منتخب تحریریں

’’ روٹی نہیں تو کیک کھائو‘‘

Share

’’صاحب ہمارے ملک میں کال پڑنے والا ہے‘‘۔ یہ ’’اطلاع‘‘ مجھے رینٹ اے کار کے ایک ڈرائیور نے گزشتہ برس مئی کے پہلے ہفتے میں لاہور سے اسلام آباد لاتے ہوئے کلر کہار گزرنے کے بعد رات کے پرہول اندھیرے میں دی تھی۔

میں اس کا دعویٰ سن کر ناراض ہوگیا تھا۔ اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ ’’کال‘‘ قحط کا پنجابی متبادل ہے۔پانچ دریائوں کے دیس میں ایسا سانحہ شاذہی نظر آیا۔ مہنگائی کی لہر آتی ہے جو بنیادی طورپر ذخیرہ اندوز ی کی بدولت ہوتی ہے۔عمران حکومت سے کئی تحفظات کے باوجود میں یہ تسلیم کرنے سے قاصر ہوں کہ وہ اس کی اجازت دے گی۔مہنگائی کی لہر اگرچہ موجود ہے۔اس میں شدت بھی آرہی ہے۔سبب اس کا مگر ذخیرہ اندوزی نہیںہے۔

ڈرائیور اپنے خوف پر ڈٹا رہا اور ا پنے دعوے کے ثبوت میں ایک ذاتی تجربہ بھی تفصیلاََ بیان کردیا۔ ہم شہریوں کی اکثریت کو شاید یہ خبر نہیں کہ ہماری خدمت پر مامور شہروں میں بسے دیہاڑی داروں کے بیوی اور بچے عموماََ ان کے گائوں ہی میں مقیم رہتے ہیں۔ہر سال جب گندم کی فصل کٹتی ہے تو یہ دیہاڑی دار اپنی سالانہ ضرورت کی گندم یکمشت خرید کر ’’بھڑولوں‘‘ میں ذخیرہ کرلیتے ہیں۔آٹے کی ضرورت ہو تو ذخیرہ ہوئی گندم میں سے کچھ حصہ نکال کر چکی سے پسوالیا جاتا ہے۔

گزشتہ برس گندم کی فصل پک جانے کے بعد مجھے اسلام آباد لانے والے ڈرائیور نے اپنے گائوں کے ایک کاشتکار کے ساتھ اسی گائوں کے ایک اور رہائشی کے ہمراہ اپنی ضرورت کا سودا کیا تھا۔کاشت کار نے ہاں کہنے کے بعد دوسرے روز کی سہ پہر بلایا۔ ڈرائیور اور اس کا دوست مطلوبہ رقم لے کر جب اس کے پاس پہنچے تو انہیں بتایا گیا کہ علی الصبح مذکورہ گائوں کی ’’ساری‘‘ گندم بک گئی ہے۔ ڈرائیور کا تعلق شیخوپورہ کے ایک گائوں سے تھا۔اس نے مزید بتایا کہ ’’ہنگامی بنیادوں‘‘ پر گندم خریدنے والے فیصل آباد سے آئے تھے۔وہ سوزوکی پک اپ گاڑیوں کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ گائوں کائوں گھومتے اور یکمشت ادائیگی کے بعد گندم خریدتے بتائے گئے ہیں۔میرا ڈرائیور بالآخر شیخوپورہ کی مقامی منڈی سے اپنی سالانہ ضرورت کی گندم لینے کو مجبور ہوا تھا۔ظاہر ہے یہ اسے نسبتاََ مہنگے داموں ملی تھی۔فیصل آباد سے آئے خریداروں کی جانب سے گندم خریدنے کے انداز نے مگر اسے قحط کے خوف میں مبتلا نہیں کیا تھا۔ اصل فکر اسے یہ تھی کہ اس کے گائوں کے کاشت کار نے نسلوں سے قائم رشتے کا خیال نہیں رکھا تھا۔ ’’زبان کا پکا‘‘ نہیں رہا۔ ’’آنکھ کا لحاظ‘‘ نہ رکھا۔

