انور بیگ صاحب اپنے ’’جگر‘‘ ہیں۔ پیپلز پارٹی کی محبت میں کراچی چھوڑ کر اسلام آباد منتقل ہوگئے۔ جنرل مشرف کے دور میں اپنے گھر کو اس شہر میں مقیم صحافیوں اور سفارت کاروں کے لئے ایک ہمہ وقت ’’اوپن ہائوس‘‘ بنادیا۔ سینیٹر منتخب ہوئے تو مزید متحرک ہوگئے۔ محترمہ کی شہادت کے بعد مگر آصف علی زرداری نے ان کی قدر نہ کی۔ان دنوں اسلام آباد کے مضافات میں مری کی جانب جاتی شاہراہ پر بنائے ایک بہت ہی کشادہ ہائوس میں رہتے ہیں۔مہمان نوازی کی عادت کسی غرض کے بغیر جاری رکھی ہوئی ہے۔
پیر کی شام انہوں نے امریکی سفارت کار ایلس ویلز کے لئے ایک پُرتکلف عشائیہ کا اہتمام کررکھا تھا۔ ان کی دعوت قبول نہ کرنے کی مجھ میں ہمت نہیں۔ہم دونوں کا تعلق میرے شہر کے ایک بہت ہی محترم اور زندگی سے بھرپور صحافی عبداللہ ملک مرحوم کی وجہ سے بھی بہت گہرا ہے۔تقریباََ ان کے گھر کا رکن ہوچکا ہوں۔
پیر کی شب مگر ان کے ہاں حاضر نہ ہوپایا۔سینٹ کا اس روز سہ پہر میں اجلاس تھا۔اس کے بارے میں The Nationکے لئے کالم لکھ کر شام نو بجے کے قریب فارغ ہوا۔’’بندئہ مزدور‘‘ اس کے بعد گاڑی چلاکر بیگ صاحب کے ہاں جانے کے قابل ہی نہیں رہا تھا۔
میرا اس دعوت میں شریک ہونا مگر اس لئے بھی ضروری تھا کہ پیر کی صبح اُٹھتے ہی میں نے جو کالم لکھا اس میں کافی اعتماد سے دعویٰ کیا تھا کہ ایلس ویلز کے قیامِ پاکستان کے دوران امریکی صدر کے ممکنہ دورئہ پاکستان کی تفصیلات بھی طے ہونا ہیں۔بیگ صاحب کے ہاں چلاجاتا تو میرے دعویٰ کی تصدیق یا تردید بھی میسر ہوجاتی۔
یہ بات تو طے ہے کہ فروری کے کسی دن امریکی صدر کو بھارت ہر صورت جانا ہے۔اتوار کی شب مگر بھارت کے ایک ویب اخبار The Printنے یہ ’’خبر‘‘چھوڑی کہ فروری کا انتظار کرنے کے بجائے صدر ٹرمپ جنوری کے آخری ایام ہی میں دلّی آنا چاہتا ہے۔The Printنے جو ’’خبر‘‘ دی ہے اس کی بھارتی اور امریکی حکام کی جانب سے واضح تصدیق یا تردید یہ کالم لکھنے تک نہیں ہوئی۔دانستہ دکھائی دیتی خاموشی کو ترجیح دی جارہی ہے۔جبلی طورپر اگرچہ میں یہ محسوس کررہا ہوں کہ ٹرمپ کی فروری کے بجائے جنوری کے آخری دنوں میں بھارت آمد کے امکانات توانا تر ہیں۔واشنگٹن کے چند صحافی جو وائٹ ہائوس کے معمولات رپورٹ کرتے ہیں اور اکثر اس جہاز میں بھی سفر کرتے ہیں جو امریکی صدر بیرونی دوروں کے لئے استعمال کرتے ہیں اس ’’خبر‘‘ کی اگرچہ تصدیق نہیں کررہے۔ انہیں گماں ہے کہ ٹرمپ غالباََ فروری کے وسط ہی میں بھارت جائے گا۔
