مغلیہ سلطنت کے بارے میں مشہور ہے کہ وہاں ہمیشہ ایک فارسی کہاوت عام ہوا کرتی تھی ‘یا تخت یا تابوت’۔
اگر ہم مغلیہ تاریخ کے صفحات کو پلٹ کر دیکھی تو ہمیں معلوم ہوگا کہ مغل بادشاہ شاہ جہاں نے نہ صرف اپنے دو بھائیوں خسرو اور شہریار کی موت کا حکم دیا تھا ، بلکہ سنہ 1628 میں تخت سنبھالنے کے بعد اپنے دو بھتیجوں اور چچا زاد بھائیوں کو بھی ہلاک کروا دیا تھا۔
یہ روایت شاہ جہاں کے بعد بھی برقرار رہی ان کے بیٹے اورنگزیب نے اپنے اپنے بڑے بھائی داراشکوہ کا سر قلم کروا کر ہندوستان کے تخت پر قبضہ کیا تھا۔
شاہ جہاں کے بڑے بیٹے داراشکوہ کی شخصیت کیسی تھی۔
میں نے یہی سوال حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ‘داراشکوہ ، دی مین ہو ووڈ بی کِنگ’ کے مصنف ، ایوک چندا کے سامنے رکھا۔
اویک کا کہنا تھا داراشکوہ کی شخصیت انتہائی کثیر الجہتی اور پیچیدہ تھی۔ ایک طرف وہ ایک بہت ہی پرجوش انسان، ایک مفکر، باصلاحیت شاعر، سکالر ، ایک اعلی درجے کے صوفی اور فنون لطیفہ کا علم رکھنے والے شہزادے تھے لیکن دوسری طرف انہیں انتظامیہ اور فوجی امور میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ فطرتی طور پر نرم مزاج تھا اور لوگوں کی شناخت کے بارے میں ان کی سمجھ بہت محدود تھی۔
شاہ جہاں نے دارالشکوہ کو فوجی کارروائیوں سے دوررکھا
دارا شاہجہاں کو اتنے پیارے تھے کہ وہ اپنے ولی عہد کو فوجی کارروائیوں میں بھیجنے سے ہمیشہ ہچکچاتے رہتے تھے اور انھیں اسے ہمیشہ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے دربار میں رکھا کرتے تھے۔
تاہم شاہ جہاں کو اورنگزیب کو فوجی مہموں پر بھیجنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں تھی، حالانکہ اس وقت ان کی عمر محض سولہ سال ہی تھی جب اورنگزیب نے جنوب میں ایک بڑی فوجی مہم کی رہنمائی کی تھی۔
اسی طرح مراد بخش کو گجرات بھیجا گیا اور شاہ شجاع کو بنگال کی طرف روانہ کیا گیا لیکن بادشاہ کا سب سے زیادہ پیارا بیٹا دارا دربار میں ہی رہا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دارا نہ تو جنگ کا سامنا کر رہے تھے اور نہ ہی سیاست کا۔
وہ دارا کو اپنا جانشین بنانے کے لیے اس حد تک تیار تھے کہ ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کیا اور انہیں ‘شاہِ بلند اقبال’ کا لقب دیا اور اعلان کیا کہ ان کے بعد وہ ہندوستان کے تخت پر بیٹھیں گے۔
شہزادے کی شکل میں ، دارا کو شاہی خزانے سے ایک سے دو لاکھ روپے کی رقم دی گئی جبکہ انھیں ایک ہزار روپے یومیہ الاؤنس بھی دیا جاتا تھا۔
ہاتھیوں کی لڑائی میں اورنگ زیب کی بہادری
28 مئی 1633 کو ایک بہت ہی ڈرامائی واقعہ رونما ہوا جس کا اثر کئی سالوں بعد ظاہر ہوا۔
شاہ جہاں کو ہاتھیوں کی لڑائی دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ دو ہاتھیوں سدھاکر اور سورت سندر کے درمیان لڑائی دیکھنے بالکونی سے نیچے آئے۔
