وفاقی حکومت نے فلم ساز سرمد کھوسٹ کی آنے والی فلم ’زندگی تماشا‘ کی ریلیز کو روکتے ہوئے فلم کا دوبارہ جائزہ لینے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل سے رابطہ کرنے کا اعلان کردیا۔
وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے ٹوئٹ میں بتایا کہ ’مرکزی فلم سنسر بورڈ نے “زندگی تماشا” کا تنقیدی جائزہ لینے کے لیے فوری طور پر اسلامی نظریاتی کونسل سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ فلم بورڈ کی جانب سے فلم کا دوبارہ جائزہ لینے کے بعد ’زندگی تماشا‘ کے پروڈیوسر کو فلم کو ریلیز نہ کرنے کی ہدایات بھی جاری کردی گئیں۔
فردوس عاشق اعوان کے مطابق ’زندگی تماشا‘ کی ٹیم کو فی الحال فلم کی ریلیز مؤخر کرنےکی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔
انہوں نےٹوئٹ میں اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ فلم سینسر بورڈ اور اسلامی نظریاتی کونسل کب تک ’زندگی تماشا‘ کا تنقیدی جائرہ لیں گے تاہم انہوں نے تصدیق کی کہ فی الحال سرمد کھوسٹ کی فلم کو ریلیز نہ کرنے کی ہدایات جاری کردی گئیں۔
وفاقی فلم سینسر بورڈ سے قبل صوبہ پنجاب اور سندھ کی حکومتوں نے بھی ’زندگی تماشا‘ کی ریلیز کو روک دیا تھا۔
وفاقی فلم سینسر بورڈز اور دونوں صوبائی فلم سینسر بورڈز کی جانب سے یہ فیصلہ ایک ایسے روز آیا ہے جب کہ سرمد کھوسٹ نے اپنی فلم کے خلاف ہونے والے مظاہروں اور اسے روکنے کے خلاف تنظیم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے خلاف لاہور کی سول کورٹ میں درخواست دائر کی۔
سرمد کھوسٹ نے لاہور کی سول کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں عدالت کو بتایا کہ تحریک لبیک پاکستان نے ان کی فلم کی ریلیز روکنے کی کال دے دی ہے اور مذکورہ تنظیم کے کارکنان ان کے خلاف مسلسل مظاہرے کر رہے ہیں۔
فلم ساز نے عدالت میں دائر کی گئی درخواست میں یہ بھی کہا تھا کہ انہیں دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور ان کی فلم پر غلط الزامات لگائے جا رہے ہیں جب کہ ان کی فلم کسی بھی انفرادی شخص یا کسی بھی تنظیم یا فرقے کے خلاف نہیں ہے بلکہ ان کی فلم معاشرے کو بہتر بنانے کے موضوع پر بنائی گئی ہے۔
فلم ساز نے دائر کی گئی درخواست میں عدالت سے استدعا کی تھی کہ ان کی فلم کے خلاف ہونے والے مظاہروں کو روکا جائے جس پر عدالت نے تمام فریقین سے 22 جنوری تک جواب طلب کیا تھا تاہم اب خبر سامنے آئی ہے کہ پنجاب حکومت نے سرمد کھوسٹ کی فلم کو ریلیز کرنے سے روک دیا۔
پنجاب کے محکمہ اطلاعات نے فلم ساز سرمد کھوسٹ کو ایک نوٹس جاری کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ وہ 24 جنوری کو ’زندگی تماشا‘ کو ریلیز نہ کریں اور صوبائی حکومت کی جائزہ ٹیم کو فلم دکھانے کا انتظام کرے۔
صوبائی حکومت کے مطابق جائزہ کمیٹی ’زندگی تماشا‘ کا دوبارہ جائزہ لے کر اسے ریلیز کرنے یا نہ کرنے سے متعلق فیصلہ سنائے گی تاہم تب تک فلم کو سینما گھروں میں ریلیز نہ کیا جائے۔
صوبائی حکومت کے مطابق فلم سے متعلق محکمے کو متعدد شکایات موصول ہوئی تھیں اور ان شکایات کے پیش نظر ہی فلم کا دوبارہ جائزہ لیا جا رہا ہے۔
صوبائی حکومت نے فلم ساز کو ہدایت کی کہ وہ آئندہ ماہ 3 فروری کو صوبائی جائزہ کمیٹی کو ’زندگی تماشا‘ دکھانے کا بندوبست کرے۔
پنجاب حکومت کی جانب سے فلم کی نمائش روکے جانے کے بعد اب ’زندگی تماشا‘ کو لاہور سمیت پنجاب کے کسی بھی شہر میں ریلیز نہیں کیا جا سکے گا۔
پنجاب کی طرح سندھ حکومت نے بھی ’زندگی تماشا‘ کو ریلیز نہ کرنے کے احکامات جاری کردیے۔
سندھ فلم سینسر بورڈ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ فلم کے متنازع مواد سے متعلق کئی شکایات موصول ہوئی تھیں اور سینسر بورڈ سمجھتا ہے کہ فلم کا مواد دوسروں کے لیے تنگ دل کا باعث بن سکتا ہے اس لیے فلم کی ٹیم کو تجویز دی جاتی ہے کہ وہ ’زندگی تماشا‘ کو ریلیز نہ کرے۔
ساتھ ہی سندھ حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ سینسر فلم بورڈ کے دیگر احکامات تک فلم کو سینما گھروں میں ریلیز نہ کیا جائے۔
وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے فلم کی نمائش روکے جانے کے احکامات سے قبل فلم ساز نے بتایا تھا کہ ان کی فلم کو پاکستان کے مرکزی فلم سینسر بورڈ نے کلیئر قرار دے کر نمائش کا سرٹیفکیٹ جاری کر رکھا ہے۔
’زندگی تماشا‘ پر مذہبی افراد کو غلط انداز میں پیش کرنے کا الزام لگایا جا رہا ہے جب کہ فلم ساز ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ فلم کی کہانی ’ایک اچھے مولوی کے گرد گھومتی ہے اور فلم میں کسی بھی انفرادی شخص، کسی فرقے یا مذہب کی غلط ترجمانی نہیں کی گئی‘۔
سرمد کھوسٹ نے بھی سوشل میڈیا پر بتایا تھا کہ انہیں فلم کی ریلیز روکنے کے لیے دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور عین ممکن ہے کہ وہ دھمکیوں کی وجہ سے فلم کو ریلیز نہ کرے تاہم شوبز شخصیات نے ان کی حمایت کی تھی اور انہیں کہا تھا کہ وہ ہرحال میں فلم کو ریلیز کرے۔
’زندگی تماشا‘ کو 24 جنوری کو ملک بھر میں ریلیز کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