آٹے کا بحران پیدا ہو گیا ہے، ہیڈ لائنیں کہتی ہیں چینی مہنگی ہوتی جا رہی ہے۔ جس حکومت نے پہلے گندم کی برآمد کی اجازت دی وہ اب درآمد کرنے کا فیصلہ کر رہی ہے، یعنی پہلے بھی سخی لوگوں نے مال کمایا ہو گا اب پھر ایک اور واردات ڈالنے جا رہے ہیں۔ ہماری مملکت میں یہ معمول کی باتیں ہیں۔ کوئی نہ کوئی بسوڑی ہمیشہ رہتی ہے۔ ایسا کبھی ہوا ہی نہیں کہ راوی چین کی باتیں لکھے۔ تو پھر ان باتوں پہ سر پیٹنے کا فائدہ کیا۔
ہمارے جیسے تبصروں سے مسائل کا حل ہونا ہوتا تو کب کے مسائل ختم ہو چکے ہوتے لیکن مسائل کا کام ہے مسائل بننا اور چونکہ ہمارا یہ پیشہ ہے، یعنی یہی مزدوری ہے، کہ کچھ نہ کچھ لکھا جائے تو یہ نشتر چلا دیتے ہیں۔ ہونا ہوانا کچھ نہیں ہوتا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ نشتر تیز ہو تو وَقتی اُبھار بن جاتا ہے۔ آج کل چونکہ میڈیا کا نیا زمانہ ہے اور ٹی وی چینل سارا دن چلتے ہیں تو کوئی نہ کوئی چیز وَقتی شور پیدا کرنے کا سبب بن جاتی ہے۔ لیکن پھر جب وَقتی اُبھار گزر جاتا ہے تو حالات نارمل پہ آ جاتے ہیں۔
ہماری عمر ویسے بھی اَب تھوڑی بزرگانہ ہو چلی ہے۔ ایک زمانے میں جو اُلجھنیں دل میں ہیجان پیدا کرتی تھیں‘ اب اُن کا وہ اثر نہیں رہا۔ آٹا بحران کو ہی لے لیجیے، چند سال پہلے کی بات ہوتی جب اتنی بزرگی نہیں آئی تھی تو پتہ نہیں اِس پہ کون سے غصے بھرے تبصرے داغ دیتے۔ اب طبیعت نرمی کی طرف مائل ہوتی ہے‘ اس احساس کے ساتھ کہ یہ سب انسانی زندگی کا حصہ نہ بھی ہوں تو پاکستانی معاشرے کے روزمرہ کا حصہ ضرور ہیں۔ اب دل چاہتا ہے کہ دن ہنسی خوشی گزرے۔ کوئی ہنسانے کی بات ہو، موڈ خوشگوار رہے، ٹینشن پیدا نہ ہو۔ دنیا کے مسائل پہلے بھی تھے آئندہ بھی ہوں گے۔ ہمارے کہنے یا چاہنے سے انہوں نے ختم نہیں ہونا۔
بدھ مت کی تعلیمات میں سے ایک یہ ہے کہ ایک خاص عمر کے بعد جب آپ نے اپنی دنیاوی ذمہ داریاں پوری کر لی ہوں… یعنی ازدواجی زندگی پرانی ہو چکی ہو، بچوں سے فارغ ہوں، وہ اپنے اپنے کاموں پہ لگے ہوں… تو پھر آدمی کو فقیروں کا کشکول لیے لمبے راستے پہ نکل پڑنا چاہیے۔ دنیاوی رغبتوں سے دور، کبھی پڑاؤ ایک خانقاہ پہ اور پھر سفر کا شروع کرنا کسی اور ٹھکانے کیلئے۔ یہ دل میں آرزو ہی رہی ہے‘ کبھی ہمت نہیں پڑی اس پہ عمل کرنے کی‘ لیکن یہ خیال تڑپ کی مانند دل میں موجود ضرور ہے۔ ایک تو پرابلم یہ ہے کہ ہم نے بیشتر خانقاہوں کا برا حال کر دیا ہے۔ دیگر تو جو بھی مسائل پاکستانی قوم کے ہوں گے ایک ذوق کی کمی ہے۔ جس خانقاہ پہ محکمہ اوقاف کا سایہ پڑے وہ تو سمجھیے تباہی کی طرف چل پڑی۔ محکمے کا تعمیر و مرمت کا ایسا تصور ہے کہ جب تک جگہ کا حلیہ بگڑ نہ جائے چین نہیں آتا۔ وہی بے ڈھنگی سی ٹائلیں، اور پھر کہیں کہیں سنگ مرمر کا فضول استعمال۔ پرانے زمانے کا مزار برّی امام اتنا دلکش ہوا کرتا تھا، کچے راستے، بوہڑ اور پیپل کے درخت، ماحول سارا درویشانہ۔ پھر تعمیر نو کے نام پہ محکمے نے وہ ساری پرانی کیفیت بدل کے رکھ دی۔ اللہ کی طرف سے ہی انہیں کوئی ہدایت آئے، اور کسی کی انہوں نے سننی نہیں۔ لہٰذا سفر پہ نکلیں بھی تو منہ کس طرف کریں۔ کس مقام کو اپنی منزل مقصود سمجھیں؟
بہت چیزوں سے اب ہم فارغ ہو چکے۔ اب جی کرتا ہے کہ کسی دن سیہون شریف کی طرف نکل پڑیں اور وہاں سے کوئٹہ ہوتے ہوئے بلوچستان کے بارڈر پہ جا پہنچیں اور پھر ایران کا سفر باندھیں۔ اتنے دیکھنے کے مقامات ہیں۔ اکثر کے بارے میں پڑھا ہی ہے لیکن اب اپنی خلوت گاہ سے نکلنا چاہیے۔ ایک ہی رسالہ ہے جو باہر سے میرے گھر آتا ہے، ‘نیو یارک ریویو آف بُکس‘ (New York Review of Books)۔ اِس کے آخری صفحے پہ ذاتی قسم کے پیغامات درج ہوتے ہیں۔ میں ان پیغامات کو پڑھ کے حیران ہو جاتا ہوں۔ کوئی 80 سالہ شخص ہوتے ہیں جو دوستی کی فرمائش کرتے ہیں اور پھر یہ بھی لکھتے ہیں کہ دوستی اس لئے کہ ہم یورپ کی سیر کر سکیں، بڑے عجائب گھروں کو دیکھ سکیں اور کنسرٹ ہالوں میں جا کے اونچے پائے کی موسیقی سن سکیں۔ خواتین جن کی عمریں ستر، پچہتر سے زائد ہوتی ہیں‘ دوستی کی فرمائش کرتی ہیں سیر سپاٹے اور دنیا گھومنے کیلئے۔ یہ صرف میں اس لئے درج کر رہا ہوں کہ ہمارے ہاں انسان کی عمر تھوڑی بڑی ہوتی جائے تو وہ ہاتھ دھو کے بیٹھ جاتا ہے۔ جسے ہم سپرٹ آف ایڈونچر (spirit of adventure) کہتے ہیں وہ ہم میں بہت کم ہے۔ دیگر قومیں ہیں جن میں یہ تڑپ بہت زیادہ ہے۔ آخری دم تک زندگی کے بارے میں تجسّس قائم رہتا ہے۔ میری مثال ہی لے لیجیے، کہہ رہا ہوں کہ سیہون شریف جانا چاہتا ہوں۔ کسی اور دیش کا باسی ہوتا تو شاید میری خواہش بھی ہوتی کہ اس عمر میں بھی کوئی ساتھی ملے جس کے ساتھ نئی اُمنگوں کے ساتھ دنیا کی سیر کریں۔ ہمارے اکثر لوگوں کی مار دوبئی یا لندن جیسے مقامات تک ہوتی ہے۔ دوسروں کے قصّے پڑیں تو حیرانی طاری ہو جاتی ہے کہ اُن میں کیسی آرزوؤں کا طوفان ہے جو اکثر ہم میں نہیں دیکھنے کو ملتا۔
