Site icon DUNYA PAKISTAN

پنجاب میں تین کروڑ روپے تک بلا سود قرضوں کی سکیم: کیا ماضی میں ایسے منصوبے کامیاب ہو پائے ہیں؟

Share

ٹیکسی سے لے کر لیپ ٹاپ اور سستی روٹی تک، مختلف ادوار کے دوران پنجاب میں ن لیگ کی صوبائی حکومت نے اپنی کئی سکیمز کے ذریعے لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی مگر اب وزیر اعلیٰ مریم نواز نے بلا سود قرض دے کر نوجوانوں کو بااختیار بنانے کا وعدہ کیا ہے۔

پنجاب حکومت نے صوبے میں اربوں روپے مالیت کی ’آسان کاروبار فنانس سکیم اور آسان کاروبار کارڈ‘ شروع کی ہے جس کے تحت کاروبار کے لیے بلا سود قرض دیا جائے گا۔

حکومت پنجاب کے مطابق یہ ملک میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے میں کاروبار کے لیے سب سے بڑا منصوبہ ہے۔

آسان کاروبار فنانس سکیم کے تحت لوگ اپنے بزنس کے لیے بلا سود تین کروڑ روپے تک حاصل کر سکتے ہیں اور اس کی واپسی بھی آسان شرائط میں ہو گی جبکہ چھوٹے اور درمیانی سطح پر کاروبار کرنے والے افراد کو خام مال کی خریداری کے لیے آسان بزنس کارڈ کے تحت 10 لاکھ روپے تک بلا سود قرض مل سکتا ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ مرد و خواتین کے علاوہ خواجہ سرا اور معذور افراد بھی اس قرض کے لیے اہل ہیں۔

مگر آسان قرضوں کے لیے یہ پاکستان کی کوئی پہلی سکیم نہیں۔ ماضی میں بھی وفاقی اور صوبائی سطح پر ایسی سکیمیں لائی جا چکی ہیں۔

پنجاب حکومت کی جانب سے گذشتہ دنوں لانچ کی جانے والی اس سکیم سے کچھ دن پہلے خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کی جانب سے ایک سکیم کا اعلان کیا گیا تھا جس کے تحت بے روزگار افراد کو روزگار کے لیے کاروبار کی مد میں بلا سود قرضے دینے کا اعلان کیا گیا۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا آسان قرضوں کے منصوبوں سے بے روزگاری میں کمی اور معاشی طور پر لوگوں کی خود مختاری کا مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے؟ اور کیا ایسے منصوبوں سے واقعی معاشی مقاصد حاصل ہوتے ہیں یا یہ صرف محض سیاسی پذیرائی حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہیں؟

،تصویر کا کیپشنچھوٹے اور درمیانی سطح پر کاروبار کرنے والے افراد کو خام مال کی خریداری کے لیے آسان بزنس کارڈ کے تحت 10 لاکھ روپے تک بلا سود قرض مل سکتا ہے

کیا ماضی میں آسان قرضوں کے منصوبے کامیاب رہے؟

مریم نواز کوئی پہلی سرکاری عہدیدار نہیں جنھوں نے بلا سود آسان قرض منصوبہ شروع کیا۔ ماضی میں بھی مختلف حکومتوں کی جانب سے وفاقی اور صوبائی سطح پر آسان اور بلا سود قرض دینے کے منصوبے شروع کیے گئے تھے جس کے تحت کم آمدنی والے افراد میں یہ قرضے تقسیم کیے گئے جن میں نوجوان اور کسان وغیرہ شامل ہیں۔

سنہ 2009 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اس وقت کے وزیرا عظم یوسف رضا گیلانی نے کم آمدنی والے افراد کو تین لاکھ تک بلا سود قرضے دینے کے منصوبے کا اجرا کیا تھا۔

جولائی 2014 میں پاکستان مسلم لیگ نواز کے دور میں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے بلا سود قرضے دینے کے منصوبے کو لانچ کیا تھا۔

وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے بھی بلا سود قرضے دینے کی سکیم کا اجرا کیا تھا۔ پاکستان تحریک انصاف کے دور میں اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے نوجوانوں کو کاروبار کرنے کے لیے آسان اور بلا سود قرضے فراہم کرنے کا منصوبے کا اعلان کیا تھا۔

2022 میں وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی بلاسود قرضے فراہم کرنے کے منصوبے کا اجرا کیا تھا۔

پاکستان میں معاشی اور کاروباری امور کے ماہرین کی رائے ہے کہ ان منصوبوں سے کوئی ایسے نتائج برآمد نہیں ہو سکے جن کی بنیاد پر کہا جا سکے کہ اس سے معاشی طور پر وسیع پیمانے پر لوگ خود مختار ہوئے ہوں یا چھوٹے یا درمیانے درجے کے کاروباروں کو فروغ حاصل ہوا ہو۔

پاکستان کے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ایسے منصوبوں کی ناکامی کی وجہ ان کا ’سیاسی بنیادوں پر لانچ ہونا‘ ہے کیونکہ ان کے پس پردہ معاشی سے زیادہ سیاسی فیکٹرز ہوتے ہیں۔

انھوں نے کہا نوے کی دہائی میں نواز شریف کی جانب سے ’ییلو ٹیکسی‘ سکیم کا اجرا کیا گیا تھا جس کے تحت لوگوں کو ٹیکسیاں دی گئیں لیکن اس کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔

