منتخب تحریریں

چھبّا انقلابی

Share

(گزشتہ سے پیوستہ)

میں نے چھبّے سے کہا ’’یار تم کیسے انقلابی ہو کہ مسلم لیگ (ن) کے حالیہ ترمیمی ایکٹ کے حق میں ووٹ ڈالنے کے حوالے سے ہونے والی تنقید سطحی اور بے بنیاد ہے؟‘‘ بولا ’’پوری بات سن لو۔ جسے تم سب بلنڈر کہہ رہے ہو، اگر یہ بلنڈر ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلم لیگ نے تنظیم سازی کے لئے کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی اور شاید پاکستان کی کسی بھی بڑی جماعت سے یہ ’’حرکت‘‘ سرزد نہیں ہوئی۔ سیاسی جماعتیں ہمارے ہاں لیڈروں کی کرشماتی شخصیت کی بنیاد پر کھڑی ہوتی ہیں۔ بینظیر پاکستان آئیں تو لاکھوں لوگ امڈ آئے۔ میں خود بھی ان کے استقبال کے لیے ریگل چوک پر کھڑا تھا۔ نواز شریف آئے تو ان کے پیچھے بھی لاکھوں کا مجمع تھا۔ عمران خان کی بھی یہی صورت حال نظر آئی۔ یہ دیکھ کر ہم غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں اور سمجھنے لگتے ہیں کہ وقت پڑنے پر پارٹی کارکنوں کا ہجوم سب کام چھوڑ کر بھاگا چلا آئے گا۔ ایسا نہیں ہوتا۔ سیاسی جماعتوں کے لیے ضروری ہے کہ انہیں نچلی سطح پر منظم کیا جائے، مقامی حکومتوں کو اختیارات دیے جائیں، میں یہ سب کچھ لکھتا رہا ہوں، سیاسی جماعتیں جب تک بی جے پی، کانگریس یا کمیونسٹ پارٹی کی طرح منظم نہیں ہوں گی، انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا رہے گا۔ خواجہ آصف نے کاشف کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ یہ بالکل درست فیصلہ ہے اور خود میں بھی یہی سمجھتا ہوں، مگر موصوف نے یہ کہہ کر مخلص ہمدردوں کی تضحیک کی کہ یہ لوگ ایک ٹویٹ کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں، حالانکہ یہ وہ لوگ ہیں جو نہایت مشکل وقت میں جمہوریت کا جھنڈا تھامے آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ کیا ان لوگوں کو طعنہ دینا مناسب تھا اور کیا اس موقع پر ان کے بارے میں ’’ایک ٹویٹ کرکے کریلے گوشت کھا کر سو جاتے ہیں‘‘ کی سطور میں ان کی خوش خوراکی کا حوالہ ضروری تھا، خود خواجہ صاحب بھی خوش خوراک ہیں اور ٹویٹ کرنے کے بعد کریلے گوشت کھانے چلے جاتے ہیں!‘‘

میں نے چھبّے انقلابی کی یہ گفتگو سنی، ابھی وہ کچھ اور بھی کہنا چاہتا تھا مگر میں نے درمیان میں ٹوک دیا ’’یہ سب کچھ ٹھیک ہے مگر تمہارے پاس اس فیصلے کے حق میں دلیل کیا ہے؟‘‘ چھبّے نے کہا ’’میں جانتا ہوں ووٹروں کی ایک تعداد کو اپنی پارٹی کے اس فیصلے سے مایوسی ہوئی، مگر یہ نہ بھولیں کہ میاں نواز شریف اور ان کی فیملی، شہباز شریف، مریم نواز، حمزہ شہباز اور دیگر عزیز و اقارب کے علاوہ شاہد خاقان عباسی، رانا ثناء اللہ، خواجہ سعد رفیق، ان کے برادر سلمان رفیق، حنیف عباسی، مفتاح اسماعیل، جاوید لطیف، احسن اقبال اور پارٹی کے دیگر قائدین نے اسی دوران بدترین سختیاں اور تشدد برداشت کیے ہیں۔ علاوہ ازیں پرویز رشید، عظمیٰ بخاری اور عطاء اللہ تارڑ کی باری بھی آنے والی ہے۔ شاہد خاقان عباسی کو ڈیتھ سیل میں رکھا گیا ہے۔ رانا ثناء اللہ چھ مہینے تک ننگے فرش پر سوتے رہے ہیں، شدید علیل نواز شریف جن کی زندگی کو ڈاکٹر خطرے میں بتاتے ہیں، نے کتنا ہی عرصہ قید تنہائی میں گزارا ہے۔ مسلم لیگ کی یہ روایت نہیں رہی ہے، یہ جماعت ایسے مواقع پر گوشۂ عافیت میں چلی جاتی رہی ہے۔ کیا ایسی قربانیوں کی زیادہ مثالیں ہمارے ہاں موجود ہیں؟‘‘

میں نے جواب دیا نہیں، مگر چھبّے تم بتائو کہ کیا بلند بانگ نعروں کے بعد جماعت کو یہ سمجھوتا کرنا چاہئے تھا؟‘‘ چھبّے نے کہا ’’میں تو پہلے ان سے شہباز شریف اور ان کے کچھ دوسرے ساتھیوں کے اس موقف کا حامی ہوں کہ نواز شریف کو سمجھوتا کر کے اپنے وہ تمام ترقیاتی منصوبے مکمل کرنا چاہئیں جو بس مکمل ہونے ہی والے تھے۔ ایک بات اور! منزل تک کوئی ایک شخص یا ایک جماعت نہیں پہنچایا کرتی، ہمارے جیسے ملکوں ہی میں نہیں، یورپ اور امریکہ کے موجودہ ترقی یافتہ ممالک اپنی منزل تک صدیوں کی جدوجہد کے نتیجے میں پہنچے ہیں۔ یہ اولمپک مشعل کی طرح کا سلسلہ ہے، مشعل ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ تک جاری رہتی ہے اور فائنل رائونڈ پورا ہوتا ہے۔ بھٹو کی جلائی ہوئی مشعل نواز شریف نے تھامی، اب اس مشعل کا بیانیہ سفر در سفر کرے گا اور ہم اپنی منزل تک پہنچ کر دم لیں گے‘‘ یہ کہتے ہوئے چھبّے انقلابی نے یہ شعر بھی پڑھے؎

ہری ہے شاخ تمنا ابھی، جلی تو نہیں

جگر کی آگ دبی ہے مگر بجھی تو نہیں

جفا کی تیغ سے گردن وفا شعاروں کی

کٹی ہے بر سرِ میداں، مگر جھکی تو نہیں

اس پر میں نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور کہا ’’بس اب تنی بھی بڑ نہ ہانکو‘‘

(جاری ہے)