ٹرمپ کی جنوری کے آخری یا فروری کے ابتدائی ایام میں فقط بھارت ہی نہیں پاکستان اور افغانستان آمد کے امکانات زیادہ روشن ذاتی طورپر مجھے افغانستان کی وجہ سے نظر آئے تھے۔ دوحہ میں کئی مہینوں سے زلمے خلیل زاد کے توسط سے طالبان کے ساتھ جو مذاکرات ہورہے تھے وہ بالآخر بارآور ثابت ہوتے نظر آرہے ہیں۔شنید ہے کہ امریکہ اور طالبان کے مابین ’’صلح نامہ‘‘ دکھتا ایک معاہدہ تیار ہوچکا ہے۔اس پر فقط دستخط ہونا ہیں۔بھارت کے ساتھ امریکہ کا ایک ’’تجارتی معاہدہ‘‘ بھی دستخطوں کے لئے تیار ہوچکا ہے۔مجھے گماں تھا کہ اپنے دورہ جنوبی ایشیاء کے دوران ٹرمپ ایک نہیں دو اہم معاہدوں کی تکمیل کا کریڈٹ لینے کی کوشش کرے گا۔
امریکی عوام کو یہ بتائے گا کہ اس نے اپنے انتخابی وعدے کے مطابق افغانستان سے امریکی افواج کی ’’باعزت‘‘ واپسی کا بندوبست کرلیا ہے۔بھارت کی وسیع تر منڈی کو امریکی مصنوعات کی برآمد کے لئے بھی کھلوالیا ہے۔بھارت اور افغانستان کا سفر کرتے ہوئے مگر وہ پاکستان کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔طالبان کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات پر رضامند کرنے کے لئے پاکستان نے کلیدی کردار ادا کیا۔ہمارا اس ضمن میں شکریہ اس لئے بھی واجب ہے کیونکہ طالبان کے ساتھ ہوئے ممکنہ معاہدے پر کامل عملدرآمد کے لئے آئندہ کئی مہینوں میں کئی ’’سخت‘‘ مقام آنا ہیں۔پاکستان کو On Boardلئے بغیر ان مسائل سے بخیروخوبی نبردآزما ہونا ممکن نہیں۔
ایک عام پاکستانی ہوتے ہوئے میری خواہش فقط اتنی ہے کہ پاکستان افغانستان میں امریکی مشکلات کے ازالے کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کے عوض امریکہ سے محض شکر گزاری کے الفاظ ہی وصول نہ کرے۔ واشنگٹن کے ساتھ ہمارا بہت عرصے کے بعد نسبتاََ ’’دوستانہ‘‘ ہوتا تعلق پاکستان کی معیشت کے احیاء اور استحکام کے عمل میں چند ٹھوس صورتوں کے ساتھ حصہ ڈالتا بھی نظر آئے۔
امریکی صدر جنوری کے اواخر یا فروری کے کسی دن خواہ چند گھنٹوں کے لئے ہی سہی پاکستان آئے گا یا نہیں اس سوال کا جواب میں اسی خواہش کی شدت کی وجہ سے تلاش کررہا ہوں۔ واشنگٹن میں وائٹ ہائوس کے معمولات کے بارے میں رپورٹنگ پرمامور صحافیوں کے توسط سے ابھی تک اس ضمن میں کوئی ٹھوس اطلاع نہیں ملی۔
میرے چند باخبر دوست جن کے ’’ذرائع‘‘ عموماََ مستند ثابت ہوئے لیکن منگل کی صبح چھپے کالم کو پڑھنے کے بعد مجھے یہ سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ طالبان اور امریکہ کے مابین معاہدہ تقریباََ طے پاچکا ہے۔اس کی چند اہم ترین جزئیات کے بارے میں لیکن اشرف غنی کی حکومت مطمئن نہیں۔طالبان امریکہ سے معاہدے کے بعد فقط دس دنوں کے لئے ’’مکمل جنگ بندی‘‘ کو آمادہ ہیں۔اشرف غنی کی حکومت سے بات چیت کے آغاز پر بھی رضا مند ہوچکے ہیں۔مکمل جنگ بندی یا سیز فائر کا اعلان کرنے کو لیکن اب بھی تیار نہیں۔وہ محض Reduction of Violenceیعنی جنگ -جسے وہ ’’مزاحمت‘‘ تصور کرتے ہیں-کی شدت میں تھوڑی نرمی لانے کوتیار ہیں۔
