Site icon DUNYA PAKISTAN

سیکس کی خواہش نہ ہو تو عورت کی زندگی کیسی ہوتی ہے؟

Share

ہنستی کھلکھلاتی اور سٹائلش کپڑے پہننے والی سندھیا اپنی عمر 40 برس بتاتی ہیں۔ اس بات پر پہلی بار میں تو یقین بھی نہیں ہوتا کیونکہ وہ دیکھنے میں اپنی عمر سے بہت کم لگتی ہیں۔

تو اس پر ہم اُن سے پوچھے بغیر نہ رہ سکے کہ ’آپ تو مشکل سے 30 کی لگتی ہیں، 40 برس کی بالکل بھی نہیں۔ اس کا راز کیا ہے؟

سندھیا مسکراتے ہوئے اس کا جواب دیتی ہیں۔ ’راز یہ ہے کہ نو بوائے فرینڈ، نو ہسبینڈ، نو فیملی اور نو فکر.‘

سندھیا بنسل ایک نامور کپمنی میں مارکیٹنگ پروفیشنل ہیں اور دلی کے ایک نواحی علاقے میں کرائے کے فلیٹ میں رہتی ہیں۔

اکیلے وہ اس لیے رہتی ہیں کیونکہ وہ خود کو ’اے سیکشوئل‘ بتاتی ہیں۔ انھوں نے شادی نہیں کی اور فیملی یا خاندان سے متعلق ان کے خیالات کافی مختلف ہیں۔

اے سیکشوئل ایسے لوگوں کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر کسی مرد یا عورت کے ساتھ کے جنسی طور پر کشش محسوس نہیں کرتے ہیں۔ کسی مرد یا عورت سے کشش محسوس کرنے کی طرح یہ بھی ایک طرح کا جنسی رجحان یا ’سیکشوئل اورینٹیشن‘ ہے۔

’شناخت کو خاندان پر ترجیح‘

سندھیا یہ نہیں چاہتیں کہ ان کی شناخت خاندان کے روایتی ڈھانچے میں گم ہو کر رہ جائے۔

انھیں ایسا نہیں لگتا کہ ایک خوش حال خاندان میں شوہر، بیوی اور بچوں کا ہونا لازمی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر شخص کے خاندان کا ایک منفرد تصور اور تعریف ہوتی ہے۔

سندھیا بتاتی ہیں ’23-24 برس کی عمر میں مجھے یہ احساس ہونے لگا کہ میرے بارے میں کچھ تو ہے جو دوسروں سے جدا ہے۔ اس وقت میری ہم عمر لڑکیوں کے بوائے فرینڈز بننے لگے تھیں۔ وہ لڑکوں کے ساتھ ڈیٹ کر رہی تھیں اور رشتے قائم کر رہی تھیں۔ لیکن میں ایسا کچھ بھی نہیں کررہی تھی۔‘

ایسا بھی نہیں تھا کہ سندھیا کو لڑکے بالکل ہی اچھے نہیں لگتے تھے۔

وہ بتاتی ہیں ’اس وقت ایک لڑکا مجھے کافی پسند تھا۔ مجھے اس کا ساتھ بہت اچھا لگتا تھا۔ ساتھ رہتے رہتے اس کی امیدیں بڑھنے لگیں اور میرے خیال سے وہ ایک نارمل سی بات تھی۔‘

’لیکن بات سیکس یا جنسی تعلق کی ہوئی تو میں ایک دم پریشان ہوگئی۔ مجھے ایسا لگا کہ میرا جسم یہ سب قبول نہیں کر سکتا ہے۔ مجھے لگا کہ جیسے مجھے سیکس کی ضرورت ہی نہیں تھی۔‘

ایسا نہیں تھا کہ سندھیا کے ذہن میں سیکس سے متعلق کوئی ڈر تھا۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ سیکس کے بغیر وہ اپنی زندگی میں کوئی کمی محسوس کرتی تھیں۔

اپنے جنسی رجحان کی شناخت کیسے کی؟

سندھیا بتاتی ہیں ’میں رشتوں میں رومانویت تلاش کرتی تھی اور اپنے رشتے کو اسی جذبات تک محدود رکھتی تھی۔ مجھے کسی کی طرف کبھی بھی جنسی کشش محسوس نہیں ہوتی تھی۔‘

’جس لڑکے سے مجھے محبت تھی مجھے اس کا ہاتھ پکڑ کر چلنا، اسے گلے لگانا، اس کے ساتھ وقت گزارنا اچھا لگتا تھا۔ سیکس یا جنسی تعلق کی بات آتے ہی مجھے الجھن محسوس ہونے لگتی تھی۔ میرا جسم ساتھ دینا بند کر دیتا تھا۔‘

سندھیا مزید بتاتی ہیں ’شروعات میں مجھے لگا کہ میرے ساتھ کوئی سنجیدہ مسئلہ ہے۔ اپنے رشتے ٹوٹنے کے لیے میں خود کو قصور وار قرار دینے لگی تھی۔‘