جنگ میں سورت سندرہاتھی نے میدان چھوڑ کر بھاگنا شروع کیا اور سدھاکر غصے میں اس کے پیچھے دوڑا۔ تماشا دیکھنے والے لوگ گھبراہٹ میں ادھر ادھر بھاگنے لگے۔
ہاتھی نے اورنگزیب پر حملہ کیا۔ گھوڑے پر سوار 14 سالہ اورنگ زیب نے اپنے گھوڑے کو بھاگنے سے روکا اور جب ہاتھی اس کے قریب آیا تو اس نے اپنا نیزہ اس کے ماتھے پر دے مارا۔
اسی دوران کچھ فوجی بھاگ کر وہاں پہنچ گئے اور شاہ جہاں کے گرد گھیرا بنا دیا۔ ہاتھی کوخوفزدہ کرنے کے لیے پٹاخے چھوڑے گئے تھے ، لیکن ہاتھی نے اپنی سونڈ سے اورنگزیب کا گھوڑا گرا دیا۔
اورنگزیب گرنے سے پہلے ہی اس پر کود پڑا اور ہاتھی سے لڑنے کے لیے اپنی تلوار نکالی۔ تب شہزادے شجاع پیچھے سے آئے اور ہاتھی پر حملہ کیا۔
ہاتھی نے ان کے گھوڑے کو اتنی زور سے مارا کہ شجاع بھی گھوڑے سے نیچے گر گیا۔ تب راجہ جسونت سنگھ اور وہاں موجود بہت سارے شاہی فوجی اپنے گھوڑوں پر وہاں پہنچ گئے۔ چاروں طرف شور مچانے کے بعد ، سدھاکر وہاں سے بھاگ گیا۔ اورنگزیب کو بعد میں شہنشاہ کے سامنے لایا گیا۔ اس نے اپنے بیٹے کو گلے لگا لیا۔
ایوک چندا کہتے ہیں کہ بعد میں ایک جلسہ منعقد کیا گیا جس میں اورنگزیب کو بہادر کا لقب دیا گیا۔ انھیں سونے میں تولا گیا اور یہ سونا انھیں انعام میں ملا تھا۔
اس پورے واقعے کے دوران داراشکوہ وہیں موجود تھے لیکن انھوں نے ہاتھیوں پر قابو پانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔
مورخ رعنا صفوی کا کہنا ہے کہ ’دارا جائے وقوع سے کچھ فاصلے پر تھا۔ وہ چاہتا تو بھی فورا وہاں نہیں پہنچ سکتا تھا سو یہ کہنا غلط ہو گا کہ وہ جان بوجھ کر پیچھے رہا جس سے اورنگزیب کو داد سمیٹنے کا موقع ملا۔`
مغل تاریخ کی سب سے مہنگی شادی
نادرہ بانو کے ساتھ دارا شکوہ کی شادی مغل تاریخ کی سب سے مہنگی شادی کہی جاتی ہے۔
پیٹر مینڈی نے جو اس وقت انگلینڈ سے ہندوستان کے دورے پر آئے تھے، اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ اس وقت اس شادی پر 32 لاکھ روپے خرچ ہوئے تھے ، جن میں سے 16 لاکھ روپے دارا کی بڑی بہن جہاں آرا بیگم نے دیے تھے۔
ایوک چندا نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ‘دارا سب کو پیارے تھے شہنشاہ کے بھی اور اپنی بڑی بہن جہاں آرا کو بھی عزیز تھے۔ اس وقت ان کی والدہ ممتاز محل کا انتقال ہو گیا تھا اور شاہ جہاں اپنی بیگم کی وفات کے بعد پہلی بار کسی تقریب میں شریک ہو رہے تھے۔
’یہ شادی یکم فروری 1633 کو ہوئی تھی اور دعوت آٹھ فروری تک جاری رہی، دن رات آتش بازی جاری رہی۔ کہا جاتا ہے کہ شادی کے دن پہنے گئے دلہن کے جوڑے کی قیمت ہی آٹھ لاکھ روپے تھی۔‘
دارا نے قندھار پر چڑھائی کی
