منتخب تحریریں

’’2020 ء تبدیلی کا سال ‘‘ والے بے بنیاد دعوے

Share

یہ کالم لکھنے بیٹھا ہوں تو یاد آیا کہ آج منیرؔ نیازی مرحوم کی 13ویں برسی ہے۔آج سے چند روز قبل بڑھک لگادی تھی کہ وقت گزرنے کے ساتھ مجھے شدت سے احساس ہورہا ہے کہ فیض احمد فیضؔ کی اُمید پرستی کے مقابلے میں منیر نیازی کی شاعری پہ حاوی خوف وہراس کی فضا ہمارے ملک کے حقائق کو بہتر انداز میں بیان کرتی ہے۔وعدہ یہ بھی کیا تھا کہ اپنی بات ثابت کرنے کے لئے ’’مثالیں دے کر واضح کریں‘‘والے دلائل پر مبنی کالم لکھوں گا۔یہ وعدہ نبھانے کی خاطر کلیات منیر اپنے بستر کے سرہانے رکھ لی۔اسے کھولنے کی مگر توفیق نہیں ہوئی۔تحقیق کے لئے جو لگن درکار ہے وہ مجھ جیسے دیہاڑی دار کو نصیب نہیں ہوئی۔یاوہ گوئی سے ڈنگ ٹپانے کی عادت لاحق ہوچکی ہے۔نامعلوم خوف نے مگر گزشتہ کئی مہینوں سے میرے ذہن کو بھی مفلوج بنارکھا ہے۔میری اَن پڑھ ماں کو ہمیشہ یہ وہم رہا کہ میں لوگوں کی ’’نظر بد‘‘ کا بآسانی شکار ہوجاتا ہوں۔ اس سے محفوظ رکھنے کے لئے وہ کئی مزاروں پر جاکر میرے لئے دُعائیں مانگتیں۔ مجھے دیکھ کر ان کے ہونٹ ہلتے تو گماں ہوتا کہ کسی ورد کے ذریعے میرے گردحفاظتی حصار باندھ رہی ہیں۔میں ان کا مذاق اُڑاتا رہا۔ اداسی کی جو کیفیت کئی دنوں سے مجھ پہ طاری ہے اس کے تسلسل کا ادراک کرتے ہوئے کئی بار یہ خیال آتا ہے کہ خوف کے طلسم سے رہائی دلانے والی شفقت اب میسر نہیں رہی۔ماں کی دُعائوں کی اہمیت کو دل سے تسلیم کرنا پڑرہا ہے۔گزشتہ ایک ماہ سے Whatsappکے ذریعے مجھے کئی لوگوں نے 26دسمبر2019کو لگے سورج گرہن کے بارے میں بھی مستقل متنبہ کرنا شروع کردیا۔ ستاروںکی چال سے آپ کی تقدیر کا حال بتانے کے دعوے دار ان دنوں مارکیٹنگ کے لئے ابلاغ کے جدید ترین ذرائع استعمال کرتے ہیں۔گھر میں فارغ بیٹھے ہوں تو سمارٹ فونز کی بدولت آئے ان کے وڈیوز دیکھنے کو جی مچل جاتا ہے۔ان سب کا اجتماعی دعویٰ ہے کہ چھ یا سات بڑے سیارے 2020کا آغاز ہوتے ہی ایک خاص گھر میں جمع ہورہے ہیں۔آسٹرولوجی کے ماہرین کے مطابق ایسا اجتماع بہت نخوست لاتا ہے۔بہت تواتر سے لہذا ہمیں ’’غیر معمولی حالات‘‘ کے لئے تیار کیا جارہا ہے۔میں بچپن ہی سے ضرورت سے زیادہ عقل پرست رہا ہوں۔محض چسکے کی خاطر بھی کسی نجومی کو اپنا ہاتھ نہیں دکھایا۔ جس زمانے اورماحول میں پیدا ہوا وہاں تاریخ پیدائش سے آگہی ضروری نہیں تھی۔ ’’برتھ ڈے‘‘ کے فنکشن بھی نہیں ہوا کرتے تھے۔ لاہور کے مشن ہائی سکول رنگ محل میں داخلے کے لئے امتحان میں بیٹھا تو وہاں کی شفیق اور پرائمری شعبے کی ہیڈ مس مارٹن نے ’’کچی یا پکی‘‘ جماعت کے بجائے دوسری جماعت میں بٹھانے کا فیصلہ کیا۔ میری عمر مگر اس قابل نہیں تھی۔اسے یقینی بنانے کے لئے لہذا ایک ’’تاریخ پیدائش‘‘ ایجاد کرلی گئی۔ یہ تاریخ پیدائش میرے میٹرک کے سر ٹیفکیٹ سے شروع ہوکر ہر سرکاری دستاویز پر موجود ہے۔گورنمنٹ کالج پہنچا تو Star Signsکا فیشن شروع ہوچکا تھا۔غالبؔ نے ’’مہ رخوں‘‘سے تعلق بنانے کی خاطر مصوری سیکھنے کی کوشش کی تھی۔ میں نے Small Talkکے لئے لنڈا نامی مصنف کی Star Signsکے بارے ایک کتاب حفظ کرلی۔ کئی سادہ لوح دوست میرے ’’علم‘‘ سے متاثر ہوکر مجھ سے اپنے ’’زائچے‘‘ بنواتے رہے۔ دیانت داری کی عادت نے بالآخر مجھے اپنی لاعلمی کا اعتراف کرنے کو مجبور کردیا۔بعدازاں ایک مہربان دوست نے سمجھایا کہ آسٹرولوجی کی ایک صنف Entertainment آسٹرولوجی بھی کہلاتی ہے۔محفلوں میں خوش گفتاری برقراررکھنے کے لئے اسے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔طبیعت مگر اس جانب مائل نہیں ہوئی۔منیرؔ نیازی نے ’’علم‘‘ کے دروازے پر کھڑے شخص کو ’’اس خوف میں داخل‘‘نہ ہونے کا مشورہ دیا تھا۔گزشتہ چند ہفتوں سے مگر میں ’’اس خوف‘‘ میں داخل ہونے کو بے چین ہورہا ہوں۔ہمارے ریگولر حتیٰ کہ بہت ہی بے باک تصور ہوتے سوشل میڈیا میں بھی ملکی حالات کے بارے میں وہ گفتگو ہرگز نہیں ہورہی جو گزرے ستمبر سے اسلام آباد کی محفلوں میں مستقل زیر بحث ہے۔مولانا فضل الرحمن اپنا ’’آزادی مارچ‘‘ لے کر اسلام آباد آئے تو نومبر/دسمبر میں ’’کچھ ہونے‘‘ کی سرگوشیاں شروع ہوگئیں۔ وہ نظر بظاہر سیاسی اعتبار سے کوئی ٹھوس شے حاصل کئے بغیر اسلام آباد سے واپس چلے گئے۔ان کے خالی ہاتھ لوٹنے کے باوجود ’’اِن ہائوس تبدیلی‘‘ کی بات چل نکلی۔