دنیا ایک طرف رہی، پاکستان میں بہت کچھ دیکھنے کو ہے؛ البتہ یہ درست ہے کہ اکیلے سفر کرنے کا کوئی خاص مزہ نہیں۔ قدرت کا نظام ہے کہ جوڑی میں ہو تو سفر اچھا کٹتا ہے۔ بہرحال ہر انسان کی اپنی زندگی ہوتی ہے اور مسائل بھی الگ ہوتے ہیں۔ اکیلے میں بھی سفر پہ نکلا جا سکتا ہے لیکن اُس کی ایک بنیادی شرط ہے کہ وسائل بہت زیادہ نہیں تو کم از کم مناسب ضرور ہوں۔ جوانی میں کمر پہ ایک بیگ باندھ کے آپ دنیا کی سیر کو نکل سکتے ہیں لیکن عمر تھوڑی بڑی ہو تو پھر کچھ اپنے آرام کا سوچنا عقل مندی کے تقاضوں میں سے ایک ہے۔ ہوٹل بہت اونچے درجے کے نہ سہی لیکن مناسب تو ہوں۔ کھانا پینا بھی آپ اپنی مرضی کا کر سکیں۔ اتنی دنیا دیکھنے کو ہے اور ہم اس میں سے کچھ بھی نہ دیکھ سکے۔ سوال جواب اس بارے میں بھی ہو گا کہ ہم نے تمہیں دنیا میں بھیجا اس لئے تو نہیں کہ اپنا وقت برباد کرو۔ بہرحال یہ فقہی باتیں ہیں جن کی دسترس ہم نہیں رکھتے۔
میری بات پہ یہ اعتراض ضرور اُٹھایا جا سکتا ہے کہ یہاں لوگ روٹی کو ترس رہے ہیں اور تم یہ سیر سپاٹے کی فضول باتیں کر رہے ہو۔ اعتراض درست ہے، ہمارے ہاں ایسی صورت حال ہے لیکن کیا کیا جائے، زندگی کا دستور ہی ایسا ہے۔ برابری کا نعرہ بہت ہی بھلا لگتا ہے لیکن انسانی تاریخ میں برابری نام کی چیز کبھی پیدا نہیں ہوئی۔ انسانی معاشرہ اتنا پرانا بھی نہیں ہے لیکن اس کی تاریخ کا ہمیں جتنا ادراک ہے کوئی ایسا زمانہ نہیں آیا جس میں برابری کی حقیقت نظر آتی ہو۔ اس بحث میں پڑنا ہی فضول ہے۔ جو انسان کر سکتا ہے وہ کرے۔ جیسے ہم کہتے ہیں کہ وسائل ہوں تو حج پہ جانا چاہیے یہی اصول یہاں بھی کارفرما ہے کہ وسائل ہوں تو دنیا کی سیر کو نکلنا چاہیے۔
ایک اور خیال بھی ذہن نشین رہے کہ عمر ایک حد سے لمبی ہو جائے تو ظاہراً سب کچھ ٹھیک نظر آتا بھی ہو لیکن پہلی عمر کی توانائی نہیں رہتی۔ وہ کیا پنجابی کا محاورہ ہے کہ اَنج پران میں جان ہو تو چیزوں کا تب ہی مزا آتا ہے۔ قدم لڑکھڑا رہے ہوں تو کیا خاک سیر کی تمنا رہ جاتی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ عمر کا خزانہ محدود ہوتا ہے۔ آرزوئیں دل میں ہوں تو انہیں پوری کرنے کی کوشش کرنی چاہیے‘ ورنہ پتہ بھی نہیں چلتا اور غروبِ آفتاب ہو جاتا ہے۔