دارا شکوہ کی عوامی شبیہ کمزور سپاہی اور نااہل منتظم کی سی تو تھی لیکن ایسا نہیں ہے کہ انھوں نے کبھی بھی جنگ میں حصہ نہیں لیا۔
قندھار کی مہم میں ، وہ خود ہی اپنی پہل پر لڑنے گئے تھے لیکن انھیں وہاں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
اویک چندا نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ‘جب اورنگزیب قندھار سے ناکام ہو کر واپس آیا تو دارا شکوہ نے اپنے آپ کو اس مہم کی قیادت کے لیے پیش کیا اور شاہجہاں اس پر راضی ہو گئے۔
دارا 70 ہزار جوانوں کی فوج لے کر لاہور پہنچ گئے۔ انہوں نے 110 مسلمان اور 58 راجپوت جنگجو تیار کیے۔ اس فوج میں 230 ہاتھی، 6000 زمین کھودنے والے ، 500 بہشتی اور بہت سے جادوگر اور ہر طرح کے مولانا اور سادھو شامل تھے۔
اپنے سپہ سالاروں سے مشورے لینے کے بجائے ، دارا نے ان تانترکوں اور مولویوں سے مشورے کر کے حملے کے دن کا فیصلہ کیا۔ دارا نے ان لوگوں پر بہت زیادہ رقم خرچ کی۔
دوسری طرف افغان فوجیوں نے ایک بہت مضبوط دفاعی منصوبہ بنایا اور ‘کافی عرصے تک محاصرہ کرنے کے بعد بھی دارا کو ناکامی ہوئی اور انھیں خالی ہاتھ دہلی لوٹنا پڑا۔‘
شاہ جہاں کی علالت کے بعد جانشینی کی جنگ میں اورنگ زیب بھاری پڑ گیا
اگر پاکستان کے ڈرامہ نگار شاہد ندیم کی بات کو تسلیم کیا جائے تو اورنگزیب کے ہاتھوں دارا کی شکست نے ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم کا بیج بو دیا تھا۔
اس جنگ میں اورنگ زیب ایک بڑے ہاتھی پر سوار تھا۔ ان کے پیچھے تیر کمان سے لیس 15000 سوار تھے۔ اس کے دائیں طرف اس کا بیٹا سلطان محمد اور سوتیلے بھائی میر بابا تھے۔
سلطان محمد کے ساتھ نجاوت خان کا ایک دستہ تھا۔ اس کے علاوہ ، مزید 15000 فوجی مراد بخش کی کمان میں تھے۔ اورنگ زیب لمبے ہاتھی پر بھی بیٹھا تھا۔
اویک چند کہتے ہیں ‘ابتدا میں دونوں افواج کے درمیان مقابلے کی ٹکر ہوئی ۔ لیکن پھر اورنگ زیب نے حقیقی قائدانہ صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔
اس نے اپنے ہاتھی کی چاروں ٹانگوں کو زنجیروں سے باندھوا لیا تاکہ وہ نہ تو وہ نہ آگے جا سکے اور نہ پیچھے پھر اس نے چیخ کر کہا ، ’مردانِ دلاوران بہادر! وقت مقرر’ یعنی بہادروں اپنی جانبازی دکھانے کا وقت آگیا۔ انھوں نے اپنے ہاتھ اوپر کی طرف اٹھائے اور اونچی آواز میں کہا ، ‘یا خدا! یا خدا! میں ہارنے سے بہتر مرنے کو ترجیح دوں گا’۔
دارا کو ہاتھی چھوڑنے پر مجبور کیا گیا
اویک چند نے مزید کہا ‘اس کے بعد خلیل اللہ خان نے دارا سے کہا کہ آپ جیت رہے ہیں۔ لیکن آپ لمبے ہاتھی پر کیوں بیٹھے ہوئے ہیں؟ آپ خود کو کیوں خطرہ میں ڈال رہے ہیں؟ اگر ایک تیر بھی آپ کو چھو گیا تو کیا ہو گا آپ ہاتھی سے نیچے اتریں اور گھوڑے پر سوار ہو کر لڑائی کریں۔
