منتخب تحریریں

چینی‘ گندم‘ آٹا اور بزدار صاحب کا مستقبل

Share

قلم اٹھایا تو سوچا کہ چودھریوں کی متوقع لاٹری کے بارے میں کچھ ہو جائے ‘مگر پھر سوچا کہ جس طرح موجودہ صورت ِ حال میں چودھری صبر کر کے بیٹھے ہوئے ہیں‘ میں بھی اس موضوع پر دو چار دن صبر کروں اور آج آٹے کے بحران اور شوگر مافیا کی تاریخی لوٹ مار پر تھوڑی روشنی ڈالوں۔ چودھریوں کے بارے میں دو چار دن بعد سہی۔
مفرور اسحاق ڈار کے ”فنانشل فراڈیے‘‘ ہونے میں نہ تو مجھے کوئی شک ہے اور نہ ہی شبہ؛ تاہم میرے لیے یہ امر بھی باعث حیرت ہے کہ ہر خرابی کا ملبہ گزشتہ حکومت پر ڈالنے کے خبط میں مبتلا طبلچی برگیڈ نے آٹے اور چینی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کا ملبہ گزشتہ حکومت پر نہیں ڈالا؛ حالانکہ وہ یہ کہہ سکتے تھے کہ اعداد میں ہیر پھیر کے ماہر اور جعلسازی میں یدِ طولیٰ رکھنے والے اسحاق ڈار نے ڈالر کی طرح چینی اور آٹے کی قیمتوں کو بھی مصنوعی طریقے سے گزشتہ کئی سال سے ایک جگہ منجمد کر کے رکھا ہوا تھا اور ان کے اس اقتصادی فراڈ کے باعث کسان اور عوام برباد ہو رہے تھے۔ مجبوراً موجودہ حکومت نے آٹے اور چینی کی مصنوعی طور پر منجمد رکھی اور قیمتوں کو مارکیٹ میں اوپن چھوڑ دیا اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کی مانند چینی اور آٹے کی قیمتیں اپنی حقیقی مارکیٹ پرائس کے مطابق آ گئی ہیں۔ آپ اسے آٹے اور چینی کی ”ڈی ویلیوایشن‘‘ کہہ سکتے ہیں اور اس کا ذمہ دار مفرور اسحاق ڈار ہے۔ موجودہ حکومت کو یہ سارے مسائل ورثے میں ملے ہیں۔
آٹے اور چینی کی قیمتیں دیکھتے ہی دیکھتے تقریباً دوگنا ہو گئی ہیں۔ چینی پینتالیس روپے فی کلوگرام تھی‘ جو پرچون میں اب پچھتر روپے سے اوپر چلی گئی ہے اور آٹا چالیس بیالیس روپے کلو تھا اور وہ بھی آج کل پچھتر روپے فی کلوگرام سے کم نہیں ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ چینی اور آٹا‘ دونوں گزشتہ سیزن‘ یعنی سال 2019ء کے پیدا شدہ ہیں اور ذخیرہ اندوزوں اور ملوں کے گوداموں میں پڑے پڑے دو گنا قیمت کے ہو گئے ہیں‘ یعنی ان کی لاگت وہی جن پر چینی تیار ہوئی اور گندم خریدی گئی‘ پھر نہ ہینگ لگا اور نہ پھٹکڑی اور رنگ ایسا چوکھا چڑھا کہ کل عالم دیکھ رہا ہے اور انگشت بدنداں ہے۔
گزشتہ سال میں تیار ہونے والی چینی گنے کی فصل 2018-19ء سے تیار ہوئی تھی۔ تب گنے کی فی من قیمت 190 روپے تھی اور اس خرید کردہ گنے سے تیار ہونے والی چینی 2019ء میں مارکیٹ میں آئی تو اس کی خوردہ قیمت پینتالیس روپے فی کلوگرام تھی۔ گزشتہ سال چینی کی ملکی پیداوار تقریباً 6.7 ملین میٹرک ٹن تھی۔ یہ پیداوار ملکی ضروریات کے لیے کافی سے زیادہ تھی‘ یعنی سپلائی اور ڈیمانڈ متوازن تھی۔ اگر سپلائی تھوڑی ہو اور ڈیمانڈ زیادہ ہو تو یہ ایک عالمی اقتصادی کلیہ ہے کہ پھر قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے اور اگر صورت ِ حال اس کے الٹ ہو تو قیمتوں میں کمی آ جاتی ہے‘ لیکن اگر سپلائی اور ڈیمانڈ متوازن ہو اور کوئی غیر معمولی صورتحال پیش نہ آئے‘ تو قیمتیں مستحکم رہتی ہیں۔ اس کلیے کو مدِ نظر رکھیں تو چینی کی قیمتیں 2019ء میں مستحکم رہنی چاہیے تھی‘ لیکن ایسا نہ ہوا اور عوام کی جیبوں سے اربوں روپے بٹور لیے گئے۔ اس کی صرف اور صر ف ایک وجہ تھی اور وہ یہ کہ قیمتیں حکومت نے مستحکم رکھنی ہوتی ہیں اور حکومت میں زوردار لوگ وہ تھے جو چینی کے کاروبار سے منسلک تھے‘ بلکہ صرف ایک شخص ایسا ہے‘ جو پورے ملک میں چینی کی کل پیداوار کے بیس فیصد کا مالک و مختار ہے۔ اب ایسی صورت میں چینی کی قیمتوں کو کون کنٹرول کرتا؟ نتیجہ یہ نکلا کہ گھر میں پڑی ہوئی چینی پر ایک کم سے کم والے اندازے کے مطابق ‘یعنی صرف آدھی چینی پر پینتیس روپے فی کلوگرام کے اضافی منافع کے حساب سے ایک سو بیس ارب روپے سے زیادہ کا کھانچہ لگایا گیا۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں چینی کی صنعت میںکسی ایک سیزن میں مارا جانے والا سب سے بڑا ڈاکہ ہے۔
گندم اور آٹے کے ساتھ کیا ہوا؟ چلیں چینی تو کم کی جا سکتی ہے‘ لیکن اس آٹے کا کیا کریں؟ گندم ہماری بنیادی خوراک ہے‘ بلکہ حقیقت تو یہ ہے گندم ہم غریبوں کی بنیادی خوراک ہے۔ امیر لوگ چائنیز‘ فاسٹ فوڈ از قسم پیزا‘ برگر‘ پانینی‘ پاستہ‘ سینڈوچ‘ ٹاکو‘ سلاد‘ نوڈلز‘ فرائیڈ چکن‘ ناچوز‘ ہیش برائونز‘ نگٹس‘ میشڈ پوٹیٹوز‘ فرنچ فرائیز‘ کوکیز‘ بیکڈ پوٹیٹوز‘ لازانیا اور اسی قبیل کی ستر چیزیں کھا پی لیتے ہیں۔ انہیں گندم اور آٹے کی قیمت سے نہ تو سروکار ہے اور نہ ہی کوئی فکر ہے۔ شوگر مافیا نے جب ایک سو بیس ارب روپے کا ہاتھ مارا تو فلور ملز مافیا نے بھی انگڑائی لی اور 2019ء کے مئی میں 1300 سو روپے من خریدی گئی گندم کو آٹا بنانے کے دوران منافع خوری کا عالمی ریکارڈ بنا لیا۔
2019ء میں جب پنجاب میں گندم کی خریداری شروع ہوئی تو گندم کی حکومتی امدادی قیمت 1300 روپے فی من تھی‘ اسی دوران مکئی کی فصل بھی مارکیٹ میں آ گئی۔ مکئی کی فصل کافی حد تک خراب ہو گئی تھی‘ لہٰذا مکئی کی کمی بھی ہوئی اور فصل لیٹ بھی ہوئی۔ فیڈز ملز نے مکئی کی کمی اور قیمت میں اضافے کے پیش ِنظر فیڈ میں مکئی کی جگہ گندم ڈالنے کیلئے خریداری تیز کر دی۔ تھوڑے ہی دنوں میں وہی سپلائی اینڈ ڈیمانڈ کی صورت ِ حال کے طفیل گندم کی قیمت 1400 روپے فی من تک پہنچ گئی۔ تب تک حکومت پنجاب کے فوڈ ڈیپارٹمنٹ نے صرف تھوڑی سی گندم ہی خریدی تھی‘ بلکہ اگر تاریخوں کے حوالے سے بات کریں تو پنجاب حکومت نے محکمہ خوراک کے ذریعے 2 مئی 2019ء کو خریداری شروع کی۔ تب سیکرٹری خوراک نسیم صادق تھے۔ تیز رفتاری سے کام کرنے کی صلاحیت والے متحرک سیکرٹری خوراک نے تیزی سے خریداری شروع کی‘ مگر صورت ِ حال زیادہ خوش کن نہ تھی۔ 2 مئی 2019ء کو نسیم صادق نے خدشہ ظاہر کیا کہ محکمہ خوراک پنجاب شاید اٹھارہ لاکھ ٹن سے زیادہ گندم نہ خرید سکے؛ تاہم چیف سیکرٹری یوسف نسیم کھوکھر نے صوبے بھر کی انتظامیہ کو متحرک کیا اور محکمہ خوراک کے بالکل غیر متوقع طور پر تینتیس لاکھ ٹن سے زیادہ گندم خرید کر لی۔ گزشتہ سال کے سٹاک سے تقریباً سولہ لاکھ ٹن گندم گوداموں میں تھی ‘اس طرح گندم کے کل ذخائر پچاس لاکھ ٹن کے لگ بھگ ہو گئے ‘جو صوبے کی سال بھر کی ضرورت کیلئے کافی تھے۔