عمران حکومت کا میں ہرگز مداح نہیں ہوں۔ ایک رپورٹر کی جبلت سے مگر جب قومی اسمبلی کے اجلاس کا مشاہدہ کرتا ہوں تو ’’ان ہائوس‘‘ کے امکانات نظر نہیں آتے۔نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی پاکستان مسلم لیگ موجودہ ایوان میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت ہے۔اس جماعت کا وجود مگر قومی اسمبلی کی کارروائی کے دوران ہرگز نظر نہیں آتا۔شہباز شریف صاحب وہاں قائد حزب اختلاف ہیں۔وہ مگر لندن جانے سے قبل ہی قومی اسمبلی سے تقریباََ لاتعلق ہوگئے تھے۔ان کی عدم موجودگی کے سبب نظر آنے والے ’’خلائ‘‘ کو ابتداََ بلاول بھٹو زرداری نے گرم جوشی سے پُرکرنے کی کوشش کی۔ وہ بھی لیکن اب قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت سے نامعلوم وجوہات کی بنا پر گریز کررہے ہیں۔خواجہ سعد رفیق کے بعد شاہد خاقان عباسی اور رانا ثناء اللہ بھی جیل کی نذر ہوگئے۔1990سے خواجہ آصف کی گرجدار آواز ہرقومی اسمبلی میں چھائی رہی۔ وہ بھی ان دنوں مگر خاموش رہتے ہیں۔چند دن قبل فقط ایک تقریر فرمائی تھی جس کے ذریعے ہمیں ’’نئے انتخابات‘‘ کے لئے تیار کرنے کی کوشش ہوئی۔شنید اب مگر یہ ہے کہ ان کی گرفتاری کی تیاری ہے۔احسن اقبال کے بعدان کا ’’نمبرآیا‘‘ محسوس ہورہا ہے۔

