کالم

ایک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا!

Share

ہندوستان کے سفر کا کوئی نہ کوئی بہانہ نکل ہی آتا ہے۔کبھی گھر والوں کی یاد، تو کبھی دوستوں سے ملنے کا تجسس، تو کبھی اردو کانفرنس اور کبھی بذاتِ خود ہندوستان گھومنے کا شوق۔ گویا اسی بہانے ہم ہر سال ہندوستان چلے جاتے ہیں۔ ہندوستان کی ثقافت، زبان، پکوان، سیاسی اتھل پتھل اور کرکٹ کے کھیل کی تو ساری دنیا دیوانی ہے۔ بھلا میں کہاں ان چیزوں سے غافل رہتا۔ بچپن سے جوانی تک تو ہندوستان میں ہی گزارے اسی لیے چھبیس سال قبل لندن آنے کے باوجود ان باتوں کو اب تک نہ بھلا پایا، نہ دل سے نکال سکا۔
مغربی ممالک میں رہنے والے لوگ ہندوستان جاکر کھانے پینے میں احتیاط نہ کرے تو بس اس کا اللہ ہی حافظ ہوتا ہے۔ کمبخت مغربی ممالک گویا سب کچھ بدل دیتا ہے۔ اگر آپ ایک عرصے تک مغربی مالک میں رہائش پزیر رہیں تو آپ کی زندگی کے تمام اصول یہیں کے مطابق ہوجاتے ہیں، خواہ وہ کھانا پینا ہو یا سونا جاگنا، آب و ہواہو یا قوت مدافعت،اس کے خلاف معمول ذرا سی کوئی بات ہوئی اور آپ کی جان تک خطرے میں پڑسکتی ہے۔اس کا تجربہ خودمجھے کئی بار ہواہے اور سچ پوچھیے تو اللہ کو حاضر ناظر جان کر توبہ کیا کہ آئندہ ایسی غذا نہ کھاؤں گا یا آئندہ ایسی جگہ قیام نہیں کروں گا۔تاہم ہندوستانی مہمان نوازی اور محبت کے آگے کس کا زور چلتا ہے۔ یا تو آپ سر خم کر کے قبول کریں یا پھر ان کے انداز میں طنز کے شکار ہوں۔ پھر بھی ہم بحالتِ مجبوری اپنی تمام عادتوں اور مغربی اقدار کو بالائے طاق رکھ کر یہ کہتے ہوئے ہر بات کو قبول کر لیتے ہیں کہ:اٹھ باندھ کمر کیوں ڈرتا ہے۔ پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے۔
صرف قوت مدافعت ہی ایک ایسی چیز بچ جاتی ہے جس سے سمجھوتہ کرنا گویا جوئے شیر لانے کے برابر ہوتا ہے۔ پھر بھی ہم سمجھوتہ کرتے ہیں اور جناب ہفتوں بسترِ علالت پر دراز ہوکر مہمان نوازی اور اس جان لیوا محبت کو کوستے رہتے ہیں جس کی وجہ سے اچھا بھلا بندہ مریض ہوجاتا ہے۔ ان تمام باتوں کے علاوہ ایک بات پھر بھی ذہن سے نہیں نکلتی وہ ہندوستانی ذائقہ دار پکوان ہے۔ جو انسانی روح کو تو خوشی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ جسم کے اندر ایک خلفشار سا پیدا کر دیتا ہے۔ اور یہی قوت مدافعت اس ہٹ دھرم، ضدی اور ظالم حکمراں کی طرح جسم کے اندر جنگ کے لیے آمادہ ہو کر ہماری تمام عیش و آرام اور لذت پر پل بھر میں پانی پھیر دیتا ہے۔خیر ان باتوں کے باوجود ہم ہندوستانی ثقافت، پکوان اور اس کی کشش کے تا عمر غلام رہیں گے۔
حال ہی میں ہندوستان جانے کا ایک بار پھر موقعہ فراہم ہوا۔ بس ٹکٹ بُک کروایا اور پہنچ گئے۔دراصل ہندوستان جانا اس لیے ضروری تھا کہ اس بار اردو ادب کی کانفرنس کے لیے بلایا گیا تھا۔ ہر بار کی طرح ہندوستان پہنچتے ہی تمام اصول اور ضابطے کو بالائے طاق رکھ کر مہمان نوازی کا بھر پور لطف لینا شروع کر دیا۔ صاحبِ مکان جو کہ ایک یونورسیٹی کے پروفیسر ہیں جن کی بے پناہ محبت اور بھائی چارگی نے مجھے اس پر مجبور کر دیا کہ اس سفر میں ہم جتنے دن بھی ہندوستان میں رہیں گے ان کے ہی دولت کدے پر ہماری رہائش ہوگی۔
