ایران، امریکہ کشیدگی پر پاکستان کا موقف: فوجی تنازعہ تباہ کن ثابت ہوگا
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ امریکہ اور ایران کے درمیان جاری فوجی کشیدگی کا نتیجہ تباہ کن اثرات مرتب کر سکتا ہے۔
جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو کے ساتھ جمعرات کو شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ان کی موجودگی میں پاکستان کی کوشش ہوگی کہ اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات رکھے جائیں۔
واضح رہے کہ ایران کے جنرل قاسم سلیمانی کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت اور عراق میں موجود امریکی فوجی اڈوں پر ایرانی میزائل حملوں کے پیشِ نظر پاکستان کی طرف سے حالیہ کشیدگی ختم کروانے کے لیے مصالحتی کوششیں جاری ہیں۔
اسی سلسلے میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی امریکہ کے دورے پر موجود ہیں جہاں وہ اعلیٰ امریکی حکام سے اہم ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ اس سے قبل وہ ایران اور سعودی عرب کا دورہ بھی کر چکے ہیں۔
ایران سعودی تنازعے پر پاکستان کا کیا موقف ہے؟
انٹرویو کے دوران عمران خان کا کہنا تھا کہ ان کی بھرپور کوشش ہوگی کہ ایران اور سعودی عرب ’دونوں ممالک کے درمیان تعلقات خراب نہ ہوں۔ یہ خطہ ایک اور تنازعے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔‘
انھوں نے کہا: ’پاکستان کے عظیم ترین دوستوں میں سے ایک سعودی عرب ہے۔۔۔ ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات ہمیشہ اچھے رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ایران کے ساتھ فوجی تنازعہ تباہ کن ہو گا۔‘
یہی موقف امریکہ کے دورے پر موجود پاکستانی وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی اپنایا جو واشنگٹن میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’مشرقِ وسطیٰ اور دنیا کے اس خطے نے کافی تناؤ دیکھ لیا ہے اور اس خطے کو ایک اور تنازعے کی ضرورت نہیں ہے۔‘
وفاقی وزیر شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی ’نہ صرف نقصان دہ بلکہ تباہ کن ہو سکتی ہے۔‘
انھوں نے تجویز دی کہ ’ایران کی جانب سے بیانات کشیدگی کو بڑھانے کی طرف نہیں تھے اور صدر روحانی کے 8 اگست کے خطاب نے سفارتکاری کے لیے جگہ بنا دی ہے جسے استعمال کیا جانا چاہیے۔‘
’میرا خیال ہے کہ ایران جنگ نہیں چاہتا۔۔۔ پابندیاں عام ایرانیوں کو تنگ کر رہی ہیں جو انھیں برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ ان کی پالیسیاں انھیں تنہا کر رہی ہیں۔‘
شاہ محمود قریشی نے امریکہ اور ایران کے مابین کشیدگی پر پاکستان کا موقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ اختلاف رائے کے باوجود رابطوں کی بحالی اور پالیسیوں پر نظر ثانی سے بات چیت کو فروغ دینا چاہیے۔
کیا پاکستان انڈیا کو مذاکرات کی دعوت دے گا؟
اگست 2019 کے دوران انڈیا میں اس کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت اور آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد پاکستان اور انڈیا کے درمیان بھی کشیدگی میں بھی اضافہ ہوا۔
انڈیا کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے سوال پر عمران خان نے کہا کہ: ’میں پہلا سیاسی رہنما تھا جس نے دنیا کو متنبہ کیا کہ انڈیا میں کیا ہورہا ہے۔ انڈیا پر ایک نسل پرست انتہا پسند کی حکومت ہے۔‘
’ان کے نظریے کا نام ہندتوا ہے۔ اس کی بنیاد آر ایس ایس نے ڈالی جس کا آغاز 1925 میں ہوا۔ یہ جرمنی میں نازی پارٹی سے متاثر تھے۔۔۔ اور نسلی برتری پر یقین رکھتے تھے۔ جس طرح نازی پارٹی کا نظریہ ایک اقلیت سے نفرت پر مبنی تھا اسی طرح ہندتوا کی بنیاد مسلمانوں اور مسیحی برادری سمیت دوسری اقلیتوں سے نفرت ہے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ اس مسئلے کے حل کے لیے کیا کر رہے ہیں تو ان کا جواب تھا کہ انھوں نے انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کی تھی۔ ’میں نے اپنی پہلی ہی تقریر میں کہہ دیا تھا کہ اگر انڈیا ایک قدم بڑھائے گا تو ہم اپنے باہمی اختلافات دور کرنے کے لیے دو قدم آگے بڑھیں گے۔۔۔ تاہم انڈیا نے کشمیر کو اپنے ریاستی علاقے میں ضم کر لیا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ: ’ہم دنیا کو پاکستان آنے کی دعوت دیتے ہیں۔ پہلے اس طرف کے کشمیر کا دورہ کریں پھر انڈیا کے زیر انتظام حصے کا۔ اور خود ہی فیصلہ کریں۔‘
عمران خان چین میں ایغور مسلمانوں کے لیے کیوں نہیں بولتے؟
عمران خان سے یہ بھی سوال کیا گیا کہ وہ کشمیر میں تو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بات کرتے ہیں لیکن وہ چین اور ایغور مسلمانوں پر اس طرح سے بات نہیں کرتے تو اس کی وجہ کیا ہے۔ اس پر ان کا جواب تھا کہ: ’جو کچھ انڈیا میں ہو رہا ہے اس کا موازنہ اس کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا جو چین میں ایغور باشندوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔‘
انھوں نے وضاحت دی کہ: ’چین ہمیشہ ہی ہمارا بہت قریبی دوست رہا ہے۔۔۔ ہم چین سے مختلف امور پر نجی سطح پر بات کرتے ہیں لیکن عوامی سطح پر نہیں۔‘
عمران خان کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ ’یہ حساس معاملات ہیں۔‘
دریں اثنا عمران خان نے تسلیم کیا کہ افغانستان نے گذشتہ 40 برسوں کے دوران کافی مشکلات کا سامنا کیا ہے اور پاکستان چاہتے ہے کہ ’امریکہ، افغان حکومت اور طالبان مل کر قیام امن کی منزل حاصل کر لیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ صدر اشرف غنی کے دوبارہ انتخاب کے بعد اب ممکن ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو جائے گا۔