”فہیم اختر“عہدے حاضر کے ایک ایسی شخصیت کا نام ہے جنہوں نے اردو ادب کو نہ صرف ہندوستان میں بلکہ بیرون ممالک کے غوشے غوشے تک پہنچا یا ہے۔انہوں نے اردو ادب کے طالبعلم ہو نے کا حق بخوبی ادا کیا ہے۔آج فہیم اختر کا قیام لندن میں ہے۔تلاش معاش نے انہیں اپنوں سے دور دیارِ غیر میں لے گئے مگر ان کا دل آج بھی ہندوستان میں اور خاص کر کلکتہ میں بسا ہوا۔کلکتہ ان کی دل کی دھرکن ہے۔اور کیوں نہ ہو چونکہ ان کی پیدائش کلکتہ میں ہوئی اور یہیں کے گلیوں میں گزرے۔ابتدائی تعلیم بھی یہی سے حاصل کی۔اعلی تعلیم کے لئے ان کا داخلہ شہر کلکتہ کے ایک قدیم ادبی ادارہ ’مو لانہ آزاد کالج‘میں ہوا۔جہاں سے انہوں نے ۸۸۹۱ء میں بی۔اے (آنرس)کا امتحان اغراضی نمبروں سے پاس کیا اور پھر ۰۹۹۱ء میں ایم۔اے کی ڈگری حاصل کی۔
فہیم اختر دور طالبعلمی سے اردو ادب سے گہرا شغف رکھتا تھے۔’نیا افق‘کے نام سے ان کاایک مضمون آل انڈیا ریڈیو سے نشتر ہوا۔ جسے ساعین سے بے حد پزیرائی ملی۔فہیم اختر کی زندگی نے تب کروٹ لی اور انہیں کلکتہ کو خیر آباد کہہ کر لندن جان پڑا۔ان کی زندگی میں بہت سارے نسیب فرازآئے مگر ان کے حوصلے کو نہ دھگما سکے۔انہوں نے بیرون ملک میں رہ کر بھی ادب کی خدمت کی مسال کی لو اپنے اندر جلائے رکھی۔
لندن جا کر وہ سٹی یو نیوڑسیٹی،اوپن یو نیوڑسیٹی(لندن)کنگسٹن یو نیوڑسٹی (لندن)سے social work میں میں بعد از ٹرینینگ ڈگری حاسل کی اور بطور رجسٹر ڈ سو ئیل ورکر st.halier hospital سے وابسطہ ہیں۔
فہیم اختر کو تلاش معاش نے ایسے کام سے جوڑا جو انہیں لوگوں کے دکھ،احساس وجذبات کے اور قریب لے آیا۔چونکہ وہ خود ایک حساس ادیب کا دل رکھتے ہیں جسے وہ لوگوں کی درد بخوبی محسوس کر سکتے ہیں۔
فہیم اختر مشرق تہذیب کے علمبردارہیں مگر دور حاضر میں مغربی تہذیب میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔فہیم اختر ادب کی خدمت کر کے یہ ثابت کر چکے ہیں کہ ادب کی کوئی سر حد نہیں۔وہ کسی پابندی کو نہیں مانتا۔
فہیم اختر کالم نوش بھی ہے۔جن کے کالم نہ صرف ہندوستان بلکہ یورپ کے دیگر اخبارات میں اور آن لائن اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ان کے منتخب کالموں کا مجموعہ ”لندن کی ڈائری“ہے۔’ایک گریزا ں لمحہ ان کا اولین افسانوی مجموں ہے۔جسے قارین اور ناقدین نے بہت پسند کیا۔
”فہیم اختر حیات ق مقصد“کے نام سے ایک کتاب شائع ہو کر منظر عام پر آکر مقبول ہو چکی ہے۔
فہیم اختر کو ایک سماجی کارکن کہنا غلط نہ ہوگا۔وہ نہ صرف لندن میں بلکہ ہندوستان میں بھی اور خاص کر کلکتہ میں ادبی اور سماجی سر گرمیوں کامظاہرہ کر تے رہتے ہیں۔ فہیم اختر نے شہرِ کلکتہ اپنے والا ِمحترم کے نام سے ایک ادبی اور سماجی تنظیم کو قائم کیا جو ”صوفی جمیل اختر لٹرری سوسائٹی“کے نام سے مقبول ہو۔جو شہر اور شہر کے مضافاتی علا قوں کے نو جوانوں کو راہ ِ راست اور راہِ روزگار کی طرف گا مژن ہو نے میں میں تعاون کرتی ہے۔جسا کہ اوپر باتا یا جا چکا ہے کہ فہیم اختر نے ادب کو دنیا کے غوشے وشے تک پہنچانے میں اپنا کلیدی رول ادا کیا ہے اور اس سعی میں انہیں بیرونی ممالک کے سفر کر نے پرے۔جس میں ترکی ہا لینڈ،جر منی،مراقش وغیرہ شا مل ہیں۔جہان انہوں نے نہ صرف سیمینار میں مقالے پر ھے بلکہ ان سیمینار اور مقالوں کے زریعہ ہندوستان کا نام روشن کیا۔جس کے اعوض ان کو برطانیوی حکومت کی طرف سے ۱۱۰۲civic award for community contribution سے نوازہ گیا۔علاوہ ازیں ۲۱۰۲ء Asian who`s who magazine میں ان کا نام شامل کیا جو خود آپ میں کسی انعام سے کم ہیں۔
