سیاسی جماعتیں‘سول سوسائٹی اور ریاست
سیاسی جماعتوں کی ناکامی حادثہ ہے‘ مگر واقعہ ہے۔بالخصوص حزب اختلاف۔کہنے کو شیر ‘مگر سرکس کے۔ہاتھ میں تلواراور تیر‘ مگر نمائشی۔الاماشااللہ۔
عوام مضطرب ہیں۔اب توروٹی کے لالے پڑ گئے۔وزراہیں کہ زخموں پہ نمک پاشی کرتے ہیں۔کے پی سے کوئی آواز لگاتا ہے:سفیدآٹا کھانا چھوڑ دیں‘یہ صحت کے لیے مُضرہے۔پنجاب سے کوئی تاویل پیش کرتا ہے:لوگ نومبردسمبر میں روٹی زیادہ کھاتے ہیں(اس لیے آٹا مہنگاہے)۔ایسی بے رحمی اور ایسی مضحکہ خیزی۔مگر داددیجیے اپوزیشن کے اُن شیروں کوجو ان حالات میں بھی کچھار سے باہر نہیں نکلتے۔بعض نے تو کچھار ہی لندن میں بنا لیے ہیں۔اُن تلواروںاورتیروںکا قصیدہ لکھنے کے لیے‘قلم میرانیسؔ سے مستعار لیجیے جودیواروں پہ آویزاں توکیے جاسکتے ہیں ‘کسی معرکے میں کام نہیں آسکتے۔آج عوام کے جذبات اورضروریات کو کوئی زبان دینے والانہیں۔
اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کوگزشتہ تین سال میں دو اہم معرکے درپیش ہوئے۔ایک ریاستی بندوبست میں جوہری تبدیلی کامعرکہ جو ”ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے میں مجسم ہوا۔ دوسرامعرکہ موجودہ حکومت کے مدِ مقابل خود کوبطورایک طاقتوراوربامعنی اپوزیشن ثابت کرنا۔یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ عوام کے سامنے ایک متبادل قیادت موجود رہتی۔سیاسی جماعتیں یہ دونوں معرکے سر کر نے میں ناکام ثابت ہوئیں۔
تحریک انصاف نے بھی اس دوران میںایک سیاسی جماعت بننے کے لیے کسی دلچسپی کا کوئی اظہار نہیںکیا۔جماعتی سطح پردستور سازی کی ایک مشق ہوئی ‘مگر سیاسی حقیقت پسندی کی نذر ہوگئی۔مصدق گھمن جیسے سنجیدہ افرادکتابیں کھنگالتے رہے۔ ڈاکٹر ابوالحسن مشنری جذبے کے ساتھ متحرک رہے مگر انہوں نے بعض باتوں پر اصرار کیاتو انہیں اس عمل سے الگ کر دیاگیا۔اس وقت بھی تحریکِ انصاف عمران خان کے جذباتی مداحوں کے ایک فین کلب سے زیادہ کچھ نہیں۔
جمہوری معاشروں میں یہ سیاسی جماعتیںہیں جو مختلف طبقات کے مسائل کو زبان دیتی ہیں۔انہیں ایک پلیٹ فارم فراہم کرتی ہیں جہاں سے ان کی ترجمانی ہوتی ہے۔ وہ معاشرے میں جنم لینے والے افکار ونظریات سے استفادہ کرتی ہیں۔اس کا پرتو ان کی پالیسیوں میں دکھائی دیتا ہے۔یوں وہ سیاسی عمل کو منظم کرتی ہیں۔اس سے لوگوں کے جذبات کا نکاس ہوتارہتا ہے اور معاشرتی سطح پر کوئی اضطراب پیدا نہیں ہو تا۔
پاکستان کی سیاسی جماعتیں اپنا یہ کردار ادا نہیں کر سکیں۔میںاس عذرکو وزن دیتا ہوں کہ انہیںآزادانہ طور پرکام کر نے کاموقع نہیںدیاجا تا‘لیکن یہ عذر سیاسی جماعتوں کی نااہلی کے لیے جواز نہیں بن سکتا۔انہیںجو مواقع میسر آئے‘وہ ان سے بھی فائدہ نہ اُٹھا سکیں۔نوازشریف صاحب نے اپنے اقتدار کے عرصے میں نون لیگ کو بطور جماعت پرِکاہ کے برابر حیثیت نہیں دی۔یہی حال دوسری جماعتوں کا بھی ہے۔