نصابی حوالوں سے قطعی اَن پڑھ ڈرائیور مجھے درحقیقت یہ سمجھانے کی کوشش کررہا تھا کہ فقط ذخیرہ اندوزی ہی قحط کا سبب نہیں ہوتی۔تھوڑے منافع کی ہوس میں جب نسلوں کے ہمسائے احساس مروت سے محروم ہوجائیں تو ’’قحط‘‘ یقینی اور شدید تر ہوجاتے ہیں۔’’اَن پڑھ‘‘ قرار پائے لوگوں کی گفتگو کو میں بہت سنجیدگی سے لیتا ہوں۔خاص طورپر وہ ڈرائیور جو کرایے پر میسر گاڑیوں کے ذریعے ہر نوع کے لوگوں کو دوسرے شہروں تک لے جاتے ہیں۔ان کا مشاہدہ قابل غور ہوتاہے۔اپنے گھر لوٹ کر میں نے پاکستان کے مختلف شہروں میں آباد ان دوستوں سے رابطہ کیا جو کاشتکاری اور ’’منڈی‘‘ کے دھندے سے وابستہ ہیں۔ان کی بدولت اطلاع یہ ملی کہ گزشتہ برس بے موسم کی بارشوں نے گندم کی فصل کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔کئی مقامات پر فصل تقریباََ ضائع ہوگئی۔ پاکستان کے وہ شہر جو زرعی اجناس کے تھوک کاروبار کی وجہ سے مصروف ہیں آنے والے دنوں میں گندم کی طلب بڑھنے کے امکانات کو ذہن میں رکھتے ہوئے گائوں گائوں جاکر کھڑی فصل کا سودا کرتے ہوئے ذخیرہ اندوزی میں مصروف نظر آرہے ہیں۔

کاشت کاردوستوں سے گفتگو کے بعد اس کالم میں گندم کے ممکنہ بحران کا اپنے تئیں تفصیلاََ ذکر کردیا۔ اُمید تھی کہ ’’مدینہ کی ریاست‘‘ بنانے کے دعوے دار ممکنہ بحران کو ٹالنے کی کوئی صورت نکالیں گے۔ ایسا مگر ہوا نہیں کیونکہ آج سے تین یا چار ماہ قبل اجناس کی ’’منڈی‘‘ سے متعلق دوستوں نے بالآخر یہ اطلاع بھی فراہم کی کہ پاکستان کے بے تحاشہ چھوٹے شہروں اور قصبات میں گندم کا بحران شروع ہوگیا ہے۔چند ماہ بعد یہ ہر صورت بڑے شہروں میں بھی نمایاں ہونا شروع ہوجائے گا۔خطرے کی گھنٹی میں نے ایک بار پھر اس کالم میں بجادی۔ یہ بھی کسی کام نہیں آئی۔

ریگولر اور سوشل میڈیا میں اب ’’گندم کے بحران‘‘ کی دہائی مچائی جارہی ہے۔’’گھبرانا نہیں‘‘ کے ورد کے ساتھ ہمارے دُکھوں کا ازالہ کرنے والے مگر احمقانہ تاویلیں-جنہیں شاید انگریزی میں Spinکہا جائے گا- گھڑتے چلے جارے ہیں۔ کمال کی توجیہہ راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر نے پیش کی ہے۔ہمارے بلند آہنگ اور حق گو اینکر خواتین وحضرات کو ون آن ون انٹرویوز کے ذریعے یہ صاحب Ratingsکی فراہمی کو یقینی بنایا کرتے تھے۔’’غریب کی چھت‘‘ ان صاحب کا پسندیدہ فقرہ ہوا کرتا تھا۔ سادہ لوح عوام کی اکثریت بہت مان سے یہ محسوس کرتی تھی کہ ’’غریب‘‘ کا دُکھ پوری شدت سے بیان کرتے ہوئے بقراطِ عصر ان کا ’’کلیجہ ٹھنڈا‘‘ کردیتے ہیں۔’’اشرافیہ‘‘ کی سنگ دلی کو کڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔

’’اشرافیہ‘‘کی استقامت اور ’’جرأت‘‘ کے ساتھ ’’کلاس‘‘ لینے والے بقراطِ عصر نے مگر اب یہ فرمایا ہے کہ ’’نومبر دسمبر‘‘ کے مہینوں میں لوگ ’’زیادہ روٹیاں‘‘ کھاتے ہیں۔ان مہینوں میں کھائی ’’زیادہ روٹیوں‘‘ کی وجہ سے جنوری 2020میں آٹے کا بحران نمودار ہوا ہے۔میں ان کے فرمودات سننے کے بعد سرپر ہاتھ رکھے سوچ رہا ہوں کہ وطنِ عزیز میں ’’نومبردسمبر‘‘ پہلی بار نہیں آئے۔ان مہینوں میں صدیوں سے شاید’’زیادہ روٹیاں‘‘ ہی کھائی جاتی ہیں۔اس برس ’’انہونی‘‘ تو نہیں ہوئی۔

