ماؤں کے نام پر جنگ میں ہتھیار نہیں ڈالے جاتے
اسلام آباد کی شام آہستگی سے رات میں ڈھل رہی تھی۔ آتش دان سے آتی حرارت کی لہریں محبت کی سرگوشی کی طرح نظر آئے بغیر کمرے کی دیواروں سے لپٹ رہی تھیں۔
تین دوست دن بھر کی مشقت کو ملاقات کی سرخوشی میں بھگو رہے تھے۔ بہت برس گزرے، ان تینوں نے معمولی وقفے سے ایک ساتھ جیون کے منہ زور دھارے میں اپنی اپنی ناؤ ڈالی تھی۔ ایک نے قانون کی دنیا میں کامرانی کے جھنڈے گاڑے۔ سرکار دربار میں رسائی پائی۔
کاغذ کے ٹکڑے پر چند حرفوں سے وہ فیصلے لکھنا سیکھے جن کا ارتعاش 22کروڑ کے سامنے رکھی چاول کی پلیٹ اور شوربے کی پیالی تک پہنچتا ہے۔ دوسرے نے بچوں کے لیے سوچنے، سمجھنے اور سمجھانے کا بیڑا اٹھایا۔ اپنے گھر میں دو کھلونے موجود تھے۔
ان کی محبت میں دنیا بھر کے بچوں کی محبت شامل کر دی۔ ماہ و سال کی گردش میں معنی ملا دینے سے وہ راحت بھی نصیب ہوئی جسے دنیاوی آسودگی کہتے ہیں۔ تیسرے دوست نے شوریدہ طبع پائی تھی۔ پراگندہ رہا اور درماندہ ہو گیا۔
اسکاٹ فٹز جیرالڈ کی کہانی Winter Dreamsتو آپ نے ضرور پڑھی ہو گی۔ مرحوم سیّد قاسم محمود نے ’سرمائی خواب‘ کے عنوان سے اس کہانی کا اردو ترجمہ کیا تھا۔ جیسی خوبصورت کہانی ہے، ترجمہ اس سے بھی بہتر تھا۔ ’آٹھ گز ڈوری‘ کے نام سے امریکی کہانیوں کے ایک مختصر سے مجموعے میں چالیس برس پہلے پڑھا تھا۔
یہ کتاب 1993ء کی خانہ بدوشی میں مجھ سے کھو گئی۔ آج تک ملال باقی ہے۔ تس پر دوست کتاب دینے میں خست کا طعنہ دیتے ہیں۔ مجھے مرنے سے پہلے قاسم محمود کے ترجمے میں اس کہانی کا آخری پیراگراف پڑھنا تھا۔ اب کہاں سے ڈھونڈوں۔ 22کروڑ کے ملک میں ایک ہزار کا ایڈیشن چھپتا ہے۔ جو کتاب چھپتی ہے، نایاب ہو جاتی ہے۔
لائبریریاں نہیں ہیں۔ ذاتی تعلقات سے کتاب ڈھونڈنا پڑتی ہے۔ چھوڑیے، اس کہانی کا اصل انگریزی متن آپ انٹرنیٹ پر پڑھ سکتے ہیں اور اس کیفیت کو سمجھ سکتے ہیں جو اسلام آباد کی اس نشست میں طاری ہوئی۔ جس ملک میں ہزاروں صحافیوں کی ماہانہ تنخواہ بیس پچیس ہزار روپے سے زیادہ نہیں اور مہینوں کا حساب چڑھا ہوا ہے، وہاں تین دوستوں کے سامنے تیس چالیس ہزار روپے مالیت کا خور و نوش چُنا ہوا تھا۔
باہر کہرا گر رہا تھا اور کمرے میں بھرے پیٹ کی چونچالی کا راج تھا۔ ہم پاکستانی لوگ بہت اچھے ہیں۔ تن کی آسودگی مل جائے تو بحث مباحثے کی تفریح میں پناہ لیتے ہیں، امریکہ سے پڑھ کر امریکہ پر تنقید کرنا سیکھ لیتے ہیں۔ بھارت میں مسلمانوں کی زبوں حالی پر ہمیں بہت دکھ ہوتا ہے۔ سیاستدانوں کی کرپشن اور نااہلی پر ماتم ہمیں مرغوب ٹھہرتا ہے۔
رانا ثناء اللہ کی گردن ناپنے میں ہم دیر نہیں کرتے کیونکہ جب چھ مہینے وہ ننگے اور ٹھنڈے فرش پر سو رہا تھا، ہمیں اخبار اٹھانے کے لیے دروازے تک جانا بھی دوبھر تھا۔ ہم ایک دوسرے کو بتاتے ہیں کہ فلاں صاحب کی باری آنے دیں۔ ان میں بڑا وژن پایا جاتا ہے۔
