غیر ملکی پنجابی فلمیں اور پاکستان: ہر سال چار، پانچ فلموں سے شائقین کی پیاس نہیں بجھ رہی
پاکستان میں فلموں کی سکڑتی ہوئی صنعت اور یہاں بالی وڈ کی فلموں پر لگی پابندی کی وجہ سے ملک کے سنیما گھر اکثر ویران ہی رہتے ہیں۔ کبھی کوئی انگریزی فلم لوگوں کی پسندیدگی حاصل کر لیتی ہے لیکن اس حد تک نہیں کہ سنیما ہالز مستقل آباد رہیں۔
یہاں فلموں کی ریلیز کا سب سے مناسب وقت تو عید کے موقعے کو ہی سمجھا جاتا ہے۔ بہت سے پروڈیوسرز عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ کے منتظر رہتے ہیں تاکہ سارا سال ویران رہنے والے سنیما گھر شاید کچھ دنوں کے لیے آباد ہو سکیں اور فلموں کے معیار سے قطح نظر کچھ ہی دن کے لیے ہی سہی ان کی فلمیں کچھ کاروبار کر سکیں۔
اس برس بھی عیدالاضحیٰ پر 12 فلمیں نمائش کے لیے پیش ہوئیں لیکن ان میں سے صرف ایک فلم کے سوا تمام اپنے پیش کاروں کے لیے نقصان کا پیغام ہی لائیں۔ فلم ڈسٹریبوشن کمپنی ولی انٹرپرائز کے سربراہ زین ولی کے مطابق ان میں سے کچھ کا بزنس اتنا کمزور رہا کہ دو دن بعد خود ہی سنیما گھروں نے انھیں اتار دیا۔
اس صورتحال میں ایک فلم ایسی بھی تھی جو کہ شائقین کی توجہ کا مرکز بنی اور وہ تھی ’جٹ اینڈ جولیئٹ تھری‘۔ اس فلم کو عید کے کچھ دن بعد نمائش کے لیے پیش کیا گیا لیکن اس کے باوجود اس نے عیدالاضحی پر نمائش کے لیے پیش کی جانے والی تمام فلموں سے زیادہ بہتر کاروبار کیا۔
پاکستان میں اس فلم کے درآمد کنندہ اور پیش کار ادارے کے سربراہ زین ولی کا کہنا ہے کہ ’محرم سے پہلے فلم کے تمام شوز مکمل بُک رہے پھر محرم کی وجہ سے فلم بینوں کی تعداد کچھ کم ہوئی‘۔ زین کو یقین ہے کہ محرم الحرام کے بعد سنیما گھروں کی رونق بحال ہوتے ہی جٹ اینڈ جولیئٹ کے بزنس میں ایک بار پھر تیزی آ جائے گی۔
فلم بینوں کے مطابق یہ ایک ہلکی پھلکی دل کو موہ لینے والی کہانی ہے جس میں محبت بھی ہے اور پنجابی کامیڈی کا تڑکا بھی۔ لوگ اپنی پریشانیوں سے فرار چاہتے ہیں اس لیے بھی فلم کو پسند کر رہے ہیں۔ جٹ اور جولیئٹ تھری دیکھنے والے شائقین نے بی بی سی کو بتایا کہ فلم کی کہانی سے زیادہ ان کے لیے اس میں سب سے بڑی کشش دلجیت دوسانجھ کی تھی جنھیں سرحد کے دنوں جانب پنجایوں کا فخر اور ان کی پہچان مانا جاتا ہے۔
انڈین فلمیں بغیر انڈین لیبل کے
لوگوں کی پسنددیدگی کے باوجود یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب پاکستان میں انڈین فلموں پر پابندی ہے تو پھر انڈین پنجاب کے فنکاروں کی فلمیں پاکستان کیسے آ رہی ہیں؟
زین ولی کہتے ہیں کہ یہ فلمیں انڈین ہیں ہی نہیں۔ ’ان پنجابی فلموں کے پروڈیوسرز غیرملکی ہوتے ہیں اس لیے انھیں انڈین پنجابی فلمیں کہنا مناسب نہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کینیڈین پنجابی فلمز ہیں۔ جس طرح کہ جٹ اور جولیئٹ تھری کو ہی لیں اسے وائٹ ہالز پروڈکشنز نے ریلیز کیا ہے جو کہ ایک برطانوی کمپنی ہے جبکہ اس کے پروڈیوسر کینیڈا کے شہری ہیں۔‘