بقراطِ عصر کا ایک متبادل اب پشاور سے بھی نمودار ہورہا ہے۔نام ان کا ہے شوکت یوسف زئی۔ یہ صاحب کسی زمانے میں غریبوں کی ہمدردی میں ’’ اخبار نویسی‘‘ کے دعوے دار بھی ہوا کرتے تھے۔ انہیں گلہ ہے کہ صارف ’’فائن آٹے‘‘ کا طلب گار کیوں ہے۔جبکہ خوب چھنا آٹا کینسر جیسے موذی مرض کا باعث بھی ٹھہرایا جاچکا ہے۔’’روٹی نہیں تو کیک کھائو‘‘‘ والی تاویل جو حکمرانوں کی سفاکانہ بے حسی کو بھرپور انداز میں بیان کردیتی ہے۔ایسی ہی رعونت تحریک انصاف کے ایک وزیر سرور خان نے گزشتہ برس کی سردی میں گیزر کو ’’عیاشی‘‘ ٹھہراتے ہوئے دکھائی تھی۔ بقراطِ عصر مگر یہ بھی فرماتے ہیں کہ یہ بات درست کہ ’’گیس نہیںآٹا نہیں۔عمران خان مگر ضروری ہیں‘‘ان کا متبادل موجود نہیں۔ڈیڑھ سال مزید صبردکھانا ہوگا۔اس کے بعد اس ملک میں غالباََ دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہوجائیں گی۔

وزراء کی گھڑی باتیں سنتا ہوں تو خوف سے کانپ جاتا ہوں۔واضح ہورہا ہے کہ ان کو وطنِ عزیز میں تیزی سے پھیلتے غذائی بحران کا قطعاََ ادراک نہیں ہے۔کسی مسئلے کے ٹھوس ادراک کے بعد ہی اس سے نبردآزما ہونے کی حکمت عملی بنائی جاتی ہے۔ہمارے لئے جو ’’حکمت عملی‘‘ تشخیص ہوئی ہے وہ عمران خان صاحب کی ’’نیت‘‘ اور ان کا متبادل میسر نہ ہونے پر تکیہ کررہی ہے۔

ہمارے خطے میں زرعی اجناس کی عدم دستیابی اور کبھی کبھار ’’قحط‘‘ کی صورت حال انہونی نہیں ہے۔اس بحران کا تاریخی سبب مگر مون سون کی بارشوں کا بروقت اور توقع کے مطابق نہ ہونا ہوا کرتا تھا۔دورِ حاضر کے غذائی بحران کا اصل سبب تاریخی تناظر میں اس لئے ’’نیا‘‘ ہے کہ گزشتہ دو برسوں سے ہمارے ہاں بارشیں معمول کے مطابق نہیں ہورہیں۔ یہ ضرورت سے زیادہ مگر بے وقت کی بارشیں ہیں۔ان کا غالباََ ایک نیا Patternنمودار ہورہا ہے۔نسلوں سے ہم ربیع اور خریف کی فصلوں کے لئے مختص مہینوں کی بوائی اور کٹائی کے لئے جس Cycleکے عادی ہیں وہ Cycleاب تیزی سے بدلتا نظر آرہا ہے۔

بارشوں کے تاریخی معمول میں اس تبدیلی کا ’’ماحولیات‘‘ کی وزیر نے گزشتہ برس یہ کہتے ہوئے ’’خیرمقدم‘‘ کیا تھا کہ یہ قدرت کی جانب سے عمران خان صاحب جیسے نیک طینت فرد کو جولائی 2018کے انتخاب میں کامیابی دلوانے کا ’’انعام‘‘ ہیں۔ اس ’’انعام‘‘ کا فکرمندی سے جائزہ لینے کی لہذا ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔بارشیں اس برس بھی معمول کے مطابق نہیں ہورہیں۔ گزرے نومبر میں بوائی کے لئے گندم کا تگڑا بیج مگر بازار میں تقریباََ نایاب تھا۔ فروری سے اپریل تک ہمارے کئی علاقوں کو گندم کے دانے کو توانا تر بنانے کے لئے ماحول میں حرارت اور ہوا کا جو ٹھہرائو درکار ہے میرے منہ میں خاک اس برس بھی میسر ہوتا نظرنہیں آرہا۔ہنگامی بنیادوں پر ہمیں اپنی فصلوں کی بوائی اور کٹائی کے Cycleکو تبدیل کرنے کے سوال پر غور کرنا ہوگا۔ بقراطِ عصر کی سفاکانہ سنائی دیتی فراست اس ضمن میں ہمارے کام نہیں آئے گی۔عمران خان صاحب کا ’’متبادل‘‘ یقینا دستیاب نہیں مگر بھوکے پیٹ کے ساتھ خلقِ خدا ان کی پرستش میں کب تک مصروف رہ سکتی ہے؟۔