اسلام آباد: حکومتی اتحادیوں کی جانب سے ناراضی کے اظہار کے بعد وفاقی انتظامیہ اور پنجاب حکومت کی کارکردگی پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے عہدیداران میں اختلافات کھل کر سامنے آگئے۔
اپنے بے باک اور بے دھڑک بیانات کے لیے مشہور کابینہ کے اہم رکن وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فود چوہدری نے وزیراعظم کو خط لکھ کر ان کے زیر تربیت وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے اور کہا کہ صوبائی حکومت اپنی خراب کارکردگی کے باعث پی ٹی آئی کے لیے بدنامی کا سبب بن رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق فواد چوہدری کی جانب سے وزیر اعلیٰ پنجاب کی کارکردگی پر برہمی کے اظہار کی باز گشت وزیراعظم کی سربراہی میں جمعرات کو ہونے والے پی ٹی آئی کور کمیٹی کے اجلاس میں بھی سنائی دی۔
دوسری جانب اپوزیشن کا خیال ہے کہ حکومتی اتحادیوں کی جانب سے ناراضی اور پی ٹی آئی کے اپنے رہنماؤں کی جانب سے تحفظات کا اظہار اس بات کا اشارہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے۔
واضح رہے کہ ملک میں ترقیاتی کام نہ ہونے کے حوالے سے حکومت کی اتحادی جماعتوں کی بڑھتی ہوئی شکایات کے تناظر میں وزیراعظم نے وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کو ذمہ داری دی تھی کہ صوبائی حکام سے بالخصوص پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ملاقات کریں جہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے اور صوبائی مالیاتی ایوارڈ کے ذریعے ضلعی سطح پر فنڈز کی تقسیم کو یقینی بنائیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پارٹی کی حالیہ پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں پی ٹی آئی رہنماؤں نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے ملنے والی مالی معاونت میں پارٹی کارکنان کو نظر انداز کرنے کی شکایت کی تھی۔
جس کے بعد پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کے اجلاس میں کچھ پارٹی رہنماؤں نے ترقیاتی فنڈز نہ ملنے اور اپنے حلقوں میں ترقیاتی کام نہ ہونے کی شکایت بھی کی تھی۔
اور اب فواد چوہدری کی جانب سے وزیراعظم کو ارسال کردہ خط کو مرکزی اور پنجاب حکومت کی کارکردگی پر پی ٹی آئی کے لیے سنگین دھچکا دیکھا جارہا ہے ۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ پنجاب کے مالی سال 20-2019 کے بجٹ میں سالانہ ترقیاتی اخراجات کے لیے 3 کھرب 40 ارب روپے مختص کیے گئے تھے لیکن اب تک صرف 83 ارب روپے جاری کیے گئے جبکہ اس میں سے خرچ کی جانے والی رقم مزید کم ہے۔
دوسری جانب میڈیا رپورٹس میں پنجاب حکومت کے ترجمان کے حوالے سے کہا گیا کہ صوبائی حکومت اب تک ایک کھرب 79 ارب روپے جاری کرچکی ہے جو سالانہ ترقیاتی بجٹ کا 58فیصد ہے۔
اس سلسلے میں جب ایک سینئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم پہلے ہی چیف سیکریٹری پنجاب اعظم سلمان اور انسپکٹر جنرل پولیس شعیب دستگیر کو بااختیار کر کے وزیراعلیٰ پنجاب کے اختیارات محدود کرچکے ہیں۔
اس لیے کارکردگی پر وزیراعلیٰ پنجاب کو الزام دینے کی کوئی منطق نہیں، مسائل اس وقت تک حل نہیں ہوں گے جب تک صوبے کے عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے سیاسی اونرشپ نہیں ہوگی۔
انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ ایک ’وہم‘ یہ بھی ہے کہ عمران خان عثمان بزدار کو تبدیل نہیں کریں گے کیوں کہ اگر انہیں تبدیل کیا تو وزیراعظم کی بقا بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔
سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ انہیں پنجاب حکومت میں کوئی تبدیلی ہوتی نظر نہیں آرہی اور وزیراعلیٰ عثمان بزدار اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے۔