فہیم اختر جو مشرق تہذیب میں پلے برھے اور تعلیم حاصل کی۔یہاں کی تہذیبی،سماجی، ثقافتی زندگی سے بخوبی واقفیت رکھے ہیں اور لندن میں مقیم ہو نے کی وجہ سے مغربی تہذیب اور اور وہاں کی ثقافتی زندگی کے اثرات کو بھی جذب نہ کر رہے ہیں۔جس کا اثر ان کے افسانوں میں نمایاں نظر آتا ہے۔میں شمس الرحمان فاروقی صاحب سے اتفاق رکھتی ہو کہ فہیم اختر آجکل کے عام افسانہ نگار کی طرح ہیں بھی اور نہیں بھی۔ہیں اس لئے کیونکہ ان کے افسانوں میں افسانویت کے ہر ایک جز کو اجاگر کیا گیا ہیاور نہیں اس لئے کہ ان کے افسانوں میں نہ صرف مغرب بلکہ مشرق کے مسائل کو بھی آئینہ دیکھا گیا ہے۔جہاں ان کے افسانوں میں محبت کی چاشنی بھی ملتی ہے تو محبت کا بھر م بھی ملتا ہے۔درد کی کشک جو ولولہ جیسی کیفیات جا بہ جا پائی جا تی ہے۔جس کی ایک عموہ مثال افسانہ’پگھلتا جسم‘ہے۔
افسانہ ’رکشہ والا‘ میں افسانہ نگار نے غریبوں کی عربت اور مفلسوں کا المیہ بیان کیا ہے۔شہر کلکتہ میں ایک ایسا رکشہ چلا یا جاتاہے۔جیسے رکشہ والا اپنی ہاتھوں سے کھنچتے تھے اور سواری کو ان کی منزل تک پہنچاتے تھے۔مگر اب جس کے چلانے پر پابندی لگادی گئی ہے۔یہ رکشہ جو قدیم کلکتہ کی پہچان ہے اور بے شمار غریبوں کے واحد رزق کا زریعہ ہے۔مگر افسوس اب وہ بے سہارا ہیں۔اس افسانے میں منظر نگاری اور
حقیقت بیانی کے اعلی نمونے ملتے ہیں۔افسانہ ’ایک گریزاں لمحے‘اور ’سر کل لائن میں ایک خفیف محبت کی جھلک ملتی ہے۔افسانہ’خواب کا ایک انجانا رشتہ‘میں نادیہ کی کہانی،نادیہ کے کردار کو ایک ایسی خاتون کے روپ میں پیش کیا گیا ہے جس کا طلاق ہو جاتا ہے بعد اس کے کہ وہ ایک بے حد خوبصورت دوشیزہ تھی اوراس کی خوبصورتی نہ جانے کتنی آنکھوں کے تسکین کی وجہ بنتی۔پھر بھی نادیہ کا طلاق ہو جا تا ہے اور اسے سماج کی ایسی نگاہوں سے گزرنا پر تا تھا کہ جس سے کسی بھی عورت کو گزران نا قابلِ برداست ہوتا ہے۔ اس افسانے میں بھی افسانہ نگار نے سماج کی تلخ حقیقت کو اجاگر کر نے کی کوشش کی ہے
افسانہ ’گواہی‘ میں گومتی جو ایک غریب کی بیٹی ہوتی ہے اس کی شادی اور شوہر کے گم ہو جانے کا المیہ بعد میں خود اس کی ذات کا المیہ بن جاتا ہے۔ افسانہ گواہی میں بھی سماج کی تلخی کا ذائقہ ملتا ہے۔افسانہ ’ڈور بیل‘ کا احتتام افسانہ نگار نے حیرت انگیز مگر مزاحیہ انداز میں پیش کیا ہے۔افسانہ’بیٹوپاڑلر‘ میں افسانہ نگار نے طنز سے کام لیا ہے۔
فہیم اختر کے فسانے کے مصوعات بھی برے اچھوتے اور دلچشپ ہوتے ہیں جن پر نظر جاتے ہی مططالعے کی طرف دج راغب ہوتا ہے۔جیسے ان کے مضوعات میں ’کچھ تو لوگ کہیں گئے‘آلو یو‘پیاسیندی‘ ٹوٹے بندھن‘ ایک گریزاں لمحے‘ وندے ماترم‘ کالی پتلون‘کتے کی موت وغیرہ ہیں۔نہ صرف ان کے افسانے بلکہ ان کے کالموں کے مطالعہ سے ہمشہ کچھ نئی اور مطالعہ میں اضافہ کی باتیں معلوم پرتی ہے۔ فہیم اختر کے ایک اور افسانوی مجموی ”فہیم اختر کے افسانے ستمبر ۹۱۰۲ء میں منظر عام پر آچکی ہے۔جس میں ۴۲ افسانے ہے۔میں اختر صاحب کے لئے دعا ہوئے کہ زوق علم میں اللہ تعالی اور اضافہ کر یں تاکہ ان کی تخلیقات ہمیں ملتے رہیں اور طالبعلموں کی نسل نو فیضیاب ہو تے رہے۔
گلشن آرا
ریسرچ اسکالر ( کولکاتہ )