’دارا ہاتھی سے اتر گئے اور جب ان کے فوجیوں نے ان کا ہاتھی خالی دیکھا تو افواہیں پھیلنے لگیں اور انھیں شک ہوا کہ کہیں دارا پکڑے تو نہیں گئے یا لڑائی میں ان کی موت تو نہیں ہو گئی۔ فوجی گھبرا کر پیچھے ہٹنے لگے اور اسی دوران اورنگزیب کی فوج انھیں روند ڈالا۔‘
اطالوی مورخ نکولا منوچی نے اپنی کتاب ‘اسٹوریہ ڈو موگور’ میں اس لڑائی کو بہت عمدہ انداز میں بیان کیا ہے۔
منوچی لکھتے ہیں ،’دارا کی فوج کے پاس پیشہ ور فوجی نہیں تھے۔ ان میں سے بہت سے یا تو نائی تھے یا قصاب یا عام مزدور تھے۔ دارا نے دھوئیں کے بادلوں کے بیچ اپنے گھوڑے کو آگے بڑھایا۔ بہادر دکھائی دینے کی کوشش کرتے ہوئے ، اس نے حکم دیا کہ نقارے بجتے رہیں۔ اس نے دیکھا کہ دشمن ابھی کچھ فاصلے پر تھا اس کی طرف سے نہ تو کوئی حملہ ہوا ہے اور نہ ہی فائرنگ ہوئی ہے۔ دارا اپنے فوجیوں کے ساتھ آگے بڑھتا چلا گیا۔
’جونھی وہ اورنگزیب کے لشکر کے پاس آیا، اورنگزیب کی فوج نے توپوں اور اونٹوں پر سوار بندوقوں برداروں کی مدد سے نے ان پر حملہ کردیا۔
دارا اور اس کے سپاہی اس اچانک حملے کے لیے تیار نہیں تھے۔ منوچی مزید لکھتے ہیں ’جب اورنگ زیب کی فوج کے گولوں نے دارا کے سپاہیوں کے سر اور دھڑ اڑانے شروع کیے تو دارا نے حکم دیا کہ اورنگ زیب کی توپوں کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے ان کی توپوں کو بھی آگے لایا جائے لیکن یہ جان کر ان کے پیروں تلے زمین کھسک گئی کہ آگے بڑھنے کے چکر میں ان کی فوجیوں نے اپنی توپیں پیچھے چھوڑ دی ہیں۔‘
چوروں کی طرح آگرہ کے قلعے تک پہنچے
مشہور مورخ جدوناتھ سرکار نے اورنگزیب کی سوانح عمری میں اس جنگ میں دارا کی شکست کو بھی بیان کیا ہے۔
سرکار لکھتے ہیں ‘گھوڑے پر چار پانچ میل بھاگنے کے بعد ، دارا شکوہ تھوڑا سا آرام کرنے کے لیے ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا۔ اگرچہ اورنگزیب کے سپاہی اس کے پیچھے نہیں آ رہے تھے لیکن جب بھی دارا اپنی گردن پیچھے کی جانب موڑتے انہیں اورنگ زیب کے سپاہیوں کے ڈھول کی آوازیں سنائی دیتیں ۔
ایک وقت وہ اپنے سر پر پہنے خود کو کھولنا چاہتا تھا کیونکہ وہ اس کی پیشانی کی کھال کو کاٹ رہا تھا لیکن اس کے ہاتھ اتنے تھکے ہوئے تھے کہ وہ انھیں اپنے سر تک نہیں لے جا پا رہا تھا’۔
سرکار نے مزید لکھا ہے ’رات نو بجے کے قریب ، دارا کچھ گھڑسواروں کے ساتھ چوروں کی طرح قلعہ آگرہ کے مرکزی دروازے پر پہنچا۔ ان کے گھوڑے بری طرح تھک چکے تھے اور ان کے فوجیوں کے ہاتھوں میں مشعلیں نہیں تھیں۔ شہر میں اس طرح خاموشی چھائی ہوئی تھی جیسے کوئی ماتم ہو رہا ہو۔ ایک لفظ کہے بغیر دارا اپنے گھوڑے سے اتر کر اپنے گھر میں داخل ہوا اور دروازہ بند کر دیا۔
’دارا شکوہ مغل بادشاہت کی جنگ ہار چکے تھے۔‘
ایک چھوٹے ہاتھی پر بٹھا کر دہلی کی سڑکوں پر گھما گیا
آگرہ سے فرار ہونے کے بعد ، دارا پہلے دہلی اور پھر پنجاب اور پھر افغانستان چلا گیا۔