موجود عہد میں مگر معاشرتی سطح پر دوجوہری تبدیلیاں آ چکی۔ایک ابلاغ کے ذرائع میں غیر معمولی وسعت آ گئی‘ جس سے عوامی ذہن کو مقید کرنا آسان نہیں رہا۔دوسرا یہ کہ سول سوسائٹی کے نام پر عوامی فعالیت کا ایک متبادل فورم وجود میں آگیا۔پہلی تبدیلی نے سیاسی قیادت کے ساتھ وابستہ رومانویت کو حقیقت پسندی میں بدل دیا۔اب تبدیلی کا بیانیہ ہو یا ووٹ کے تقدس کا‘اس کاا حتساب عوامی عدالت میں ہوتا ہے۔دوسری تبدیلی نے رائے عامہ کو منظم کر نا شروع کر دیا‘ جس سے ایک غیر اعلانیہ عوامی تحریک کی بنیادیں رکھ دیں۔
سماجی سطح پرپریشر گروپس اگرچہ پہلے بھی موجود تھے‘ لیکن ان سے صرف روایتی حلقوں نے فائدہ اُٹھایا۔مثال کے طور پر ہمارے مذہبی طبقات نے سماجی دباؤ کو استعمال کر تے ہوئے‘ریاست کو اپنا یرغمال بنائے رکھا۔ان کے خوف سے کوئی حکومت ان کی ناراضی کا خطرہ مول نہیں لے سکی۔اب سوشل میڈیانے دیگر طبقات کو بھی یہ راہ دکھا دی ہے اور یوں وہ بھی منظم ہونا شروع ہو گئے ہیں۔
میراتاثر ہے کہ آج سیاسی جماعتیں ایک سمت میںپیش قدمی کر رہی ہیں اورعوام دوسری سمت میں۔عوام غیر محسوس طریقے سے سماجی سطح پر منظم ہو رہے ہیں۔ان کی کوئی اجتماعی منزل نہیں ہے‘ لیکن ان میں دو باتیں مشترک ہیں۔ایک یہ کہ وہ ریاست کے موجودہ بندوبست سے مطمئن نہیں۔اُن پر اس کی حقیقت واضح ہو چکی۔دوسرا یہ کہ وہ سیاسی جماعتوں سے مایوس ہو رہے ہیں۔ان میں یہ احساس جڑ پکڑ رہاہے کہ سیاست دان دراصل اقتدار کی سیاست کے وہ کھلاڑی ہیں جن کو حقیقی مسائل کے حل سے کوئی دلچسپی نہیں۔ نوازشریف صاحب نے گزشتہ ماہ و سال میں سیاست دانوں پر عوامی اعتماد کو کسی حد تک بحال کیا لیکن پھراپنے ہاتھ سے اس سوت کو بکھیر دیا جو انہوں نے بڑی محنت سے کاتا تھا۔
ان کے اس آخری اقدام سے ممکن ہے کہ نون لیگ پر اقتدار کے دروازے کھل جائیں‘ مگر اس سے سیاسی جماعتوں پر عوامی اعتماد کو شدید نقصان پہنچا ہے۔لوگ اگراب انہیں ووٹ دیں گے تو حقیقت پسندی کی بنیاد پر نہ کہ کسی رومان کے تحت۔ان کی حکومتی کارکردگی چونکہ موجودہ حکومت سے کئی گنا بہتر رہی ‘اس لیے یہ تقابل ان کے لیے سیاسی کامیابی کا سبب بن جا ئے گا۔
سوال یہ ہے کہ موجودہ سیاسی جماعتوں سے عوامی مایوسی‘کیا سماجی بیداری کی کسی نئی تحریک کو جنم دے سکتی ہے؟کیا موجودہ حالات کے نتیجے میںکوئی نئی سیاسی جماعت اُبھر سکتی ہے؟ایک اور اہم سوال یہ بھی ہی کہ حکومتی سطح پر تبدیلی ‘کیا عوامی شعور میں بھی کسی تبدیلی کی بنیاد بن سکتی ہے؟پھر یہ کہ سیاسی جماعتوں میں اس کا کتنا احساس ہے کہ وہ عوامی جذبات کی ترجمانی میں ناکام ثابت ہوئی ہیں؟
