Site icon DUNYA PAKISTAN

تصوف اور گٹر

Share

زندگی تضادات کے ساتھ ثمر بار نہیں ہوتی۔ حکمران، آج کے ہوں یا کل کے، اس بات کو کبھی سمجھ نہیں پائے۔ وہ تضادات کے ساتھ نباہ چاہتے ہیں۔ اور اگر اس کے ساتھ انہیںنرگسیت کا آسیب بھی چمٹ جائے تو پھر حکمرانی کے وہ مظاہر سامنے آتے ہیں جو ہم اِن دنوں دیکھ رہے ہیں۔
خان صاحب نے ایک ساتھ دو طرح کی ہدایات دیں۔ ایک اعلیٰ تعلیم کے کمیشن کو اور دوسری سوشل میڈیا کی ٹیم کو۔ کمیشن سے کہا کہ تصوف کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا جا ئے۔ سوشل میڈیا ٹیم کو ہدایت دی کہ خاتونِ اول پر لفظی حملہ کرنے والوں کو نہ چھوڑا جائے۔ ان کی معلومات میں یہ اضافہ بھی ضروری سمجھا کہ رانا ثنااللہ جیسے لوگ گٹر سے اٹھے ہیں۔ اب کوئی بڑے سے بڑا منطقی مجھے تصوف اور گٹر میں تطبیق پیدا کرکے دکھا دے۔
نرگسیت یہ ہے کہ وہ تصوف کو نہیں جانتے اور اس زعم میں مبتلا ہیں کہ جانتے ہیں۔ ان کی روحانیت اور تصوف کے فہم پر میں ایک سے زائد بار لکھ چکا ہوں۔ اس بحث میں پڑے بغیر، میں اگر حسنِ ظن سے کام لوں تو کہہ سکتا ہوں کہ انہوں نے تصوف کو اخلاقی تعلیم کے استعارے کے طور پر لیا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اخلاقیات کی تعلیم کو شاملِ نصاب کیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ وہ اپنی سوشل ٹیم کو جو ہدایت نامہ جاری کر رہے ہیں، کیا اس میں اخلاقیات کا کہیں گزر ہے؟ جس طرح وہ سمجھتے ہیں کہ ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کے بغیر ریاست مدینہ بن جاتی ہے، اسی طرح ان کا خیال ہے کہ وہ تو سیاسی مخالفین کو گٹر کی پیداوار کہتے رہیں لیکن تعلیمی اداروں میں تصوف پڑھانے سے معاشرہ پاکیزہ بن جائے گا۔
تحریکِ انصاف کی سوشل میڈیا مہم جوئی سے جس کا واسطہ پڑا ہے، وہ جانتا ہے کہ اس کوچے سے اخلاقیات کی بادِ نسیم کبھی نہیںگزری۔ میں اگر صرف آپ بیتی لکھوں تو شاید نقل کا حوصلہ بھی نہ کر پاؤں۔ میں خان صاحب کا حریف نہیں ہوں۔ ان کا ایک ناقابلِ ذکر ناقد ہوں۔ میرے ساتھ اگر یہ معاملہ ہے تو اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ ان کی سوشل ٹیم ان کے حریفوں کے ساتھ کیا کچھ کرتی ہو گی۔
خان صاحب کا کہنا یہ بھی تھا کہ ان کی ٹیم نے کلثوم نواز مرحومہ کے خلاف ایک لفظ نہیں کہا۔ مریم نواز چونکہ سیاست میں ہیں، اس لیے ان کا معاملہ دوسرا ہے۔ اب کلثوم نواز صاحبہ کے بارے میں کیا کچھ کہا گیا، اس سے صرفِ نظر کرتے ہوئے، ان کی بات کا مفہوم یہ ہے کہ مریم کو ہدف بنانا جائز ہے کیونکہ وہ سیاست میں ہیں اور خود سوشل میڈیا ٹیم چلاتی ہیں۔ کیا تصوف بھی یہی کہتا ہے کہ جو سیاسی حریف ہو، اس کے بارے میں کچھ بھی کہا جا سکتا ہے؟
