(گزشتہ سے پیوستہ)
وزیر آباد میں ایک سینما تھا جس میں عموماً انڈین فلمیں لگتی تھیں کیونکہ ابھی پاکستانی فلم انڈسٹری اپنے پائوں پر کھڑی نہیں ہوئی تھی۔ یہ سینما شہر سے قدرے باہر تھا چنانچہ میرا یا میرے دوستوں کا ادھر سے گزر نہیں ہوتا تھا۔ سننے میں آیا تھا کہ بعض فیملیز بھی باکس میں بیٹھ کر یہ فلمیں دیکھتی تھیں۔ میں نے اپنی زندگی کی پہلی فلم لاہور آکر دیکھی، یہ بھی ایک انڈین فلم تھی اور میرے برادر بزرگ ضیاء الحق قاسمی مرحوم والد ماجد سے چوری چھپے یہ فلم دکھانے لے گئے تھے۔ اس زمانے کی فلمیں بہت سادہ ہوتی تھیں۔ ’’فحاشی‘‘ کا نام و نشان نہیں تھا۔ ہیرو ہیروئن بھائی بہن لگتے تھے۔ سینما ہال کی دیواروں پر ترچھے پنکھے لگے ہوتے تھے۔ جب فلم بینوں کی پسند کا کوئی گانا آتا تو تماشائی خراج تحسین ادا کرنے کیلئے ان پنکھوں پر سکوں کا ’’چھٹا‘‘ مارتے جس سے ایک جھنکار پیدا ہوتی، فلم کے اختتام پر یہ سکے خاکروب کے حصے میں آتے۔ اس زمانے میں اخبارات کا سائز چھوٹا ہوتا تھا اور وہ بلیک اینڈ وائٹ میں چھپتے تھے۔ صفحات بھی بہت کم ہوتے تھے۔ تصویریں نہ ہونے کے برابر ہوتی تھیں۔ تصویر صرف کسی بڑے لیڈر کی شائع ہو سکتی تھی۔ ان اخبارات کے ایڈیٹر علمی اور ادبی شخصیت کے حامل ہوتے تھے چنانچہ زبان کا خاص خیال رکھاجاتا تھا۔ رنگین ایڈیشن نام کی کوئی چیز نہیں تھی طباعت کچھ زیادہ معیاری نہیں ہوتی تھی مگر ان میںشائع ہونے والا ایک ایک حرف پوری دیانتداری سے لکھا گیا ہوتا تھا۔ ان اخبارات کی خبروں پر آنکھیں بند کرکے یقین کیا جا سکتا تھا،اخبارات اس وقت مشن تھے۔ ابھی انڈسٹری نہیں بنے تھے، حکومتی ایوانوں میں ایڈیٹر کی دھاک بیٹھی ہوتی تھی۔ صاحبانِ اقتدار ان کی بلیک میلنگ سے نہیں بلکہ ان کے کردار کی عظمت سے خائف رہتے تھے۔ ان دنوں جرائم کی شرح بے حد کم تھی اخبارات بھی جرائم کو فرنٹ پیج کوریج نہیں دیتے تھے۔ خبروں اور مضامین میں خواتین کی عزت وحرمت کا خصوصی طور پر خیال رکھا جاتا تھا۔ ہر اخبار میں ایک فکاہی کالم ضرور ہوتا تھا جو کوئی بڑا ادیب اور صحافی لکھتا تھا۔’’جواب مضمون‘‘ ٹائپ کالم آج کے دور کی پیداوار ہیں۔ وزیر آباد میں ’’حاجی اخباراں والا‘‘کے پاس تمام اخبارات کی ایجنسی تھی حاجی صاحب خود اور ان کے بچے سائیکل پر اخبارات تقسیم کرتے۔انہوں نے سائیکل کے ساتھ گھنٹی کی بجائے بھونپو لگوائے ہوتے تھے، صبح صبح جب ’’بھائوں بھائوں‘‘کی آواز سنائی دیتی تو پتہ چلتا کہ اخبار آ گیا ہے۔