پاکستان میں سنیما کی گرتی ہوئی صنعت کو سہارا دینے کے لیے پاکستانی حکومت نے غیرملکی فلمیں ملک میں دکھانے کی اجازت دے رکھی ہے اور زین کے مطابق اسی اجازت کے تحت یہ پنجابی فلمیں بھی یہاں دکھائی جا رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان فلموں کی پاکستان درآمد کے لیے ایک سخت معیار مقرر کیا گیا ہے۔ ’سب سے پہلے ہمیں وزارتِ اطلاعات سے ایک این او سی لینا پڑتا ہے۔ وزارت پروڈیوسر اور فلم بنانے والی کمپنی کے بارے میں جانچ پڑتال کرتی ہے۔ اگر فلم نان انڈین ہو اور اس میں پاکستان کے حوالے سے کوئی منفی پروپیگنڈہ یا پھر ہماری ثقافت کے منافی کوئی بات نہ ہو تو این او سی جاری کر دیا جاتا ہے لیکن یہ عمل یہاں ختم نہیں ہوتا۔ اس کے بعد ہمیں فلم کو پہلے مرکزی اور پھر صوبائی سنسر بورڈز سے منظور کروانا پڑتا ہے جس کے بعد ہی یہ فلم پاکستان کے سنیما گھروں میں دکھائی جا سکتی ہے۔‘
زین کا کہنا ہے کہ ’چونکہ ان نان انڈین پنجابی فلموں میں سے زیادہ تر میں بالی وڈ فلموں کے برعکس پاکستان مخالف تھیمز نہیں ہوتے بلکہ ان کے موضوعات محبت، فیملی اور پنجابی مزاح سے متعلق ہوتے ہیں اور سرحد کے اس پار پنجاب میں انھیں کافی پسند کیا جاتا ہے تو ان فلموں کو اکثر اجازت مل جاتی ہے۔‘
فلموں کے نقاد اعجاز گل کی رائے میں ’امرتسر ہو یا جالندھر یا پھر لاہور، پنجابی ثقافت تو ایک ہی ہے اور یہی ایک مضبوط رابطہ ہے جو سرحد کے دونوں جانب پنجابیوں کو قریب لاتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا ’ہم سب جانتے ہیں کہ یہ انڈین فلمیں ہی ہیں بس ان پر انڈین لیبل نہیں ہے۔ انھیں پاکستان میں کینیڈین فلموں کے طور پر مارکیٹ کیا جا رہا ہے۔ تو سبھی سرکاری کھاتوں میں یہ نان انڈین فارن فلمز ہی ہیں۔ پر بہرحال ان سے ہونے والی آمدنی تو واپس انڈیا ہی جا رہی ہے۔‘
پنجابی ثقافت اور مزاح کے ساتھ ساتھ ان فلموں کی پاکستان میں مقبولیت کی ایک بڑی وجہ ان فلموں میں پاکستانی اداکاروں کی شمولیت بھی ہے اور کئی بڑے نام جیسے کہ افتخار ٹھاکر، ناصر چنیوٹی، اکرم اداس اور سہیل احمد کو بھی ان فلموں میں کاسٹ کیا جا چکا ہے۔
بالی وڈ فلموں پر پابندی
پاکستان میں انڈین فلموں پر پابندی 2019 میں مودی حکومت کی طرف سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد لگائی گئی لیکن اس سے پہلے ہی 2016 میں اڑی حملے کے بعد انڈین موشن پکچر پروڈیوسرز ایسوسی ایشن نے پاکستانی اداکاروں، گلوکاروں اور ٹیکنیشنز کے انڈیا میں کام کرنے پر ہمیشہ کے لیے پابندی لگا دی تھی۔
جب یہ پابندی لگی تو پاکستان کے کئی فنکار جن میں راحت فتح علی خان، فواد خان، علی ظفر، ماہرہ خان اور عاطف اسلم جیسے نام شامل ہیں کئی شراکتی منصوبوں پر انڈین پروڈیوسرز کے ساتھ کام کر رہے تھے۔
پاکستانی انڈسٹری میں بہت سے لوگوں کی رائے ہے کہ اس ایک پابندی نے 2006 میں پاکستان میں انڈین فلموں کی نمائش پر پابندی کے خاتمے کے بعد اگلے دس برس میں سرحد پار فنکاروں کے درمیان دھیرے دھیرے بنی شراکت داری کو ایک جھٹکے میں تباہ کر دیا جس کے بعد سے آج تک یہ رابطے اس طرح بحال نہیں ہو سکے۔
