چین: ماہرین کا کہنا ہے کہ چین میں سامنے آنے والے عجیب و غریب وائرس سے ہزاروں افراد متاثر ہوں گے
سائنس دانوں نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ایک عجیب و غریب وائرس کی وجہ سے چین میں متاثر ہونے والے افراد کی تعداد سرکاری طور پر بتائی گئی تعداد سے کئی گنا زیادہ ہے۔
اب تک کی اطلاعات کے مطابق 50 کیسز کی تصدیق ہوئی ہے تاہم برطانوی ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہ تعداد 1700 کے قریب ہے۔
گذشتہ برس دسمبر میں یہ بات سامنے آئی کہ چین کے شہر ووہان میں دو افراد سانس کی کی بیماری کی وجہ سے ہلاک ہوئے ہیں۔ سائنسدان پروفیسر نیل فرگوسن کا کہنا ہے کہ وہ اس مرض کے پھیلنے کے حوالے سے اس سے زیادہ فکر مند ہیں جتنے وہ ایک ہفتے پہلے تھے۔
یہ تحقیق لندن کے ایمپیرئل کالج میں ایم آر سی سینٹر برائے متعدی امراض کے ماہرین نے کی ہے۔ یہ ادارہ برطانیہ سمیت عالمی ادارہ صحت کو بھی تجاویز فراہم کرتا ہے۔
سنگا پور اور ہانگ کانگ میں فضائی سفر کے ذریعے وہاں سے آنے والوں کی سکرینگ کی جا رہی ہے۔ اسی طرح کے اقدامات امریکہ نے بھی جمعے کو اپنے تین بڑے ہوائی اڈوں پر لینے شروع کیے ہیں جن میں سان فرانسسکو، لاس اینجلس اور نیویارک شامل ہیں۔
یہ جاننا کہ مرض کس حد تک پھیلا ہے کے لیے اہم ثبوت ان کیسوں کی دیگر ملکوں میں تعداد سے ہو سکتا ہے۔ وبا کا مرکز چین کا شہر ووہان ہے جبکہ دو کیسز تھائی لینڈ اور ایک جاپان میں سامنے آیا ہے۔ پروفیسر فرگوسن کہتے ہیں کہ اس صورتحال نے انھیں پریشان کر دیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ وہان سے تین کیسز دیگر ممالک میں منتقل ہوئے ہیں اور یہ اس جانب اشارہ ہے کہ رپورٹ ہونے والے کیسز کے علاوہ بھی مزید کیسز ہو سکتے ہیں۔
یہ بتانا ناممکن ہے کہ کیسز کی حتمی تعداد کتنی ہے۔ مگر وبا جو کہ وائرس کی وجہ سے پھیلی ہے کے بارے میں مقامی آبادی اور باہر سفر کرنے والے مسافروں کے اعداد و شمار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ تفصیلی معلومات جو سائنٹیفک جنرل میں چھپنے سے پہلے آن لائن پوسٹ کی گئی میں یہ تعداد 1700 بتائی گئی ہے۔
اس کا کیا مطلب ہے؟
پروفیسر فرگوسن کہتے ہیں کہ ابھی موجودہ صورتحال پر خوفزدہ ہونا بہت جلد بازی ہو گی تاہم وہ اس حوالے سے گذشتہ ہفتے کی نسبت زیادہ خوفزدہ ہیں۔
چینی حکام کا کہنا ہے کہ اس وائرس میں کوئی ایسا کیس سامنے نہیں آیا جس سے یہ ایک شخص سے دوسرے تک منتقل ہوا ہو۔
اس کے بجائے ان کا کہنا ہے کہ یہ وائرس مختلف جانوروں کے ذریعے پھیلا ہے اور یہ سمندری خوراک اور جنگلی جانوروں کی مارکیٹ میں موجود متاثرہ جانوروں سے پھیلا ہے۔
پروفیسر فرگوسن کہتے ہیں کہ لوگوں کو اس وائرس کے ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہونے کے امکانات کو پہلے سے زیادہ سنجیدگی سے لینا چاہیے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس انوکھے وائرس کے بارے میں جاننا کہ یہ کیسے پھیل رہا ہے اس کے خطرے کے حوالے سے اندازہ لگانا ضروری ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں گوشت خور افراد کا جانوروں سے رابطہ ہوتا ہے اور اس سے انسانوں میں یہ انفیکشن منتقل ہو سکتا ہے۔
یہ وائرس کیا ہے؟
اس وائرس کے نمونوں کو ٹیسٹ کے لیے لیبارٹری میں بھجوایا گیا جہاں ان پر تحقیق کی گئی۔
عالمی ادارہ صحت کے حکام اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ کورونا وائرس ہے۔ اس وائرس کی بہت سی اقسام ہیں لیکن ان میں سے چھ اور اس حالیہ وائرس کو ملا کر سات ایسی قسمیں ہیں جو انسانوں کو متاثر کرتی ہیں۔
ان کی وجہ سے بخار ہوتا ہے سانس کی نالی میں شدید مسئلہ ہوتا ہے۔ سنہ 2002 میں چین میں کورونا وائرس کی وجہ سے 774 افراد ہلاک ہوئے اور مجموعی طور پر اس سے 8098 افراد متاثر ہوئے تھے۔
اس نئے وائرس کے جنیاتی کوڈ سے یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ رسپائریٹری سنڈروم (سارس) سے ملتا جتا ہے۔
ماہرین کا کیا کہنا ہے؟
ڈاکٹر جریمی فیرر جو کہ ویلک میڈیکل ریسرچ چیریٹی کے ڈائریکٹر ہیں کا کہنا ہے کہ اس وبا کی وجہ سے متاثرین میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ غیریقینی صورتحال باقی رہے گی لیکن یہ واضح ہے کہ کسی نہ کسی سطح پر یہ وائرس ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہوا ہے۔
ہم یہ سن رہے ہیں کہ چین اور دیگر ممالک میں نئے کیسز سامنے آئے ہیں اور امکان یہ ہے کہ اسی نوعیت کے اور بہت سے کیسز دیگر ممالک میں بھی سامنے آئیں گے۔
یونیورسٹی آف نوٹنگھم کے پروفیسر جوناتھن بال کا کہنا ہے کہ ’سب سے اہم یہ ہے کہ جب تک بڑے پیمانے پر لیبارٹری ٹیسٹنگ نہیں ہوتی اس وقت تک ان کیسز کی اصل تعداد بتانا انتہائی مشکل ہے۔‘
’مگر جب تک ہمیں کیسز کی اصل تعداد کا پتا نہیں چلتا اس وقت تک کے لیے ہمارے پاس ایسے مریضوں کی بتائی گئی ایک تعداد ہے، یعنی 41 اور ہمیں اس تعداد کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ یہ تعداد بڑھ رہی ہے اور شاید جتنا وائرس/انفیکشن اب تک دریافت ہوا ہے وہ اس سے زیادہ ہو۔‘