میرا تجزیہ یہ ہے کہ اگر سیاسی جماعتوں نے موجودہ سیاسی بندوبست کو حسبِ سابق قبول کر لیا تووہ آنے والے دنوں میں غیر متعلق ہو تی جائیں گی۔انہیں بے پناہ عوامی ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔اس وقت سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں میں ایک واضح دراڑ نمودار ہو چکی جو کسی بڑی خلیج میں بدل سکتی ہے۔آج فرحت اللہ بابر‘رضا ربانی‘پرویز رشیداور افراسیاب خٹک جیسے چند افراد باہمی تعلق کو قائم رکھنے کی کوشش میں ہیں‘ لیکن یہ کوشش زیادہ عرصہ جاری نہیں رہ سکے گی۔ آج سیاسی رہنماؤں کے لیے میڈیا اور سول سوسائٹی کا سامنا کر نا مشکل ہو تا جا رہا ہے۔یہی وہ سماجی دباؤ ہے‘میں جس کا ذکر رہا ہوں۔میں فرحت اللہ بابر اور پرویز رشید کی بے بسی کو دیکھ رہا ہوں۔مشاہد اللہ خان بات بنانے کی کوشش کرتے ہیں ‘لیکن ان کا لہجہ بتاتا ہے کہ وہ خود بھی اپنے دلائل سے مطمئن نہیں۔یہ سلسلہ زیادہ عرصہ نہیں چل سکتا۔وقت کا جبر انہیں انتخاب پر مجبور کر دے گا۔یاوہ کانِ نمک میں نمک ہو جائیں گے یا سیاسی عمل سے لاتعلق۔
یہ کسی طرح معاشرے کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔یہ ایک نئی سماجی پراگندگی کو جنم دے گا۔اس سے بچنے کی واحد صورت یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں تشکیلِ نو کے عمل سے گزریں۔اپنے بیانیہ کو واضح کریں۔پھرجمہوری اقدار اپر اپنی تنظیم کریں۔ان کا موجودہ تنظیمی ڈھانچہ متروک ہو چکا۔انہیں سمجھنا ہوگاکہ سیاسی جماعتوں سے عوامی لاتعلقی ایک ایساحادثہ ہے جو ریاست کے وجود ہی کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔مشرقِ وسطیٰ کا اصل المیہ کیاہے؟عوامی جذبات کی ترجمانی کے لیے کوئی فورم موجود نہیں۔نہ ریاستی سطح پر نہ سماجی سطح پر۔اس صورت میںتیونیسیا کا کوئی عزیزی اگر اپنے وجود کو آگ لگاتا ہے تو اس کے شعلے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔شام کی دیواروں پر ایک نوجوان چاکنگ کرتا اور گرفتار ہوتا تو احتجاج داعش جیسی تنظیموں کو جنم دیتا ہے۔
ریاستی اداروں اور سیاسی جماعتوں ‘دونوں کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ انہوں نے اقتدار کی تقسیم کے جاری عمل کو آگے بڑھانا ہے یا عوامی جذبات کے احترام کی بنیاد پر ایک نئے اور فطری سیاسی بندوبست کو موقع دینا ہے۔ریاست‘سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی میں فاصلہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔اگر عوام جذبات کو نظراندازکیا گیا توپاکستان سے بھی کوئی عزیزی اُٹھ سکتاہے۔کاش! ہم میںآنے والے خطرات کی چاپ سننے کی صلاحیت ہوتی۔