پاکستان نے بھی جواباً انڈین فلموں پر پابندی لگا دی لیکن اسے 2019 تک بہت سختی سے نافذ نہیں کیا گیا۔ بالاکوٹ پر انڈین طیاروں کی بمباری کے بعد پاکستان کے سنیما مالکان نے انڈین فلموں کی پاکستان میں نمائش کا سلسلہ روکنے کا اعلان کیا اور پھر اگست 2019 میں مودی حکومت کی جانب سے کشمیر کی آئینی حیثیت بدلے جانے کے بعد انڈین فلموں کی پاکستان میں نمائش پر مکمل پابندی لگا دی گئی جو اب تک برقرار ہے۔
تاہم 2021 سے ’فارن پنجابی‘ فلموں کو پاکستان لانے کے لیے ایک راستہ بنایا گیا جس کے ذریعے جٹ اینڈ جولیئٹ جیسی فلمیں پاکستان آ رہی ہیں۔
ہما امجد بالی وڈ فلموں کی دلدادہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انڈین فلموں پر پابندی بےجا ہے اور اسے ہٹا دیا جانا چاہیے۔ ’آرٹ کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ بالی وڈ فلموں کو بھی پاکستان میں دکھائے جانے کی اجازت ہر صورت ملنی چاہیے۔ یہ لوگوں کا حق ہے کہ وہ چنیں وہ کیا دیکھنا چاہتے ہیں کیا نہیں۔ یہ ریاست کا کام نہیں کہ انھیں بتائے کہ وہ کیا دیکھ سکتے ہیں کیا نہیں۔‘
انڈین فلموں کے ایک اور شائق محمد احمد کہتے ہیں کہ ’اگر پروپیگنڈے کا مسئلہ ہے تو اسے تو سنسر بورڈ کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے لیکن فلموں پر صرف انڈین ہونے کی بنیاد پر پابندی لگانا مناسب نہیں ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہمارے یہاں تو معیاری فلمیں بنتی نہیں تو پھر لوگ کیا تفریح کریں۔ اچھی فلم سنیما پر لگتی ہے تو ہم خاندان کے ساتھ مل کر دیکھ لیتے ہیں۔ ہمیں فیملی ٹائم مل جاتا ہے۔ اس میں کیا ہرج ہے۔‘
سب ہی کی جیت
ایسے شائقین کی رائے اپنی جگہ لیکن کچھ لوگوں کی رائے یہ بھی ہے کہ انڈین فلموں کی پاکستان میں نمائش کی وجہ سے پاکستان کی اپنی فلمی صنعت برباد ہو گئی ہے۔
تاہم فلمی نقاد اعجاز گل اس سے متفق نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اپنی صنعت کی تنزلی کا سارا ملبہ انڈین فلموں پر ڈالنا مناسب نہیں۔ ’لوگ اچھی تفریح کرنا چاہتے ہیں، انھیں اس کا حق ہے اور اس سے غرض نہیں کہ فلم کہاں بنی ہے۔‘
اعجاز گل کہتے ہیں کہ کینیڈا کے راستے پاکستان آنے والی انڈین پنجابی فلموں کے لیے پاکستانی پنجاب میں بڑی مارکیٹ ہے کیونکہ سرحد کے اس پار پنجابی زبان بولنے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔
’وہ اس کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی سنیما مالکان کو بھی منافع ہو رہا ہے جبکہ پاکستانی پنجابی اداکاروں کو ان فلموں سے جو معاوضہ مل رہا ہے وہ مقامی انڈسٹری انھیں کبھی دے ہی نہیں سکتی تھی۔‘
اعجاز گل کے مطابق ’ابھی بھی سال میں چار پانچ ہی ایسی فلمیں پاکستان میں لگ پا رہی ہیں۔ یہاں لوگ مزید ایسا کام دیکھنے کی چاہ رکھتے ہیں۔ وہ چاہ ابھی بھی پوری نہیں ہو پا رہی۔‘
تاہم اعجاز گل کی رائے میں انڈین فلموں سے پابندی ہٹانے کا فیصلہ یکطرفہ طور پر نہیں لیا جا سکتا۔ ’جب تک انڈیا پاکستان سے پابندی نہیں ہٹاتا پاکستان کے لیے بھی ایسا کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ بس یہی دکھ کی بات ہے کہ دونوں ملکوں میں سیاست فلموں کے لیے لوگوں کی چاہ پر حاوی ہے حالانکہ پابندیاں ہٹانے میں سب ہی کی جیت ہے۔