جانب چل پڑا۔
اس سال اپریل کے اوائل میں اے 23 اے انٹارکٹک سرکوپولر کرنٹ (اے سی سی) نامی بحری رو میں داخل ہوا تھا جو دنیا بھر میں زمین کے تمام دریاؤں کے مقابلے میں سو گنا زیادہ پانی منتقل کرتی ہے۔
اس کا مطلب کھربوں ٹن وزنی اس برفانی تودے کی رفتار میں کئی گنا اضافہ تھا جس کے نتیجے میں وہ جنوبی بحرِ اوقیانوس میں داخل ہو جاتا اور پھر آہستہ آہستہ پگھل کر سمندر کا حصہ بن جاتا۔
لیکن اے 23 اے کہیں نہیں گیا۔ وہ جنوبی اورکنی جزائر کے بالکل شمال میں موجود ہے اور ایک دن میں تقریبا 15 ڈگری کی رفتار سے مڑ رہا ہے اور جب تک وہ ایسا کرتا رہے گا، اس کے خاتمے میں تاخیر ہوتی رہے گی۔
اے 23 اے دوبارہ سمندر کی تہہ سے تو نہیں جڑا اور دونوں کے درمیان کم از کم ایک ہزار میٹر پانی ہے۔
اسے ایک قسم کے بھنور نے روک رکھا ہے جس کی پہلی بار تشریح 1920 کی دہائی میں ایک ماہر طبیعیات سر جی آئی (جیفری انگرام) ٹیلر نے کی تھی۔
کیمبرج کے یہ ماہر تعلیم مائع حرکیات کے میدان میں پیش پیش تھے اور یہاں تک کہ اسے دنیا کے پہلے ایٹم بم کے تجربے کے ممکنہ استحکام کو ماڈل کرنے کے لیے مین ہٹن پروجیکٹ میں بھی شامل کیا گیا تھا۔
پروفیسر ٹیلر نے دکھایا کہ کس طرح سمندر کی تہہ پر رکاوٹ کا سامنا کرنے والی رو صحیح حالات میں دو الگ الگ بہاؤ میں تقسیم ہوسکتی ہے جس سے ان کے درمیان گھومنے والے پانی میں گہرائی پیدا ہوتی ہے۔
اے 23 اے کے معاملے میں رکاوٹ سمندر کے فرش پر 100 کلومیٹر چوڑا ابھار ہے جسے پیری بینک کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ بھنور اس ابھار کے اوپر بنا ہے اور فی الحال اے 23 اے اس کا قیدی ہے۔
برٹش انٹارکٹک سروے کے پروفیسر مائیک میریڈتھ کا کہنا ہے کہ ’سمندر حیران کن چیزوں سے بھرا ہوا ہے اور یہ متحرک خصوصیت اب تک دکھائی دی جانے والی سب سے خوبصورت خصوصیات میں سے ایک ہے۔‘
’ٹیلر کالم ہوا میں بھی بن سکتے ہیں۔ آپ انھیں پہاڑوں کے اوپر بادلوں کی حرکت میں دیکھتے ہیں۔ یہ تجرباتی لیبارٹری ٹینک میں صرف چند سینٹی میٹر کی چوڑائی پر بھی ہوسکتے ہیں یا بہت بڑے ہوسکتے ہیں جیسا کہ اس معاملے میں ہے جہاں کالم کے درمیان میں ایک بڑا برفانی تودہ موجود ہے۔‘
اے 23 اے کب تک گھومتا رہے گا، یہ کوئی نہیں جانتا لیکن جب پروفیسر میریڈتھ نے پیری بینک کے مشرق میں ایک اور ابھار کے اوپر ٹیلر کالم میں سائنسی بوائے رکھا تو یہ تیرتا ہوا آلہ چار سال بعد بھی اسی جگہ گھوم رہا تھا۔
اے 23 اے ایک بار پھر سمندر کی تہہ کی ہیئت کو سمجھنے کی اہمیت کے لیے ایک بہترین مثال ہے۔
زیر آب پہاڑوں، وادیوں اور ڈھلوانوں کا پانی کی سمت اور ملاپ اور سمندر میں حیاتیاتی سرگرمی کو چلانے والے غذائی اجزاء کی تقسیم پر گہرا اثر پڑتا ہے۔
یہ اثر آب و ہوا کے نظام تک بھی پھیلا ہوا ہے۔ یہ پانی کی بڑے پیمانے پر نقل و حرکت ہے جو دنیا بھر میں گرمی سے بننے والی توانائی کو منتشر کرنے میں مدد کرتی ہے۔
اے 23 اے کے طرز عمل کی وضاحت کی جا سکتی ہے کیونکہ جنوبی اورکنی کے شمال میں سمندر کی تہہ کا مناسب طور پر سروے کیا گیا ہے۔
باقی دنیا میں ایسا نہیں ہے اور فی الحال بہترین جدید معیار کے مطابق دنیا میں سمندروں کے فرش کے صرف ایک چوتھائی حصے کا نقشہ ہی بنایا جا سکا ہے.