Site icon DUNYA PAKISTAN

نیب کا ملک ریاض کی حوالگی کیلئے متحدہ عرب امارات سے رابطہ

Share

قومی احتساب بیورو (نیب) نے ملک ریاض اور ان کے بیٹے علی ملک کو متحدہ عرب امارات سے وطن واپس لانے کا عمل شروع کر دیا، نیب حکام نے ملک ریاض اور ان کے بیٹے علی ملک کی حوالگی کے لیے اماراتی حکام سے رابطہ کرلیا۔

 رپورٹ کے مطابق معاملے سے آگاہ نیب کے ایک ذرائع نے منگل کو بتایا کہ پراپرٹی ٹائیکون کو بین الاقوامی انسداد منی لانڈرنگ قوانین اور ویانا کنونشن کے تحت متحدہ عرب امارات سے ملک بدر کروایا جائے گا۔

نیب نے متحدہ عرب امارات کے حکام سے ملک ریاض کی حوالگی کے لیے رابطہ کیا ہے جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے اثر و رسوخ کی وجہ سے ناقابل گرفت ہیں۔

ذرائع نے پی ٹی آئی کے اس موقف کی نفی کی ہے کہ ملک ریاض پر برطانوی حکام نے 190 ملین پاؤنڈ کے کیس میں کرپشن کا الزام نہیں لگایا تھا۔

ذرائع نے نومبر 2021 میں برطانیہ کی رائل کورٹ آف جسٹس کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اپیل مسترد کرتے ہوئے برطانوی عدالت کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہوم آفس کا یہ نتیجہ کہ ملک ریاض اور ان کے بیٹے بحریہ ٹاؤن کے معاملات میں کرپشن اور مالی/کاروبای بدانتظامی میں ملوث رہے ہیں، بحریہ ٹاؤن ملک ریاض اور ان کے اہلخانہ کی زیر ملکیت اور زیرانتظام کمپنی ہے جسے ایشا کی سب سے بڑی پراپرٹی ڈیولپر کمپنی شمار کیا جاتا ہے‘۔

ذرائع نے بتایا کہ برطانوی محکمہ داخلہ نے ملک ریاض اور ان کے بیٹے کا ویزا نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی تحقیقات اور 2019 میں طے پانے والے معاملات، بحریہ ٹاؤن کیسز میں سپریم کورٹ کے فیصلوں، بحریہ ٹاؤن کی جانب سے جعلی اکاؤنٹس میں جمع کرائی گئی رقم پر جے آئی ٹی کی رپورٹ اور بحریہ ٹاؤن کے خلاف اپریل 2019 میں دائر کردہ نیب ریفرنس کا جائزہ لینے کے بعد کا منسوخ کیا تھا۔

رواں ماہ کے اوائل میں نیب نے ایک بیان جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ اس نے ملک ریاض کو وطن واپس لانے کا فیصلہ کیا ہے اور لوگوں کو ان کی متحدہ عرب امارات کی کمپنی بحریہ ٹاؤن دبئی میں سرمایہ کاری سے متنبہ کیا تھا۔

2018 میں ملک ریاض نے متحدہ عرب امارات کے ظبی گروپ کے ساتھ دبئی میں 20 ارب ڈالر کا رئیل اسٹیٹ منصوبہ تیار کرنے کے لیے ایک مشترکہ منصوبے کا آغاز کیا تھا۔

بحریہ ٹاؤن دبئی کے نام سے اس منصوبے کا مقصد رہائشی، تجارتی اور تفریحی آپشنز کے ساتھ ایک پرتعیش اور جدید کمیونٹی تخلیق کرنا ہے، اس منصوبے کی افتتاحی تقریب حال ہی میں دبئی میں منعقد ہوئی تھی۔

نیب نے ملک ریاض کی بحریہ ٹاؤن پر ملک بھر میں اپنے ہاؤسنگ منصوبوں کے لیے سرکاری اور نجی زمینوں پر غیر قانونی طور پر قبضہ کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ ملک ریاض ان دنوں پاکستان میں اپنے خلاف قانونی کارروائی سے بچنے کے لیے دبئی میں مقیم ہیں۔

القادر ٹرسٹ غیر فعال

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ القادر ٹرسٹ موجود نہیں اور 2020 سے غیر فعال ہے۔

ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ القادر یونیورسٹی دسمبر 2019 میں رجسٹرڈ ہوا تھا، اس سے قبل اسی سال اپریل میں ملک ریاض نے 458 کینال زمین زلفی بخاری کے نام پر یونیورسٹی کو منتقل کی تھی۔

بعد ازاں زمین ٹرسٹ کے نام منتقل کردی گئی اور تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے 50 ہزار روپے کا عطیہ دیا جبکہ ملک ریاض نے ٹرسٹ کے بینک اکاؤنٹ میں 28 کروڑ روپے منتقل کیے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ جولائی 2020 میں علی ریاض نے بنی گالہ میں 240 کینال زمین عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی دوست فرح گوگی کو منتقل کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ٹرسٹ صرف 8 ماہ تک رجسٹرڈ رہا کیونکہ نیب کی مداخلت کے بعد ٹرسٹ کی رجسٹریشن منسوخ کردی گئی اور آج تک اسی طرح برقرار ہے۔

Exit mobile version