سچ پوچھیے توعموماً کسی کے گھر پر رکنا بہت اچھا لگتا ہے لیکن وہیں گھر پر بطور مہمان ٹھہرنا ایک نئی مصیبت بھی بن جاتی ہے۔ مثلاً باتھ روم کے استعمال سے پہلے اعلان کروانا۔ پھر ہندوستانی ٹوائلیٹ کو استعمال کرنے کی پریشانی وغیرہ ایسی باتیں ہوتی ہیں جس کی شکایت کرنا تو دور استعمال کرنا بھی ناگزیر ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ جب تک آپ گھر پر رہیں گے آپ کو چاروں وقت ڈنر کھانے پڑیں گے۔
پھر بھی پروفیسر صاحب کی محبت اور پیار نے مجھے اس بات پر مجبور کر ہی دیا کہ اس سفر میں ان کے ہی گھر قیام کروں۔ اس طرح خوشی خوشی ہم نے ایک بار پھر تمام مغربی ہتھ کنڈے کو بالائے طاق رکھ کر ایک نئی منزل اور تجربے کے لیے کمر بستہ ہو گئے۔ تاہم سفر سے قبل ہم نے پروفیسر صاحب کو اپنی رہائش کے کچھ لازمی شرائط کے بارے میں اطلاع دے دیا تھا۔ جس پر پروفیسر صاحب نے ہمیں اس بات کا دلاسہ اور بھروسہ دلایا تھا کہ آپ تشریف لائیں، مایوسی کا شائبہ تک نظر نہیں آئے گا۔
اس بھروسے کا یقین کرتے ہوئے آخر ان کے مکان پہنچ گئے۔ گھر واقعی ایک کھلے اورپر سکون احاطے میں تھا جس سے دل باغ باغ ہوگیا۔ سامان لے کر کچھ زینوں کو طے کرتے ہوئے جب ہم دروازے سے اندر داخل ہوئے تو طبعیت خوش ہوگئی کہ مکان واقعی میرے حساب سے قابل رشک تھا۔ برآمدے میں جھولے والی کرسی اور باہر ہرے بھرے درختوں کو دیکھ کر طبعیت کو تازی تازی ہواؤں کا احساس ہونے لگا۔ پروفیسر صاحب کا پیچھا کرتے ہوئے کمرے کے اندر پہنچ گئے جو کافی کشادہ اور آرائش کے تمام ساز وسامان سے لیس تھا۔ پروفیسر صاحب مجھے کمرے میں اکیلا چھوڑ کر اپنی بیگم سے کچھ بات کرنے چلے گئے اور میں خوشی خوشی سوٹ کیس سے اپنے سامان کو نکالنے لگا۔ تبھی باتھ روم جانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ پروفیسر صاحب نے کچھ کہا تو تھا لیکن ذہن سفر کی تھکان اور ہندوستان پہنچنے کی خوشی سے مدہوش تھا اس لیے بہت ساری باتیں سن کر بھی یاد نہیں رہا کہ جانا کدھر ہے۔
سوٹ کیس چھوڑ کر جب کمرے کا بغور جائزہ لیا تو میری آنکھیں پھٹی رہ گئیں۔ کیونکہ کمرے میں ’دو دروازے‘ تھے۔ میں یہ کیا دیکھ رہا ہوں۔ اب تو جناب میری حاجت میں کچھ تناؤ سا پیدا ہونے لگا۔یہ دوسرے دروازے کا کیا ماجرا ہے۔ ہمت کرکے دوسرے دروازے کو کھولا۔ دروازہ کھلا تو دور سے دوسرا کشادہ کمرہ نظر آیا۔ ڈر تے ہوئے اندر جھانکا تو خوشی کا ٹھکانا نہیں رہا کیوں کہ وہ اس وقت کی سخت ضرورت یعنی ٹوائلیٹ نکلا۔ کچھ پل کے لیے خوشی کے ساتھ اس بات کا بھی احسا س ہوا کہ چلو کمرے کے ساتھ ہی باتھ روم منسلک ہے جو کہ ایک اچھی بات ہے۔ اسے انگریزی میں (en suit)اَن سوئیٹ بھی کہتے ہیں۔ دل سے پروفیسر صاحب کے لیے دعا نکلی اور خوشی بھی ہوئی کہ حضرت کا مکان واقعی اعلیٰ اور آرام دہ ہے۔ لیکن یہ کیا ٹوائلیٹ میں داخل ہوتے ہی اس میں بھی دو دروازے؟ میری تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اب جناب سب سے پہلے تو ہم نے دونوں دروازوں کو اندر سے بند کر کے چیک کیا کہ دونوں دروازے بند ہوتے بھی ہی ہیں یا ایک دروازے کی چھٹکنی کام ہی نہیں کرتی ہے؟بس جناب اب تو ہماری حالت کا نہ پوچھیے۔ یوں لگ رہا تھا کہ ہم کس بھول بھلیا میں آگئے ہیں۔ ٹوائلیٹ کی حاجت اور دو دروازے کے معمہ نے ذہن کو منتشر کر دیا۔ کسی طرح تمام کام نبٹا کر واپس کمرے میں آیا لیکن ذہن کمبخت دو دروازے میں الجھا ہوا تھا۔
تھوڑی دیر بعد پروفیسر صاحب نے آواز دی اور کہا کہ بھائی ناشتہ تیار ہے۔ میں بھی ہندوستانی ناشتے کو چکھنے کے لیے بیقرار تھا۔ جلدی جلدی تیار ہوا اور دالان سے گزر کر ڈائیننگ ہال پہنچ گیا۔ لیجئے حضور یہاں بھی دو دروازے! کیا بتائیں کہ دو دروازے کس طرح مجھے خوف زدہ کر رہے تھے۔ ایک دروازے سے پروفیسر صاحب کی بیگم کھانا پیش کرتی تو دوسرے دروازے سے پروفیسر صاحب کچھ لانے چلے جاتے۔ گویا گردن دونوں طرف گھما گھما کر تو عاجز تھا ہی کمبخت دو دروازے ذہن میں الجھن پیدا کر رہے تھے وہ الگ۔
ناشتہ ختم کر کے پروفیسر صاحب نے ڈرائنگ روم میں چلنے کی درخواست کی۔ ڈرائنگ روم تک جانے کے درمیان ایک اور کمرہ ملا اس میں بھی دو دروازے۔ میرا ذہن ان دو دروازوں میں الجھا ہوا تھا۔ اس گتھی کو سلجھانے کی فکر میں غرق ڈرائنگ روم میں پہنچ گیا۔ ڈرائنگ روم میں ابھی ٹھیک سے بیٹھ بھی نہ سکا تھا کہ میری نظر دروازوں کی گنتی کرنے لگی۔ لیجیے، ڈرائنگ روم میں چار دروازے! اللہ کی پناہ۔ اب یہ سمجھنا دشوار ہو رہا تھا کہ اس مکان میں رازداری یا تنہائی کیسے اور کہاں ملے گی۔ رات کو سوتے وقت بھی ایسی ہی کیفیت رہی۔ ایسا بار بار محسوس ہورہا تھا کہ خدا جانے کس دروازے سے کون آجائے۔
خیر کسی طرح ہم نے چند روز پروفیسر صاحب کے بھول بھلیا والے مکان میں تناؤ اور پریشانی میں گزارااور اپنا سامان باندھ کر ان کا تہہ دل سے شکریہ اداکیا۔ خدا کا شکر تھا کہ پروفیسر صاحب کے مکان میں داخل اور باہر جانے کے لیے ایک ہی دروازہ تھا۔ اس دروازے سے باہر آتے ہوئے دل میں بار بار یہی خیال آیا کہ پروفیسر صاحب کے کمروں میں دو دروازے ضرور تھے لیکن پروفیسر صاحب اور ان کی بیگم کا اخلاق، مہمان نوازی اور خلوص ایک جیسا تھا۔ایسا لگتا تھا کہ ان کے مکان کی مانند ان کے دل میں بھی بے شمار دروازے ہیں اور ان میں سے ہر دروازے سے بے پناہ خلوص اور محبت داخل ہوتے ہیں اور اسے وہ صرف ایک دروازے سے مہمانوں کے دلوں میں داخل کرکے بند کردیتے ہیں جو ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجاتا ہے۔ ان کے پچیس دروازے کے مکان اور ان کے دلوں کے مانند اللہ سب کے دلوں کو کشادہ کردے جو دوسروں کی خوشی میں اپنی خوشی محسوس کریں اور اپنے مفاد کو پورا کرنے کے لیے دوسروں کو نقصان پہنچانے سے پرہیز کریں۔آج بھی پروفیسر صاحب کے دلوں کا حال تو سمجھ میں آگیا لیکن ان کے مکان کے دروازوں کا معمہ سمجھ میں نہیں آیا۔
ایک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا