اسلام آباد: پاکستان کو رواں مالی سال کے دوران ٹریژری بلز میں 2 ارب 22 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی ریکارڈ غیر ملکی سرمایہ کاری موصول ہوئی۔
رپورٹ کے مطابق ٹریژری بل کی حالیہ نیلامی 15 جنوری کو ہوئی تھی جس کے ذریعے 53 کروڑ 79 لاکھ ڈالر حاصل ہوئے جو اب تک کسی واحد نیلامی کی سب سے بڑی رقم ہے اس بات کی تصدیق اسٹیٹ بینک نے بھی کی۔
جہاں تیزی سے ہونی والی غیر ملکی سرمایہ کاری حکومت کے ذخائر بہتر بنانے میں معاون ہے وہیں اس نے تجزیہ کاروں اور ماہرینِ معاشیات کے درمیان بحث کو بھی جنم دے دیا ہے، جن میں سے کچھ کا خیال ہے کہ سرمایہ کاری کے یہ رقم ایک جھٹکے میں ملک سے باہر جاسکتی ہے جو ملک کی معیشت کے لیے تباہ کن ہوگا۔
حکومت نے 15 جنوری کی نیلامی کے دوران 11 کھرب روپے وصول کیے لیکن ٹریژری بلز کے ذریعے 2 کھرب 74 ارب روپے اکٹھے ہوئے۔
اسٹیٹ بینک سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ٹریژری بلز میں 95 فیصد سرمایہ کاری امریکا اور برطانیہ کی جانب سے کی گئی اور 53 کروڑ 79 لاکھ ڈالر کی مجموعی سرمایہ کاری میں سے 45 کروڑ 67 لاکھ ڈالر برطانیہ اور 75 کروڑ 83 لاکھ ڈالر امریکا سے آئے۔
یوں رواں مالی سال کے دوران برطانیہ سے کی جانے والی سرمایہ کاری ایک ارب 39 کروڑ 20 لاکھ ڈالر جبکہ امریکا سے کی گئی سرمایہ کاری 75 کروڑ 83 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئی۔
ٹریژری بلز سے آنے والا سرمایہ حکومت کو ذخائر بہتر بنانے میں مدد کرتا ہے جس سے اسٹیٹ بینک کے ذخائر 11 ارب 56 کروڑ 80 لاکھ ڈالر جبکہ حکومتی ذخائر 18 ارب 12 کروڑ 30 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئے۔
اس حوالے سے کرنسی مارکیٹ سے وابستہ بینکرز کا کہنا تھا کہ ٹریژری بلز کے ذریعے ڈالر کی آمد نے ایکسچینج ریٹ مستحکم کردیا ہے جو امریکا اور ایران کے درمیان جنگ جیسی صورتحال کے مختصر سے عرصے میں واضح تھا، نہ تو طلب بڑھی اور نہ ہی اس کی قیمت میں اضافہ ہوا۔
عارف حبیب لمیٹیڈ کے عارف حبیب کا کہنا تھا کہ ’غیر ملکی زر مبادلے میں اضافے کے لیے یورو بانڈز جاری کرنے سے کہیں زیادہ بہتر ٹریژری بلز کے ذریعے ادھار لینا ہے ، ہم نے دیکھا کہ حکومت نے مزید کوئی یورو بانڈ جاری کیے بغیر دسمبر 2019 میں یورو بانڈ قرض ریٹائر کرنے کے لیے ایک ارب ڈالر ادا کیے‘۔
اس سے قبل حکومت گزشتہ یورو بانڈ کی ادائیگی کے لیے ایک اور یورو بانڈ جاری کردیا کرتی تھی۔