وہاں ملک جیون نے انہیں دھوکے سے اورنگ زیب کے سرداروں کے حوالے کردیا۔ انہیں دہلی لایا گیا تھا اور نہایت بے عزتی کے ساتھ دہلی کی سڑکوں پر گھومایا گیا۔
دارا آگرہ اور دہلی کے لوگوں میں بہت مقبول تھے۔ دارا کو بےعزت کر کے دلی کی سڑکوں پر گھما کر اورنگ زیب یہ بتانا چاہتا تھا کہ وہ صرف لوگوں کی محبت کی وجہ سے ہندوستان کا بادشاہ بننے کا خواب نہیں دیکھ سکتا ۔
فرانسیسی مورخ فرانسواں برنیئر نے اپنی کتاب ‘ٹریولز ان مغل انڈیا’ میں ، دارا کی اس عوامی تذلیل کو ایک انتہائی مایوس کن انداز میں بیان کیا۔
برنیئر لکھتے ہیں ‘دارا ایک چھوٹے ہاتھی کی پشت پر ایک بیٹھا تھا۔ اس کے پیچھے اس کا 14 سالہ بیٹا سپہر شکوہ ایک اور ہاتھی پر سوار تھا۔ اورنگ زیب کا غلام نذربیگ ننگی تلوار لے کر ان کے پیچھے چل رہا تھا۔ اسے حکم دیا گیا تھا کہ اگر دارا بھاگنے کی کوشش کرتا ہے یا کوئی اسے بچانے کی کوشش کرتا ہے تو فوری طور پر اس کا سر قلم کر دیا جائے۔
دنیا کے سب سے امیر شاہی گھرانے کا وارث پھٹے ہوئے کپڑوں میں اپنی ہی عوام کے سامنے بےعزت ہو رہا تھا۔ اس کے سر پر ایک بدصورت سا صافہ بندھا ہوا تھا اور اس کی گردن میں نہ تو کوئی زیورات تھے اور نہ ہی کوئی جواہرات۔
برنیئر مزید لکھتے ہیں ‘دارا کے پاؤں زنجیروں میں بندھے ہوئے تھے ، لیکن اس کے ہاتھ آزاد تھے۔ اگست کی چلچلاتی دھوپ میں انھیں دہلی کی سڑکوں پر چلایا گیا جہاں ان کی طوطی بولتا تھا۔ اس دوران انھوں نے ایک بار بھی اپنی نظریں نہیں اٹھائیں۔ ان کی اس حالت کو دیکھ کر دونوں طرف کھڑے لوگوں کی آنکھیں بھر آئیں۔
ایک شال ایک بھکاری کی طرف پھینک دی گئی
ایوک چندا نے بتایا کہ ایک بھکاری بھاری آواز میں کہہ رہا تھا ،اے دارا ایک زمانے میں آپ اس زمین کے مالک ہوا کرتے تھے۔ جب آپ اس سڑک سے گزرتے تھے تو آپ مجھے کچھ دیتے تھے۔ آج آپ کے پاسں دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ یہ سن کر دارا نے اپنے کندھوں کی طرف ہاتھ بڑھایا اور شال کھینچ کر بھکاری کی طرف پھینک دی۔ اس واقعے کے چشم دید گواہوں نے یہ کہانی شہنشاہ اورنگزیب کو سنائی۔
پریڈ ختم ہوئی تو دارا اور اس کے بیٹے سپہر کو خیر آباد کے جیلروں کے حوالے کر دیا گیا۔
سر قلم کیا گیا
اس کے ایک دن بعد اورنگزیب کی عدالت میں فیصلہ ہوا کہ دارا شکوہ کو سزائے موت دی جائے۔ ان پر توہینِ اسلام کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ اورنگزیب نے 4000 گھڑ سواروں کو دہلی سے باہر جانے کا حکم دیا اور جان بوجھ کر یہ افواہیں پھیلائیں کہ دارا کو گوالیار کی ایک جیل میں لے جایا جا رہا ہے۔
اسی شام اورنگزیب نے نذر بیگ کو بلایا اور کہا کہ وہ دارا شکوہ کا کٹا ہوا سر دیکھنا چاہتا ہے۔