استغفراللہ! صدیوں پہلے ہمارے پُرکھوں کا یہی چلن تھا۔ اچھے بادشاہ کی آس میں موجودہ بادشاہ کے مرنے کا انتظار کیا کرتے تھے۔ آزادی اس لیے مانگی تھی کہ کسی کے آنے اور جانے سے امید باندھنے کے بجائے کاغذ کے ووٹ سے اپنا نصیب طے کیا کریں گے۔ آزادی مل گئی، ووٹ کھو گیا۔
مانگتے ہیں تو ففتھ جنریشن وار فیئر کی تہمت ملتی ہے۔ ہاں بھائی، پانچویں پشت ہے شبیر کی مداحی میں۔ پانچویں کالم کی اس روسیاہی میں ہمارا دکھ مختار صدیقی نے بیان کیا تھا۔ آج کی بات نہیں، ان حالوں ہم کو برسوں گزرے ہیں۔
اسلام آباد کی اس ملاقات میں محفل کا رنگ جم گیا، تکلف کا پردہ اٹھ گیا۔ پرانی دوستی کے طفیل اقتدار اور عوام آمنے سامنے تھے۔ عوام کا لہجہ تیکھا ہوتا گیا۔ اقتدار نے خبر اور نظر تک رسائی کی اوٹ لے کر عوام کو دبانا چاہا، اس پر تیسرے درویش نے سر اٹھا کر کہا۔
ہم تینوں کی مائیں غریب تھیں۔ ہماری ماؤں نے شفقت کی چادر میں ہمارے افلاس کو پناہ دی۔ ماں بچوں کا پیٹ بھرنے کی امید پر خود سب سے آخر میں کھانا کھاتی تھی۔ اپنے منہ کا نوالہ بچوں کو کھلانا، ہمارے لیے کتابی محاورہ نہیں، ہماری ماؤں نے ہمیں اسی طور پالا تھا۔
1985ء میں درویش نے عیدالفطر ملکوال میں منائی۔ چاند رات کو قصبے کے چھوٹے سے بازار میں ایک برقع پوش ماں کو دیکھا جو اپنے بیٹے کے لیے پلاسٹک کی جوتی خرید رہی تھی۔ پانچ یا شاید چھ روپے کی اس بےوقعت جوتی کو پہنتے ہوئے اس بچے کی آنکھوں میں جو خوشی اتری، وہ خوشی اس ملک کے سب بچوں کے لیے مانگنا جرم نہیں۔ تب ہمارے ملک کی کل آبادی نو کروڑ تھی۔ آج اس ملک میں نو کروڑ بچے ہیں۔
ان میں سے ڈھائی کروڑ کو اسکول کا دروازہ میسر نہیں ہے۔ ہماری ماؤں نے پانچ روپے کے بستے اور دس پیسے کی ماہانہ فیس والے اسکول میں پڑھا کر ہمیں ایک امانت سونپی تھی۔ جمہوریت اس لیے نہیں مانگتے کہ فلاں چوہدری، فلاں سردار اور فلاں وڈیرا ایم این اے بن جائے گا۔
جمہوریت اس لیے مانگتے ہیں کہ ہمارے بچے چائے خانوں اور پنکچر لگانے کی دکانوں پر غربت بیچنے کے بجائے کتاب اور قلم سے کھیلنا سیکھ سکیں۔ جنوری 2014ء میں بھائی اصغر ندیم سیّد کو گولی لگی تو ایک سر کشیدہ بیٹے کو ماں نے گوجرانوالہ سے اپنا خیال رکھنے کا پیغام بھیجا۔
مائیں بیٹوں کے لیے ایک مسلسل دعا کا نام ہیں۔ بیٹے نے کہا اماں، میں کچھ غلط نہیں کر رہا۔ ہم پر ایک ایسی لڑائی تھونپ دی گئی ہے کہ ہتھیار ڈالنے کی گنجائش نہیں۔ ہم ہتھیار ڈال بھی دیں تو تحفظ کی ضمانت نہیں۔ ہم نے ستر ہزار جانیں دے کر وہ لڑائی جیت لی۔
وہ لڑائی ایک بڑی جنگ کا حصہ تھی۔ بچوں کے لیے کتاب، جوانوں کے لیے روزگار اور بزرگوں کے لیے احترام کی جنگ ہماری غریب ماؤں کی امانت ہے۔ اس جنگ کی میعاد متعین نہیں ہوتی۔
سانس میں توسیع نہیں مانگی جاتی۔ ماؤں کے نام پر لڑی جانے والی جنگ میں ہتھیار نہیں ڈالے جاتے۔