پارلیمنٹ ہائوس میں قومی اسمبلی کے اپوزیشن چیمبر میں چھ جنوری کی رات کافی گہما گہمی تھی۔ میڈیا کے نمائندے اسمبلی اجلاس ختم ہوتے ہی رفو چکر ہو چکے تھے۔
پارلیمنٹ ہائوس کے اندر صرف سیکورٹی اہلکار اور اپوزیشن چیمبر کا ضروری عملہ موجود تھا اور باہر کہرآلود سیاہ رات کے سائے گہرے ہوتے جا رہے تھے۔
اپوزیشن چیمبر میں مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی سیکرٹری خواجہ آصف، چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی رانا تنویر حسین، سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق موجود تھے۔
پارٹی کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نیب کی حراست سے اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے وہاں موجود تھے اور اُن کی ہدایت پر پارٹی کے سرگودھا سے نوجوان ایم این اے اور وکیل محسن رانجھا بھی موجود تھے۔
محسن رانجھا پارٹی سیکرٹری جنرل کی ہدایت پرحالیہ قانون میں ترامیم کے لیے نوٹس بنا رہے تھے۔ دراصل احسن اقبال کی ہدایت پر ترامیم کا ابتدائی مسودہ تیار کر لیا گیا تھا۔ محسن رانجھا تعیناتی، دوبارہ تعیناتی اور توسیع جیسے الفاظ کی تعریف کے خواہاں تھے۔
پارٹی سیکرٹری جنرل ہی نہیں سابق وزیرِ دفاع خرم دستگیر نے بھی کچھ ترامیم اِسی صبح تجویز کرکے مسودہ لندن میں میاں شہباز شریف کو بھیجا تھا مگر شریف برادران کی طرف سے کسی قسم کی کوئی ہدایت کسی سینئر لیگی رہنما کو نہیں ملی تھی۔
پارٹی کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال کی ہدایت پر تیار کی جانے والی ترامیم پر بات چیت کے دوران اچانک اُنہیں ایک فون موصول ہوا جس میں ایک طاقتور سرکاری شخصیت اُن سے ترامیم متعارف کروانے کی کوشش پر نالاں ہورہی تھی۔ احسن اقبال اپنے دلائل دے رہے تھے۔
فون کال بند ہوئی تو نیب کی طرف سے کالز آنا شروع ہو گئیں کہ اسمبلی اجلاس ختم ہو چکا، آپ واپس آئیے۔ لہٰذا وہ اپنے ساتھ موجود نیب کے ہرکاروں کے ہمراہ واپس نیب راولپنڈی کے لاک اپ میں بند ہونے چلے گئے۔
اِس دوران وزیرِ دفاع پرویز خٹک اپوزیشن چیمبر میں داخل ہو کر لیگی رہنمائوں سے صبح آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے قانون کی منظوری پر بات چیت شروع کر چکے تھے۔
بات چیت جاری تھی کہ( ن) لیگ کے رہنما ایاز صادق سے فون پر پیپلز پارٹی کے نوید قمر نے رابطہ کیا تو سابق اسپیکر نے پیپلز پارٹی کے ساتھی رہنما کو وزیرِ دفاع کی اپوزیشن چیمبر آمد کی اطلاع دی اور اُنہیں بھی آنے کو کہا۔ دراصل نوید قمر (ن) لیگ سے پہلے اپوزیشن کے ایک مشترکہ اجلاس میں ہونے والے اِس فیصلے کی روشنی میں ایاز صادق سے رابطہ کررہے تھے جس میں میں ترامیم کو مشترکہ طور پر طے کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔
ایاز صادق کی طرف سے یکطرفہ طور پر حکومت سے مذاکرات کی خبر پیپلزپارٹی کے رہنمائوں کے لیے بھی حیران کن تھی۔ تھوڑی دیر میں پیپلزپارٹی کے رہنما سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف، نوید قمر اور سینیٹر مصطفیٰ کھوکھر بھی اپوزیشن چیمبر میں موجود تھے۔