ایوک چند نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ’نذر بیگ اور اس کے ملازم، مقبول ، محرم ، اور فتح بہادر خنجر لے کر خضرآباد کے محل میں گئے جہاں دارا اور اس کا بیٹا کھانے کے لیے اپنے ہاتھوں سے دال بنا رہے تھے ، کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ ان کے کھانے میں زہر بھی ملایا جا سکتا ہے۔
’بیگ نے اعلان کیا کہ وہ دارا کے بیٹے کو لینے آیا ہے۔ سپہر رونے لگا اور دارا نے اپنے بیٹے کو سینے سے لگا لیا مگر نذر بیگ اور اس کے ساتھی زبردستی سپہر کو دوسرے دوسرے کمرے میں لے گئے۔
دارا کو اندازہ ہو چکا تھا کہ نذر بیگ کی آمد کا مقصد کیا ہے۔ ایوک چند کے مطابق ‘دارا نے پہلے ہی اپنے تکیے میں ایک چھوٹی چھری چھپا رکھی تھی۔ انھوں نے چاقو نکال کر نذر بیگ کے ایک ساتھی پر بھرپور وار کیا لیکن ان لوگوں نے دارا کے دونوں ہاتھ پکڑ لیے اور گھٹنوں کے بل بیٹھا کر ان کا سر زمین پر رکھا ساتھ ہی نذر بیگ نے اپنی تلوار سے دارا کے سر کو دھڑ سے جدا کر دیا۔‘
اورنگزیب کے سامنے دارا شکوہ کا سر پیش کیا گیا
جب دارا شکوہ کا سر اورنگزیب کے سامنے لایا گیا تو اس وقت وہ اپنے قلعے کے باغ میں بیٹھا ہوا تھا۔ سر دیکھنے کے بعد اورنگزیب نے حکم دیا کہ اسے دھو کر اس کے سامنے ایک سینی میں رکھ کر پیش کیا جائے۔
ایوک چند نے وضاحت کی ہے اس موقع پر مشعلیں اور لالٹینیں لائی گئیں تاکہ اورنگزیب اپنی آنکھوں سے دیکھ سکے کہ یہ سر اس کے بھائی کا ہے۔
اگلے دن یعنی 31 اگست 1659 کو ، اس نے حکم دیا کہ دارا کے سر سے جدا ہوا دھڑ ہاتھی پر رکھ دیا جائے اور ایک بار پھراسے دہلی کے انھی راستوں پر گھمایا جائے جہاں دارا کو زندہ گھمایا گیا تھا۔
یہ دلخراش منظر دیکھ کر لوگوں حیران رہ گئے اور عورتیں گھر کے اندر جا کر رونے لگیں۔ دارا کے سر کٹے دھڑ کو ہمایوں کے مقبرے کے صحن میں دفنا دیا گیا۔
اورنگ زیب نے شاہ جہاں کا دل توڑا
اطالوی مورخ نکولا منوچی نے اپنی کتاب اسٹوریہ ڈو موگور میں لکھا ، عالمگیر نے شاہ جہاں کو ایک خط بھیجا جس پر لکھا گیا تھا کہ اورنگزیب ، آپ کا بیٹا تحفے میں آپ کے لیے یہ طشتری بھیجتا ہے جسے دیکھنے کے بعد، آپ اسے کبھی بھی نہیں بھول پائیں گے۔
پھر شاجہاں کے سامنے ایک ڈھکی ہوئی طشتری پیش کی گئی۔ جب شاہ جہاں نے طشتری پر سے کپڑا اٹھایا تو اس کی چیخ نکل گئی کیونکہ اس میں ان کے لاڈلے بیٹے دارا کا کٹا ہوا سر تھا۔
منوچی مزید لکھتے ہیں اس منظر کو دیکھ کر وہاں موجود خواتین نے آہ و زاری اور ماتم شروع کر دیا اور اپنے زیورات نوچ ڈالے۔ اس واقعے کے بعد شاہ جہاں کی طبعیت اتنی بگڑی کہ انھیں وہاں سے منتقل ہونا پڑا۔
دارا کی باقی لاش کو ہمایوں کی قبر میں دفن کیا گیا تھا لیکن اورنگ زیب کے کہنے پر دارا کا سر تاج محل کے صحن میں دفن کر دیا گیا۔
اورنگزیب کا خیال تھا کہ جب بھی شاہجہاں کی نظریں اپنی بیگم کے مقبرے پر پڑیں گی تو ساتھ ہی انھیں یہ خیال بھی آئے کہ ان کے سب سے بڑے بیٹے کا سر بھی وہاں ہے۔