’لیکن جیسے جیسے میں نے اے سیکشوئل ہونے کے بارے میں پڑھا اور اسے بہتر طریقے سے سمجھنے لگی تو میں نے اپنے آپ کو جیسی ہوں ویسا ہی قبول کرنا شروع کردیا۔ دھیرے دھیرے میں سمجھ گئی کہ نہ تو مجھے کوئی بیماری ہے اور نہ ہی میں ابنارمل ہوں۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ ’سوشل میڈیا کے ذریعے میری ملاقات اپنے جیسے دوسرے لوگوں سے ہوئی۔ اس طرح مجھے اپنے جسم اور اپنے جنسی رجحان کے بارے میں بیداری حاصل ہوئی اور میں پُراعتماد محسوس کرنے لگی۔‘

کیا اس کے بعد انھوں نے اپنے لیے ہم سفر تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی؟

اس کے جواب میں سندھیا کہتی ہیں کہ ’اپنے تجربات سے میں یہ سمجھ چکی تھی کہ اگر میں کسی مرد کے ساتھ رشتہ قائم کرتی ہوں تو ایک وقت کے بعد اس کی امیدیں بڑھنے لگیں گی۔ اس درمیان میں اپنی جنسی شناخت سے متعلق کافی حساس ہو چکی تھی اور کسی بھی قیمت پر اس پر سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں تھی۔‘

’مجھے یہ بات سمجھ آچکی تھی کہ کوئی اے سیکشوئل لڑکا ہی میرا ساتھی بن سکتا ہے۔ اس لیے میں نے کسی اور لڑکے کو ڈیٹ کرنا بند کردیا اور ہم سفر کی تلاش بھی چھوڑ دی۔‘

سندھیا کو کس طرح کے خاندان کی خواہش ہے؟

اگر اے سیکشوئل برادری میں ان کی کسی شخص سے ملاقات ہوتی ہے تو کیا وہ ان کے ساتھ زندگی گزارنے کے بارے میں سوچ سکتی ہیں؟

اس بارے میں سندھیا کہتی ہیں کہ سوشل میڈیا پر انھیں اس طرح کے کئی لوگ ملے لیکن اصل زندگی میں کوئی نہیں ملا۔

سندھیا بتاتی ہیں ’بعض لوگ اے سیکشوئل ہوتے ہیں لیکن صحیح معلومات حاصل نہ ہونے کی وجہ سے وہ خود کو سمجھ نہیں پاتے۔ بعض افراد سماجی اور خاندانی دباؤ کی وجہ سے اپنے جنسی رجحان کو پوشیدہ ہی رکھتے ہیں اور اندر ہی اندر گھٹن کا شکار رہتے ہیں۔‘

سندھیا کا کہنا ہے کہ ان کی اے سیکشوئل کمیونیٹی میں اگر انھیں کوئی اچھا لڑکا ملتا ہے تو وہ ضرور اس کے بارے میں سوچیں گی۔

ایک اے سیکشوئل خاتون ہونے کے ناطے فیملی یا خاندان کیا معنی رکھتا ہے؟

اس کے جواب میں سندھیا کہتی ہیں ’ابھی تو میں اکیلی ہوں اور جہاں تک میرا خیال ہے کہ وہ آنے والے وقت میں بھی میں سنگل ہی رہوں گی. فی الحال میرے دوست، میری سہلیاں، اور میری بلڈنگ میں رہنے والی لڑکیاں ہی میرا خاندان ہیں۔‘

’ہم علیحدہ علیحدہ کمروں میں رہتے ہیں لیکن ہمارا ایک مشترکہ کچن ہے۔ ہم ملتے ہیں، بات چیت کرتے ہیں اور سکھ دکھ میں ایک دوسرے کے ساتھ ہوتے ہیں۔ میرے لیے یہی فیملی ہے۔ میں یہ نہیں چاہتی کہ خاندان مجھ پر اتنا حاوی ہو جائے کہ میری شناخت ہی گم ہوجائے۔‘

’اکیلے رہنے میں ڈر نہیں لگتا‘

سندھیا کو اگر ان کا پسندیدہ پارنٹر یا ہم سفر ملا تو وہ اس کے ساتھ رہنا چاہیں گی لیکن اس رشتے کی بعض حدود ہوں گی۔

وہ بتاتی ہیں ’خاندان کے لفظ سے میرے ذہن میں جو تصویر ابھرتی ہے اس میں، میں اور میرا ساتھی ساتھ ہوتے ہیں لیکن میرے پاس خود کے لیے بھی جگہ اور وقت ہوتا ہے۔‘

’میں سوچتی ہوں کہ ہم ایک گھر میں ساتھ رہیں لیکن ہمارے کمرے علیحدہ علیحدہ ہوں۔ ہمارا مشترکہ کچن ہو جہاں ہم ساتھ مل کر کھانا بنائیں۔ بھلے ہی ہم الگ الگ کمروں میں رہیں لیکن جب جذباتی طور پر ہمیں ایک دوسرے کی ضرورت ہو تو ہم ساتھ ہوں۔‘