سادہ سی زندگی گزارنے والے و زیر آباد کے شہریوں کیلئے ’’اطلاع عام‘‘ کا ذریعہ بھی بہت سادہ تھا، اگر شہر میں کوئی نئی دکان کھلتی، کوئی فوت ہوجاتا، کسی جلسے یا جلوس کا اعلان کرنا ہوتا یا مہاجرین کے قافلے میں سے کسی کی گمشدگی یا بازیابی کی ا طلاع دینا ہوتی یا کسی کا کوئی بچہ گم ہوجاتا، تو اعلان کیلئے دو افراد کی خدمات حاصل کی جاتیں۔ یہ دونوں افراد شہر کے نمایاں مقامات پر کچھ دیر کیلئے پڑائوڈالتے، ان میں سے ایک گھنٹی یا ڈھول بجا کر مجمع اکٹھا کرتا اور دوسرا اپنی پاٹ دار آواز میں اعلان کرتا اور پھر یہ ’’میڈیا پرنٹ ‘‘ اگلے چوک کا رخ کرتے۔ اکثر اوقات ایک ہی شخص یہ دونوں کام کرتا اس قسم کے اعلانات عموماً میاںلَلی کیا کرتے تھے جو شہر کی ایک مشہور شخصیت تھے چند سال پیشترانہوں نے مجھ سے گلہ کیا کہ میں نے اپنی کالم میں ان کا نام میاں منظور الحق لکھنے کی بجائے میاںلَلی کیوں لکھا۔ ان کا یہ گلہ بے جا تھا کیونکہ اگر میں منظور الحق لکھتا تو پورے شہر میں کسی کو پتہ ہی نہیں چلنا تھاکہ میں کس کا ذکر کر رہا ہوں ،عوام کا دیا نام رجسٹر پیدائش میں لکھے ہوئے نام سے زیادہ مقبول ہوتا ہے۔اس زمانے میں نئی اور پرانی فلموں کی مختصر کہانیاں اور گانے چار پانچ صفحے کے گھٹیا کاغذ پر شائع شدہ صورت میں بھی فروخت ہوتے۔ شہر کے واحد سینما میں لگنے والی فلم کی پبلسٹی تانگے کےتین اطراف میں اس فلم کے بورڈ لگا کر کی جاتی۔ یہ تانگےبچوںکو اسکول سے لاتے تھے اور یوںشہر بھر میںفلم کی پبلسٹی ہو جاتی تھی۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کہ ایک شخص گھنٹی یا ڈھول بجاتا ہوا آگے چلتا اور اس کےپیچھے تین چار مزدور فلم کے پبلسٹی بورڈ اٹھا کر چل رہے ہوتے۔ ان بورڈوں پر ’’آج شب کو‘‘ کےا لفاظ اکٹھے یعنی ’’آجشبکو‘‘ کی صورت میں لکھے ہوتے میں پریشان ہو جاتا کہ اس کا مطلب کیا ہے؟
وزیر آباد میں ایک پاگل گلیوں اور بازاروں میں برہنہ گھوما کرتا تھا۔ لوگ اسے طوطی طوطی کہتے تھے۔ ’’جانے چور‘‘ کے گھر کے پاس ایک ہندو عورت ’’رام سروپ‘‘ رہتی تھی۔ طوطی سارا دن سڑکوںپرکھجل ہونے کے بعد اس کے ٹھکانے پرپہنچ جاتا وہ اس کابہت دھیان رکھتی۔ ایم بی ہائی اسکول کے پچھواڑے میں مجید پہلوان کا اکھاڑا تھا۔ یہاں مجیدا پہلوان (جو فوت ہو چکے ہیں) اپنے شاگردوں کے ساتھ لنگوٹ باندھے اور بدن پر تیل ملے ورزش میں مصروف نظر آتا تھا۔ والد ماجد مولانا بہاء الحق قاسمی کو میری مکروہات یعنی پتنگ بازی وغیرہ میں دلچسپی پسند نہ تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ میں اس کی بجائے صحت مند کھیلوں میں دلچسپی رکھوں چنانچہ میں نے اپنے دوستوں منور وغیرہ کے ساتھ مجید پہلوان کے اکھاڑے میں جانا شروع کردیا، تیسرے دن اس صحت مند کھیل کے نتیجے میں جب میں لنگڑاتا ہوا گھر پہنچا تو والد صاحب نے آئندہ اکھاڑے میں جانے سے منع کردیا اور فٹ بال خرید کر دیا مگر منور (مرحوم) کے گھر کے ساتھ چھوٹے سے خالی پلاٹ جسے ہم ’’کھولا‘‘ کہتے تھے میں فٹ بال کیسے کھیلا جاسکتا تھا۔ چنانچہ مجبوراً ایک بار پھر ’’مکروہات‘‘ کی طرف رجوع کرنا پڑا۔ (جاری ہے)