تصوف کے فلسفیانہ پہلو کو ایک طرف رکھتے ہوئے، اگر ہم سماجی حوالے سے دیکھیں تو صوفی کے مزاج میں انتقام نہیں ہوتا۔ وہ ایسے کو تیسا کے فلسفے پر یقین نہیں رکھتا۔ وہ یک طرفہ طور پر اخلاق کا عَلم لہرانے کا قائل ہوتا ہے۔ درگزر اس کی تربیت کے ابتدائی اسباق میں شامل ہے۔ جو اپنی ذات سے بلند نہیں ہو سکتا، وہ صوفی کبھی نہیں بن سکتا۔ نرگسیت صوفی کو چھو کر نہیں گزرتی۔ وہ خود کو گلی کا تنکا یا درزی کی لیراں (کتریں) سمجھتا ہے۔ صوفی تو مخالفین کو گٹر کی پیداوار کہنے کا تصور نہیں کر سکتا۔ جن نوجوانوں کو خان صاحب ایک سیاسی معرکے کے لیے تیار کر رہے ہیں اور ساتھ ہی چاہتے ہیں کہ انہیں تصوف پڑھایا جائے، وہ آخر اس گفتگو سے کیا سیکھیں گے؟ خان صاحب کا تصوف یا سلطان باہو کا تصوف؟
واقعہ یہ ہے کہ صوفی اور سیاست دان کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ صوفی کا کوئی حریف نہیں ہوتا یا وہ کسی کو حریف نہیں سمجھتا۔ سیاست دان کے حریف ہوتے ہیں اور وہ انہیں حریف سمجھتا بھی ہے۔ صوفی کا مفاد نہیں ہوتا۔ سیاست دان کا مفاد ہوتا ہے۔ صوفی کا مزاج جارحانہ نہیں ہوتا کہ اسے کسی کو شکست نہیں دینا ہوتی۔ سیاست دان کا مزاج جارحانہ ہوتا ہے کہ وہ دوسروں پر فتح پانا چاہتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ سیاست دان کبھی صوفی نہیں ہو سکتا لیکن اس کے باوجود سیاست دان کا بھی اخلاقی وجود ہوتا ہے۔ اس کا تعلق تصوف سے نہیں، اس کی اپنی آخرت سے ہے۔
سیاست دان صوفی نہ سہی لیکن اسے جھوٹ بھی نہیں بولنا چاہیے۔ اسے کوئی بات بغیر تحقیق نہیں کہنی چاہیے۔ اسے مخالفین پر نہ تو جھوٹے الزامات لگانے چاہئیں‘ نہ ہی جھوٹ پھیلانے کی ترغیب دینی چاہیے۔ اسے اخلاقیات پر مفاہمت نہیں کرنی چاہیے۔ اسے حکومت میں آ کر مخالفین کے خلاف جھوٹے مقدمات نہیں بنانے چاہئیں۔ اسے جماعتی اور حکومتی مناصب کے لیے ان لوگوں کا انتخاب کرنا چاہیے جو اخلاق میں اچھے ہوں۔
عمران خان صاحب کو یہی بات سوشل میڈیا ٹیم سے کہنی چاہیے تھی۔ نوجوانوں کو تلقین کرنی چاہیے تھی کہ کیسے انہیں سیاسی مخالفین کے سامنے اپنے اخلاقی وجود کا دفاع کرنا ہے۔ اگر ان کی دانست میں ان کے خلاف جھوٹ پھیلایا جاتا ہے تو اخلاقیات کو سامنے رکھتے ہوئے، اس کا سدِ باب کیسے کرنا ہے۔ اپنی اخلاقی برتری کیسے قائم رکھنی ہے۔ جھوٹے الزامات سے کیسے گریز کرنا ہے۔ کیوں گالی نہیں دینی؟