سیاسی محاذ پر چھائی پژمردگی کے ہوتے ہوئے مجھے ’’2020تبدیلی کا سال ہے‘‘ والے دعوے بے بنیاد سنائی دیتے ہیں۔اس کا تذکرہ نجی محفلوں میں اپوزیشن کے سرکردہ رہ نمائوں سے کرتا ہوں تو وہ کمال اعتماد کے ساتھ میری ’’لاعلمی‘‘کا مذاق اُڑاتے محسوس ہوتے ہیں۔غالباََ انہیں یقین ہوچکا ہے کہ میرے اندر موجود رپورٹر واقعتا ریٹائرہوچکا ہے۔عمر بڑھنے کے ساتھ نازل ہوئی گوشہ نشینی نے ’’خبر‘‘ سونگھ لینے کی صلاحیت مجھ سے چھین لی ہے۔جن لوگوں سے گفتگو ہوتی ہے وہ اصرار کرتے ہیں کہ 2020کے مارچ/اپریل میں ’’کچھ نہ کچھ ہوکررہے گا‘‘میرا جھکی ذہن جب اس ضمن میں اپنی دانست میں ٹھوس سوالات اٹھاتا ہے تو مناسب جواب نہیں ملتے۔تحریک انصاف کے متحرک وزراء سے میری شناسائی نہیں۔عمران خان صاحب کے قریبی تصور ہوتے افراد کا اعتماد بھی حاصل نہیں۔’’آنکھ کے لحاظ‘‘میں ’’پرانے رشتوں‘‘ کا احترام کرتے فقط چند لوگ رہ گئے ہیں۔ان سے ملاقات ہوجائے تو مختلف واقعات بیان کرتے ہوئے مجھے یقین دلاتے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان صاحب گزشتہ دو مہینوں سے بے تحاشہ پراعتماد نظر آرہے ہیں۔کابینہ کے اجلاسوں اور مصاحبین کے ساتھ ملاقاتوں کے دوران پریشان نظر آنے کے بجائے ہنستے مسکراتے اور فقرے بازی میں مصروف رہتے ہیں۔ملکی سیاست پر کئی برسوں سے نگاہ رکھنے کی پیشہ وارانہ عادت کی بدولت مجھے ان مہربان دوستوں کے دعوے حیران کردیتے ہیں۔مجھے کامل یقین ہے کہ وہ میرے ساتھ جھوٹ نہیں بولتے۔ نجی گفتگو میں میرے ساتھ انہیں Posturingکی ضرورت نہیں۔وزیر اعظم کو ٹھوس وجوہات کی بنیاد پر لیکن میری ناقص رائے میں ان دنوں تھوڑا پریشان ہونا ضروری تھا۔ تقریباََ جامد ہوئی معیشت کے ساتھ خارجہ امور کے ضمن میں اہم ترین سوالات نمودار ہورہے ہیں۔دریں اثناء پارلیمان سے سپریم کورٹ کا تقاضہ یہ بھی ہے کہ ’’توسیع‘‘ کے ضمن میں مؤثر قانون سازی ہو۔اس ضمن میں آئینی ترمیم کے بجائے فقط Act of Parliamentہی درکار ہو تب بھی سینٹ میں اعدادوشمار کے حقائق کو نگاہ میں رکھتے ہوئے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کشادہ دلی والے مکالمے کی ضرورت ہے۔عمران حکومت اس پر آمادہ نظر نہیں آرہی۔مجھے خدشہ لاحق ہورہا ہے کہ اپنے منطقی ذہن میں مسلسل اُٹھتے سوالات کے مناسب جوابات نہ ملنے کی وجہ سے میں بالآخر’’ستاروں کی چال‘‘سمجھاتے نجومیوں کی گفتگو کو سنجیدگی سے لینا نہ شروع ہوجائوں۔