پاکستان کی سپریم کورٹ نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل اعتراض لگا کر واپس کردی ہے۔
سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس کا کہنا ہے کہ عدالتِ عظمیٰ یہ معاملہ نمٹا چکی ہے کہ سزا یافتہ جب تک خود کو قانون کے سامنے پیش نہ کرے، اپیل دائر نہیں ہو سکتی۔ رجسٹرار آفس کے مطابق سپریم کورٹ ماضی میں بھی ’پہلے گرفتاری پھر اپیل‘ کا اصول وضع کر چکی ہے۔
سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس کی طرف سے لگائے گئے اعتراضات کو دور کرنے کے لیے درخواست گزار کے پاس ایک ماہ کا وقت ہے۔
ایک ماہ تک اگر وہ ان اعتراضات کو ختم کرتے ہیں تو ان کی اپیل کے قابلِ سماعت ہونے کا امکان ہے۔
یاد رہے سابق صدر پرویز مشرف نے خصوصی عدالت سے سزائے موت سنائے جانے کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔ پرویز مشرف نے اپیل میں مؤقف اپنایا تھا کہ انہیں شفاف ٹرائل کا حق نہیں دیا گیا اور خصوصی عدالت کی تشکیل بھی غیرآئینی تھی، اس لیے اس کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔
مشرف مردہ حالت میں ملیں تو لاش ڈی چوک پر لٹکائی جائے: جسٹس وقاریاد رہے کہ 17 دسمبر کو خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کو سنگین غداری کا مرتکب ٹھہراتے ہوئے انھیں آئینِ پاکستان کے آرٹیکل چھ کے تحت سزائے موت دینے کا حکم دیا تھا۔
پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس کا پس منظر
سنہ 2013 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد پاکستان مسلم لیگ نواز نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ درج کیا تھا۔
اس مقدمے کے انجام تک پہنچنے کے دوران خصوصی عدالت کے چار سربراہان تبدیل ہوئے۔
پرویز مشرف صرف ایک مرتبہ ہی خصوصی عدالت کے سامنے پیش ہوئے جب ان پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ اس کے بعد سابق صدر کبھی عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔
سابق صدر پرویز مشرف مارچ 2016 میں طبی بنیادوں پر بیرون ملک چلے گئے تھے۔ ان کا نام اس وقت کی حکمراں جماعت مسلم لیگ ن نے ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے خارج کرنے کے بعد ملک سے جانے کی اجازت دی تھی۔
خصوصی عدالت کا فیصلہ کیا تھا؟
17 دسمبر کو پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں بننے والے خصوصی عدالت کے تین رکنی بینچ نے پرویز مشرف کو آئین شکنی اور سنگین غداری کا مجرم قرار دیتے ہوئے انھیں سزائے موت دینے کا فیصلہ سنایا تھا۔
بینچ میں موجود دو ججز یعنی جسٹس سیٹھ وقار اور جسٹس شاہد کریم نے پرویز مشرف کو آئین شکنی اور سنگین غداری کا مجرم قرار دیا تھا جبکہ جسٹس نذر اکبر نے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ استغاثہ اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔ خصوصی عدالت کے 196 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں جسٹس نذر اکبر کا 42 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ بھی شامل تھا۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ استغاثہ کے شواہد کے مطابق ملزم مثالی سزا کا مستحق ہے اور اسے ہر الزام میں الگ الگ سزائے موت سنائی جاتی ہے۔
خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس سیٹھ وقار نے اپنے فیصلے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حکم دیا تھا کہ وہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو گرفتار کرنے اور سزا پر عملدرآمد کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں اور اگر وہ (پرویز مشرف) مردہ حالت میں ملیں تو ان کی لاش اسلام آباد کے ڈی چوک لائی جائے جہاں اسے تین دن تک لٹکایا جائے۔
جسٹس وقار نے اپنے اس حکم کی توجیہہ پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ چونکہ ماضی میں کسی بھی فرد کو پاکستان میں اس جرم میں سزا نہیں دی گئی اور عدالت نے اپنا فیصلہ مجرم کی عدم موجودگی میں سنایا ہے، اس لیے اگر مجرم سزا پانے سے قبل وفات پا جاتا ہے تو یہ سوال اٹھے گا کہ آیا فیصلے پر عملدرآمد ہوا یا نہیں۔
مشرف کو سزا دینے کے حق میں فیصلہ دینے والے دوسرے جج جسٹس شاہد کریم نے جسٹس سیٹھ وقار کے فیصلے میں پرویز مشرف کی موت کی صورت میں ان کی لاش ڈی چوک پر لٹکانے کے حکم سے اختلاف کیا تھا اور کہا تھا کہ ان کے خیال میں مجرم کو سزائے موت دینے کا حکم کافی ہے۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ آئین شکنی اور سنگین غداری ایک آئینی جرم ہے اور یہ وہ واحد جرم ہے جس کی سزا آئینِ پاکستان میں دی گئی ہے۔
آئین کی شق نمبر چھ کے مطابق وہ شخص جس نے 23 مارچ 1956 کے بعد آئین توڑا ہو یا اس کے خلاف سازش کی ہو ، اس کے عمل کو سنگین غداری قرار دیا جائے گا اور اس کو عمر قید یا سزائے موت سنائی جائے گی۔