بینکاری اور معیشت کے ماہر راشد مسعود عالم نے اس سلسلے میں بتایا کہ حکومتیں ’سیاسی فائدے کے لیے‘ ایسی سکیمیں لانچ کرتی ہیں جس کی وجہ سے ان کی کامیابی کم ہی ہوتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’حکومتوں کو پتا ہوتا ہے کہ عوام پورے نظام سے بیزار ہوتے ہیں کیونکہ وہاں ان کی شنوائی نہیں ہوتی۔ اس لیے ان کے لیے یہ منصوبے شروع کیے جاتے ہیں تاکہ ان کے اندر یہ احساس ہو کہ چلیں ہمیں بھی کچھ وسائل مل گئے۔‘

’حکومتیں اس کے ذریعے سیاسی کیپیٹل بڑھاتی ہیں کیونکہ اگر ان سکمیوں سے کوئی فائدہ ہوتا تو پاکستان میں معاشی انقلاب برپا ہو چکا ہوتا۔‘

ماہر معیشت شاہد محمود بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ایسی سکیموں سے کوئی فائدہ ابھی تک حاصل نہیں ہو سکا کیونکہ ’یہ کام تو اسی کی دہائی سے شروع ہوا لیکن معاشی سطح پر کوئی اثر نہیں دیکھا گیا۔‘

حکومت پنجاب کی نئی قرضہ سکیم کامیاب ہو پائے گی؟

نوجوانوں کو کامیاب کاروباری شخصیات بنانے کے حوالے سے مریم نواز کے اس منصوبے سے ماہر معیشت شاہد محمود زیادہ پُرامید نہیں۔

انھیں لگتا ہے کہ اس منصوبے کا بھی ماضی کے منصوبوں کی طرح کا انجام ہو گا کیونکہ ’یہ منصوبے نئے نہیں ہوتے بلکہ ری برانڈ کر کے نئی صورت میں شروع کیے جاتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ بینکوں کی جانب سے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کے لیے قرضے دیے جا رہے ہوتے ہیں۔ ’حکومت نے اسے صرف ری برانڈ کرنا ہوتا ہے اور اپنی تصویر کے ساتھ نئے سرے سے شروع کرنا ہوتا ہے۔‘

راشد مسعود نے کہا کہ دنیا بھر میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار معیشت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور انھیں بینک بھی سپورٹ کرتے ہیں۔

’یہ قرضے صلاحیت یا ہنر کی بنیاد پر دیے جاتے ہیں لیکن پاکستان میں ایسا کوئی نظام موجود نہیں۔‘

ان کے مطابق پنجاب حکومت کا نیا منصوبہ بھی کسی سکل بیسڈ معیار پر نہیں بلکہ صرف اپنا سیاسی کیپیٹل بنانے کے لیے ہے۔

تاہم پاکستان کے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کہتے ہیں کہ پنجاب حکومت نے ایک کوشش تو کی ہے جسے سراہنا چاہیے کیونکہ ملک میں بینکوں سے قرضے تو صرف ’اشرافیہ اور بڑے کاروبار لے جاتے ہیں۔ بینکوں کی جانب سے چھوٹے اور درمیانے کاروبار کے لیے قرضہ مجموعی طور پر کاروبار کے لیے دیے جانے والے قرضے کا صرف چھ فیصد ہے جبکہ ملک میں تیس لاکھ چھوٹے کاروباری یونٹس ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ چھوٹے اور درمیانی درجے کے کاروبار کے لیے یہ منصوبہ اس لیے بھی ٹھیک ہے کیونکہ ’ان کے ہاں یہ قرضہ واپس کرنے کی شرح بڑے کاروباری افراد کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔‘

آسان قرضوں کے منصوبے بینکوں پر کس طرح اثرانداز ہوتے ہیں؟

آسان اور بلاسود قرضوں کے بینکوں پر اثرات کے بارے میں ماہرین معیشت کا کہنا ہے یہ منصوبے زیادہ تر سرکاری بینکوں کے ذریعے دیے جاتے ہیں جیسے نیشنل بینک، بینک آف پنجاب وغیرہ۔

ان کے مطابق اگر کمرشل بینک بھی قرضہ دیتے ہیں تو اس کی ضمانت حکومت کی ہوتی ہے، اس لیے بینکوں کی بیلنس شیٹ پر اس کا کوئی خاص اثر نہیں ہوتا۔

چونکہ کمرشل بینکوں کو سود حکومت نے ادا کرنا ہوتا ہے اس لیے انھیں کوئی پریشان کن صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

ڈاکٹر پاشا نے کہا کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کے لیے بینکوں کے قرضے ویسے بھی بہت کم ہوتے ہیں اور حکومت کے آسان قرض کے منصوبے تو مجموعی قرضے کا بہت ہی قلیل حصہ ہوتے ہیں اس لیے بینکوں کے لیے اس میں کوئی فکرمندی کی بات نہیں ہوتی۔

شاہد محمود نے بتایا کہ حکومت کے یہ منصوبے بینکوں کے لیے اچھے ہوتے ہیں کیونکہ انھیں سود سمیت رقم مل رہی ہوتی ہے جو حکومت ادا کرتی ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ جب سنہ 2008 کے الیکشن کے بعد شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب بنے تو سستی روٹی منصوبے کے لیے مشینری منگوائی گئی تھی جس پر خرچ کی سود سمیت واپسی بینکوں کو اب سے کچھ عرصہ قبل تک ہوتی رہی ہے یعنی یہ قرضے بینکوں کے لیے کوئی پریشانی کی بات نہیں۔

Exit mobile version