ماں بننے اور بچوں کے بارے میں سوال پر سندھیا صاف صاف کہتی ہیں کہ ’مجھے دوسروں کے بچے اچھے لگتے ہیں۔ میں اپنی اولاد نہیں چاہتی۔ اور مجھے لگتا ہے کہ کسی بھی عورت کا بچوں کی خواہش نہ رکھنا اسے کم تر نہیں بناتا ہے۔‘

وہ مزید کہتی ہیں ’لوگ مجھ سے اکثر پوچھتے ہیں کہ آپ اکیلی رہو گی۔ بچے نہیں ہوں گے تو بڑھاپے میں آپ کا خیال کون رکھے گا؟ میرا سیدھا سا سوال ہے: کیا سبھی بزرگوں کی دیکھ بھال ان کے بچے کررہے ہیں؟ میں اپنے بڑھاپے کے لیے پیسے جمع کر رہی ہوں۔ سرمایہ کاری کررہی ہوں۔‘

’مجھے یہ بات معلوم ہے کہ میں اکیلی ہوں اور مجھے اپنا خیال خود رکھنا ہے۔ اس لیے میں اپنی صحت اور فٹنس پر دھیان دیتی ہوں۔ میں بہترین کھانا کھاتی ہوں۔ یوگا کرتی ہوں اور کوئی بھی فیصلہ کرتی ہوں تو بہت سوچ سمجھ کر کرتی ہوں”۔

سندھیا کے خاندان والے اور رشتے دار ان پر شادی کا دباؤ ڈالتے ہیں لیکن انھوں نے اس بارے میں صاف انکار کردیا ہے۔

’شادی نہ کرنے سے کچھ فرق نہیں پڑے گا‘

سندھیا بتاتی ہیں ’میری چھوٹی بہن کی بھی شادی ہوگئی ہے اس لیے مجھ پر شادی کرنے کا دباؤ زیادہ ہے۔ لیکن میں نے اب لوگوں کی نصیحت اور طعنوں کو سننا بند کردیا ہے۔‘

’میں اکیلی رہتی ہوں اور خود مختار ہوں۔ میں اکیلے لنچ اور ڈنر کرنے جاتی ہوں۔ اکیلے شوپنگ کے لیے جاتی ہوں۔ یہاں تک کہ بیمار ہونے پرکئی بار ڈاکٹر کے پاس میں بھی اکیلے ہی جاتی ہوں۔ مجھے ایسا نہیں لگتا کہ شادی زندگی کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ میرے خیال سے زندگی کی سب سے بڑی ضروریات ہیں اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کی آزادی اور ذہنی سکون۔‘

ان کے دفتر میں اور آس پاس کے لوگوں کا رویہ کیسا ہوتا ہے؟

اس بارے میں سندھیا بتاتی ہیں ’لوگوں کو یقین نہیں ہوتا کہ میں 40 برس کی عمر میں سنگل ہوں اور کسی کے ساتھ رشتے میں بھی نہیں ہوں۔ انھیں لگتا ہے کہ میں جھوٹ بول رہی ہوں۔ میرے کئے پارٹنر ہوں گے یا پھر مجھے کوئی بیماری ہے۔ لوگ میرے بارے میں باتیں کرتے ہیں لیکن اب میں ان کی باتوں پر دھیان نہیں دیتی ہوں۔‘

’میرے دوست بہت اچھے ہیں لیکن وہ بھی مجھے جیسی ہوں ویسے قبول نہیں کر پاتے۔ وہ میرے لیے فکرمند ہیں اور اکثر مجھے ڈاکٹر کے پاس جانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ لیکن میں ڈاکٹر کے پاس نہیں جاؤں گی کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ میرے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘

سماج کا ایک طبقہ ایسا ہے جسے یہ لگتا ہے کہ اگر ہم جنس، ٹرانس یا اے سیکشوئل افراد کے رشتوں کو قبولیت حاصل تو خاندان کا روایتی ڈھانچہ ہل جائے گا۔

اس بارے میں سندھیا کا کہنا ہے ’میں آپ کو بہت ہی آسان زبان میں سمجھانے کی کوشش کرتی ہوں۔ کسی بھی باغیچے میں ایک ہی رنگ کے پھول نہیں ہوتے۔ کوئی سرخ رنگ کا ہوتا ہے، کوئی زرد کوئی جامنی رنگ کا۔ اس لیے ہی باغیچہ خوبصورت لگتا ہے۔ اس طرح سے ہی مختلف طرح کے لوگوں سے ہماری دنیا خوبصورت بنتی ہے۔‘

سندھیا کہتی ہیں کہ دنیا کی آبادی اتنی بڑی ہے اور اس میں بعض لوگ شادی کرکے روایتی طور پر گھر نہیں بساتے ہیں اور بچے پیدا نہیں کرتے ہیں تو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔

Exit mobile version