سفارتی اعتبار سے سیز فائر کے بجائے Reduction of Violenceکی اصطلاح کافی مبہم تصور ہورہی ہے۔اسے تسلیم کرنا امریکی انتظامیہ کے چند اہم افراد اور اشرف غنی کے وفادار مصاحبین کے لئے بہت دشوار ہورہا ہے۔افغان عوام کی بے پناہ اکثریت بھی اس اصطلاح سے ہرگز مطمئن نہیں۔ان کی دانست میں اس اصطلاح کو مانتے ہوئے ٹرمپ انتظامیہ طالبان کو ان کی منشاء کے مطابق جب چاہے تشدد کا کوئی بڑا قدم اٹھانے کا موقعہ ہی نہیں تحریری جواز بھی فراہم کردے گی۔ امریکی افواج کی افغانستان سے ’’باعزت‘‘ واپسی شاید ممکنہ معاہدے کی بدولت یقینی ہوجائے۔افغانستان کے شہریوں کو مگر اس کے باوجود دائمی امن نصیب نہیں ہوگا۔ امریکی افواج کی ’’باعزت‘‘ واپسی کے باوجود افغانستان میں خانہ جنگی بلکہ 1990کی دہائی سے بھی زیادہ خوفناک صورت اختیار کرسکتی ہے۔
باخبر دوستوں نے مجھے ’’اطلاع‘‘ یہ بھی دی ہے کہ طالبان امریکہ کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرنے کے لئے افغانستان جانے پر رضامند نہیں ہیں۔ان کا خیال ہے کہ ٹرمپ کی موجودگی میں اشرف غنی کے ہمراہ معاہدے پردستخط کرتے ہوئے وہ موجودہ افغان حکومت کو ’’تسلیم‘‘ کرنے کا عندیہ دیتے نظر آئیں گے۔ طالبان کی خواہش ہے کہ وہ امریکہ کیساتھ ایک طاقت ور ’’فریق‘‘ کی صورت کسی ’’نیوٹرل‘‘ مقام پر ’’صلح نامہ‘‘ دکھتے معاہدے پر دستخط کریں۔
اس حوالے سے قطر کی بھی شدید خواہش ہے کہ طالبان اور امریکہ کے مابین ممکنہ معاہدے پر دستخط دوحہ میں ہوں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے گزشتہ کئی مہینوں سے قطر کا بائیکاٹ کررکھا ہے۔ قطر کا یہ خیال ہے کہ اس نے کئی برس قبل اپنی سرزمین کو طالبان اور امریکہ کے مابین رابطے کے لئے کھولا تھا۔ اب اس کا یہ ’’حق‘‘ ہے کہ قطر ہی کی سرزمین پر طالبان اور امریکہ کے مابین ’’صلح نامہ‘‘ دکھتے معاہدے پر دستخط ہوں۔ قطر اس کی وجہ سے بین الاقوامی سیاست کے حوالے سے ایک اہم ترین کردار نظر آئے۔ اس کا عالمی برادری میں ’’وقار‘‘ بلند ہو۔
مذکورہ بالا جزئیات کے ضمن میں اُبھرے نئے قضیوں کی وجہ سے ٹرمپ کا جنوری کے آخری ایام میں پاکستان یا افغانستان آنا مؤخر بھی ہوسکتا ہے۔یہ امکان بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اپنی ’’اوتاولی‘‘طبیعت کے عین مطابق ڈونلڈٹرمپ بالآخر پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق فروری کے دوسرے ہفتے میں صرف بھارت کے دورے پر ہی روانہ ہوجائے۔