افسوس کہ خان صاحب نے اپنی میڈیا ٹیم کو کوئی ایسی ہدایت نہیں دی۔ واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے کبھی اس بات کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا کہ وہ سیاست میں اخلاقیات کو ضروری سمجھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی صفوں سے ایسے لوگوں کو چن چن کر اپنا، اپنی جماعت کا اور حکومت کا ترجمان بنایا جن کی واحد وجۂ شہرت دریدہ دہنی ہے۔ اور پھر وہ خود اپنے مخالفین کے لیے جس لب و لہجے میں کلام کرتے ہیں، اس سے ان کا تصورِ اخلاق پوری طرح واضح ہو جاتا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ سیاست دانوں میں کم لوگ ہی اخلاقیات کو کوئی اہمیت دیتے ہیں۔ یہ تنقید اکثر پر صادق آتی ہے۔ خان صاحب کا معاملہ اس اعتبار سے مختلف ہے کہ وہ خود اور ان کے حامی انہیں دیانت اور اخلاق و کردار کا کوہ ہمالیہ بنا کر پیش کرتے ہیں۔ عملاً صورتِ حال یہ ہے کہ جب بھی انہیں اس کا عملی مظاہرہ کرنا پڑا، وہ مٹی کا ایک بے جان تودہ ہی ثابت ہوئے۔ انسان کے اخلاق کا اصل امتحان اس وقت ہوتا ہے جب وہ خوش ہو یا جب وہ غصے میں ہو۔ قوم نے دونوں طرح کے مواقع پر خان صاحب کو دیکھا ہے۔ اخلاقی عظمت تو دور کی بات، وہ کسی اخلاقی برتری کا مظاہرہ بھی نہیں کر سکے۔ سچ یہ ہے کہ نرگسیت کا پہلا ہدف انسان کا اخلاقی وجود ہوتا ہے۔ یہ عارضہ اسے مار دیتا ہے۔
لوگ لیڈر کی تقلید کرتے ہیں۔ وہ اگر خود اخلاق کا اعلیٰ نمونہ نہیں ہے تو پیروکاروں میں بھی اخلاقی حساسیت پیدا نہیں ہو سکتی۔ مولانا مودودی ساری زندگی الزامات کی زد میں رہے۔ یہ الزامات مذہبی تھے، سیاسی بھی اور ذاتی بھی۔ انہوں نے جواباً کسی پر کوئی الزام نہیں لگایا۔ یہی کہا کہ ان کی ایک ہی سزا ہے۔ مجھ پرجو الزامات لگائے جاتے ہیں، میں ان سے بچ کر جب اللہ کے حضور پہنچوں گا تو پھر دیکھوں گا کہ یہ وہاں کیا جواب دیتے ہیں۔ یہی میرا انتقام ہو گا۔ اپنی جماعت کے کارکنوں کو بھی انہوں نے نصیحت کی کہ وہ ان کی ذات کے دفاع میں اپنا وقت صرف نہ کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ میں اس سرزمین پر کوئی اجنبی آدمی نہیں ہوں۔ لوگ مجھے جانتے ہیں۔ کارکنوں کو اپنا وقت اپنی اصل مشن کو دینا چاہیے جو ان کے نزدیک اسلامی انقلاب تھا۔
خان صاحب سے ایسے بلند اخلاق کی توقع شاید نہ کی جا سکے لیکن اپنی سوشل میڈیا ٹیم کو وہ یہ ہدایات تو دے سکتے تھے کہ مخالفین کو گالی نہ دیں۔ ان پر جھوٹے الزامات نہ لگائیں۔ وہ تو یہ بھی نہیں کر سکے۔ یہ نوجوان تصوف تو معلوم نہیں کب پڑھیں لیکن اپنے لیڈر سے انہوں نے یہ سن لیا کہ رانا ثنااللہ جیسے لوگ گٹرکی پیداوارہیں۔ اب یہ ان نوجوانوں پر ہے کہ وہ تصوف اور گٹر میں کیسے تطبیق پیدا کرتے ہیں۔

Exit mobile version