ٹرمپ کا “زرخیز تخلیقی ذہن”
قابل مذمت نہیں بلکہ رحم کے مستحق ہیں امریکہ میں بسے وہ مسلمان جو، بائیڈن سے ناراض ہوگئے تھے۔ اسرائیل کے غزہ پر حملے کے بعد انہیں امید تھی کہ خارجہ امور کے حوالے سے امریکہ کا یہ سب سے تجربہ کار صدر اپنے اثرورسوخ کو مہارت سے استعمال کرتے ہوئے فلسطینیوں کی نسل کشی روک سکتا ہے۔ بائیڈن کو مگر غزہ سے زیادہ یوکرین کو روس سے بچانے کی فکر لاحق رہی۔ اسرائیل کا وزیر اعظم ویسے بھی اسے کسی خاطر میں نہیں لاتا تھا۔ انتخابی مجبوریوں کی وجہ سے نیتن یاہو خود بھی صیہونی انتہا پسندوں کے ہاتھوں یرغمال بن چکا ہے۔ 7 اکتوبر2023میں ہوئے چھاپہ مار حملوں کے بعد سے یہ انتہا پسند غزہ کی پٹی میں کسی ایک فلسطینی کو بھی زندہ نہیں دیکھ سکتے۔ کامل وحشت کے ساتھ ان کی نسل کشی چاہتے ہیں۔ دریں اثناء امریکہ میں صدارتی انتخاب کا میدان سج گیا۔ بائیڈ ن سے ناراض ہوئے مسلمانوں نے یہ فرض کرلیا کہ ’’جنگوں سے نفرت‘‘ کرنے والا ’’کاروباری‘‘ ٹرمپ ہی اسرائیل کو ہتھ ہولا رکھنے کو مائل کرسکتا ہے۔ بائیڈن کے مقابلے میں اسے ووٹ دینے کو ڈٹ گئے۔
ٹرمپ کی جیت میں مسلمان ووٹوں نے یقینا فیصلہ کن کردار ادا نہیں کیا ہے۔ عددی اعتبار سے وہ اس قابل بھی نہیں۔ ٹرمپ کی جیت کو حیران کن اکثریت دلوانے میں تاہم ان کے ووٹوں نے بھرپور حصہ ڈالا۔شاید ان کا’’شکریہ‘‘ ادا کرنے کے لئے ہی ٹرمپ نے اپنی تقریب حلف برداری میں پہلی بار ایک مسلم عالم دین کوبھی دعوت دی۔ وہ دیگر مذاہب اور مسیحی فرقوں کے دینی رہ نمائوں کے ہمراہ دعائیہ کلمات ادا کرنے کو بلوائے گئے۔ ان کا نام دعوت نامے میں چھپ گیا تو امریکہ میں آباد صیہونی انتہا پسندوں کے ترجمان میڈیا نے مدعو کئے مسلمان عالم دین کے بارے میں سکینڈل ڈھونڈنا شروع کردئے۔ امام الحسینی کے خلاف مگر مالی یا جنسی اعتبار سے کوئی شرمناک قصہ تلاش کرنے میں ناکام رہے۔ ان کے ہاتھ لگا تو فقط ایک انٹرویو جو مذکورہ امام نے 2007ء میں ٹرمپ کے چہیتے فوکس ٹیلی وژن کو دیا تھا۔ انٹرویو کے دوران ان سے ’’حزب اللہ‘‘کے حوالے سے کئی سوالات ہوئے۔ عراق سے آئے امام الحسینی مشی گن ریاست کے ایسے قصبے میں رہتے ہیں جہاں کے 55فی صد لوگ اپنی ’’عرب‘‘ شناخت پر فخر کرتے ہیں اور ان کی کثیر تعداد کا تعلق لبنان سے بھی ہے۔ اپنی کمیونٹی کے جذبات کو ذہن میں رکھتے ہوئے امام الحسینی نے ’’حزب‘‘ کے لغوی معنی اجاگر کرتے ہوئے اس تنظیم کی مذمت سے گریز کیا جو لبنان میں بیٹھی اسرائیل کو پریشان کئے رکھتی تھی۔ 2007ء میں دئے انٹرویو کی بنیاد پر صیہونی انتہاپسندوں نے مگر جو واویلا مچایا ٹرمپ اس سے گھبراگیا۔ تقریب حلف برداری کے لئے نیا دعوت نامہ تیار کروانے کو مجبور ہوا۔ امام الحسینی کا نام نئے دعوت نامے پر ’’دعائیہ کلمات‘‘ ادا کرنے والوں کی فہرست سے نکال دیا گیا۔
حلف اٹھانے سے قبل البتہ ٹرمپ نے حماس کو تڑی لگائی کہ وہ اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی یقینی بنانے کے لئے اپنی قید میں رکھے مغوی افراد کو رہا کرے۔ اس کے ’’حکم‘‘ کے بعد قطر متحرک ہوا اور حماس پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے ٹرمپ کی خواہش پوری کردی۔ غزہ میں اس کے بعد سے امن لوٹ آیا۔ امن کی فضا مگر عارضی ہے۔ دائمی امن یقینی بنانے کے لئے کوئی انوکھا فارمولا درکار ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ خود کو دورِ حاضر کا ذہین ترین شخص تصور کرتا ہے۔