دوسری طرف سندھ میں عجب بد انتظامی دیکھنے میں آئی اور صوبائی محکمہ خوراک سندھ نے ایک کلو گندم بھی نہ خریدی کہ ان کے گوداموں میں کافی گندم موجود تھی‘ لیکن حقیقت میں یہ گندم صرف کاغذوں میں ہی موجود تھی اور حقیقت میں وہاں صرف بھوسے اور مٹی کی بوریاں تھیں۔ جب ضرورت پڑی تو گندم ندارد۔ ادھر پنجاب میں گندم تو موجود تھی ‘مگر زیادہ قیمت کے لالچ میں مافیا نے سٹاک شدہ گندم ادھر ادھر سمگل کر دی۔ نہ کسی نے توجہ دی اور نہ ہی نگرانی کی۔ سو ‘صورت ِ حال ادھر بھی دگرگوں ہو گئی۔ کے پی کے میں گندم کی کمی کو پورا کرنے کے لیے چیک پوسٹیں ختم کر کے سب کو کھلی چھوٹ دے دی گئی کہ وہاں پی ٹی آئی کی حکومت کی بدنامی ہو رہی تھی اور اسے روکنا مقصود تھا۔ کے پی کے والوں کی حیثیت حکومت میں بھی مضبوط ہے‘ پارٹی میں بھی اور عمران خان صاحب کے ہاں بھی۔ سو‘ کے پی کے کی حکومت کو بدنام ہونے سے بچانے کے لیے سب پابندیاں کسی منصوبہ بندی کے بغیر اٹھا لی گئیں۔ اس طرح کے پی کے حکومت کو بچانے کی قیمت پر پنجاب کا بیڑہ غرق کر دیا گیا۔ اوپر سے پنجاب کی حکومت نا اہلوں کا مجموعہ ہے۔ نتیجہ یہی نکلنا تھا‘ لہٰذا گندم خیبر پختونخوا اور پھر وہاں سے افغانستان جانا شروع ہو گئی۔ ادھر نام نہاد کمی کو بنیاد بنا کر سرکاری کوٹے سے کنٹرول ریٹ پر گندم حاصل کرنے والی فلور ملیں بھی وہی کچھ کرنے لگ گئیں ‘جو شوگر ملوں نے کیا تھا۔ پنجاب حکومت سوئی رہی۔ مسئلہ گندم کی کمی کا نہیں‘ انتظامی صلاحیتوں کی کمی کا تھا‘ جو بزدار صاحب میں سرے سے ہی موجود نہیں۔ آٹے کا بحران صرف اور صرف نا اہلی‘ نالائقی‘ لا علمی اور بد انتظامی کا نتیجہ تھا۔ بزدار صاحب نے فرمایا کہ ”کسی کو آٹے کی قیمت بڑھانے کی اجازت نہیں دی جائے گی‘‘۔ بندہ پوچھے آٹے کی قیمت بیالیس روپے سے پچھتر روپے کلو ہو گئی‘ کسی نے آپ سے پوچھا؟ اجازت لی؟ اپنے بزدار صاحب سے تو تحصیل تونسہ کا کوئی کلرک کسی کام کی اجازت نہ لے کجا کہ فلور ملز مالکان ان سے اجازت لیں۔ ویسے بھی اجازت وہ دیتا ہے‘ جس کے پاس اس کا اختیار ہو اور لوگ اجازت بھی اسی سے مانگتے ہیں ‘جس کے پاس روکنے کی طاقت ہو۔ اپنے بزدار صاحب کے پاس نہ اختیار ہے اور نہ طاقت‘نہ انتظامی صلاحیت ہے اور نہ ویژن۔ صوبہ حقیقتاً لا وارث ہے اور بیوروکریسی چلا رہی ہے۔ بیوروکریٹوں نے عوام کے سامنے جانا ہے اور نہ ہی ووٹ لینے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہو گا کہ سیکرٹری خوراک اگلی حکومت میں سیکرٹری انڈسٹریز ہو گا اور چیف سیکرٹری کسی دوسرے صوبے میں چیف سیکرٹری کے فرائض انجام دے رہا ہو گا۔ یہ بزدار صاحب کیا کر رہے ہوں گے؟ اگر اگلی بار وہ تحصیل ناظم تونسہ ٹرائیبل بھی دوبارہ منتخب ہو گئے تو بڑی بات ہو گی۔