اس غیر معمولی اجلاس میں وفاقی وزیرِ قانون بیرسٹر فروغ نسیم بھی وزیرِ دفاع کی معاونت کے لیے پہنچ چکے تھے۔
وزیرِ قانون فروغ نسیم نے اپوزیشن چیمبر میں بیٹھے رہنمائوں کو سروسز چیفس کی مدتِ ملازمت میں توسیع سے متعلق قانون پر بریفنگ دی تو محفل میں موجود ایک نوجوان رکنِ اسمبلی نے نکتہ اٹھایا کہ جناب آرمی، ایئرفورس اور نیوی تینوں کے قوانین میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا الگ الگ ذکر موجود ہے جو ٹھیک نہیں۔
اُس نوجوان نے کچھ اور سوال جواب کیا تو خواجہ آصف نے اُنہیں روک دیا کیونکہ نواز شریف کی ہدایت کے مطابق یہ قانون بلا حیل وحجت منظور کروانا تھا۔
وزیرِ قانون سے آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے قانون پر سوال کیا گیا تو اُنہوں نے بتایا کہ نئے قانون کے مطابق اب وزیراعظم آرمی چیف کی تعیناتی، دوبارہ تعیناتی اور اُسکے بعد توسیع دینے کا اختیار رکھتے ہیں۔ یعنی آرمی چیف کی اب دوبارہ تعیناتی عمل میں آئے گی جسکے اختتام پر وزیراعظم اُنہیں ایک سال کی توسیع بھی دے سکیں گے کیونکہ اُس وقت بھی اُن کی عمر تریسٹھ سال ہوگی۔ یہ باتیں سب کے لیے حیران کن تھیں۔
حکومتی وزرا کی موجودگی میں پیپلز پارٹی کے نوید قمر نے لیگی رہنمائوں کو مخاطب کیا اور کہا کہ وہ نئی ترامیم پر بات کرنے آئے ہیں تاکہ ترامیم مشترکہ طور پر لائی جا سکیں۔ خواجہ آصف نے واضح طور پر کہا کہ (ن) لیگ اِن ترامیم کا حصہ نہیں بنے گی۔
خواجہ آصف کے جواب پر حکومتی وزرا نے پیپلزپارٹی کے رہنمائوں سے ہنستے ہوئے کہا کہ( ن) لیگ نے تو انکار کردیا ہے اب آپ بھی اپنی ترامیم واپس لے لیں۔ نوید قمر نے کہا کہ نہیں ہم تو یہ ترامیم ضرور متعارف کروائیں گے، ہماری جماعت کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی فیصلہ دے چکی ہے اور ہم ابھی بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت پر ہی یہاں آئے ہیں۔
وزیرِ قانون فروغ نسیم نے بتایا کہ یہ قانون صلاح مشورے سے تیار ہواہے۔ ہم نے تو اِس میں فل اسٹاپ یا کومہ بھی تبدیل نہیں کیا۔ اُنہوں نے پیپلزپارٹی کا موقف سنا اور وہاں موجود رہنمائوں سے کہا کہ آپ برا نہ منائیں تو ہم ’’ان‘‘ کو بھی تازہ صورتحال سے آگاہ کردیں۔ جس پر ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے رہنمائوں نے کوئی اعتراض نہ کیا۔
اگلی صبح نوید قمر کو سابق صدر آصف زرداری کی ہدایت ملی اور اُنہوں نے پیپلزپارٹی کی طرف سے ایوان میں کھڑے ہوکر شرمندگی کے ساتھ ترامیم واپس لیں۔
یوں حکومت کی طرف سے متعارف کروائے گئے مجوزہ قوانین قومی اسمبلی اور پھر سینیٹ سے کسی بحث کے بغیر منظور ہو گئے۔ اپوزیشن چیمبر میں چھ جنوری کی رات ہونے والی گفت وشنید کے پیچھے بھی بہت کردار تھے مگر اُس رات تمام سیاسی جماعتیں موم کی ناک ثابت ہوئیں کہ جسے طاقتور جب چاہے جس طرف چاہے، موڑدے۔