موصوف کے ’’تخلیقی ذہن‘‘ نے غزہ میں دائمی امن یقینی بنانے کے لئے نسخہ یہ دریافت کیا ہے کہ وہاں نسلوں سے آباد فلسطینی نقل مکانی کرکے مصر یا اردن چلے جائیں۔ فلسطینیوں سے خالی ہوئی غزہ کی پٹی میں اسرائیل صیہونیوں کی نئی بستیاں آباد کرے اور یوں غزہ ہمیشہ کے لئے ’’پرامن‘‘ ہوجائے۔ غزہ میں دائمی امن یقینی بنانے کے لئے اپنے ذہن میں آئے نسخے کو عیاں کرنے سے قبل ٹرمپ نے ایک لمحے کو بھی نہیں سوچا کہ غزہ میں آباد فلسطینی اسرائیل کو ایک ’’ناجائز‘‘ ریاست قرار دیتے ہیں جس نے فلسطینیوں کو ان کے گھروں اور زمینوں سے زبردستی بے دخل کیا۔ اس کا حتمی مقصد ہی فلسطینیوں کو دریائے اردن کے ’’اس پار‘‘ دھکیل کر عظیم تر اسرائیل بنانا ہے جہاں فقط یہودی آباد ہوں گے۔ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو وہاں دوسرے درجے کے شہری بن کر رہنا ہوگا۔
1948ء سے جاری فلسطینیوں کی جدوجہد کی واحد وجہ وہ دْکھ ہے جو نسلوں سے کسی گھر میں آباد انسان کو زبردستی جلاوطن کئے جانے کے بعد محسوس ہوتا ہے۔ جلاوطنی کے درد ہی نے بالآخر انہیں ہتھیار اٹھانے کو مجبور کیا۔ فلسطینیوں کے دْکھ کی حقیقی وجہ جان کر اس کا علاج سوچنے کے بجائے ٹرمپ کے ’’زرخیز ذہن‘‘ نے جو نسخہ سوچا ہے وہ فلسطین کی آنے والی نسلوں کوبھی جلاوطنی کے عذاب میں مبتلا رکھنا چاہ رہا ہے۔
فلسطینی اردن میں اس سے قبل بھی کئی دہائیوں تک ’’پناہ گزینوں‘‘ کی صورت رہے ہیں۔ وہاں کے ’’ہاشمی‘‘ سلطانوں نے مگر 1970ء کی دہائی میں انہیں ’’شرپسند‘‘ ٹھہراتے ہوئے لبنان دھکیل دیا۔ وہ لبنان پہنچے تو چند ہی برسوں بعد اس ملک کے مسیحی انتہا پسندوں نے حافظ الاسد کے شام کے ساتھ مل کر ان کی زندگی اجیرن بنانا شروع کردی۔ ان کے خلاف نفرت کا لاوا جب ابلنے لگا تو اسرائیل نے صابرہ اور شطیلہ کے مہاجر کیمپوں پر فوجی حملوں کے ذریعے اس امر کو یقینی بنایا کہ ان کی نمائندہ تنظیم پی ایل او اور اس کے قائد اسرائیل کی سرحدوں سے کہیں دور تیونس منتقل ہوجائیں۔
اردن کے علاوہ مصر کا ذکر ہوگا تو ہر فلسطینی کو کیمپ ڈیوڈ کا وہ معاہدہ یاد آجاتا ہے جو اس ملک کے صدر سادات نے اسرائیل کے ساتھ امریکی سرپرستی میں کیا اور یوں پہلا عرب ملک بن گیا جو اسرائیل کو باقاعدہ ریاست کے طورپر تسلیم کرتا ہے۔ غزہ کی پٹی چھوڑ کر فلسطینی اس ملک میں ہرگز آباد ہونا نہیں چاہیں گے۔ ویسے بھی مصر کاموجودہ حکومتی بندوبست ’’اخوان المسلمین‘‘ کو ’’تخریب کار‘‘ تنظیم ٹھہراتا ہے اور اس کی دانست میں حماس مذکورہ جماعت اور اس کے نظریات کا فلسطینی ورڑن ہے۔ ان تمام حقائق کو بے دردی سے نظرانداز کرتے ہوئے مگر ٹرمپ غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کروانے اور مصر اور اردن کو انہیں اپنے ہاں رکھنے کو آمادہ کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