سپریم کورٹ کے جج جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسی اور سندھ ہائی کورٹ جج کے کے آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں صدارتی ریفرنس سے متعلق اثاثوں کی برآمدگی کے ادارے کی تشکیل کا نوٹیفیکشن ہی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔
عمر عطا بندیال اس دس رکنی بینچ کے سربراہ ہیں جو ان ریفرینسز کی سماعت روکنے سے متعلق درخواستوں کی سماعت کر رہا ہے۔
انھوں نے یہ ریمارکس بدھ کو سماعت کے دوران سندھ بار کونسل کے وکیل رضا ربانی کے دلائل کے جواب میں دیے جن کا کہنا تھا کہ اثاثوں کی برآمدگی کے ادارے کی تشکیل غیرقانونی ہے۔
اثاثہ جات کی برآمدگی کا یونٹ وزیراعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی بیرسٹر شہزاد اکبر کی سربراہی میں تحریکِ انصاف کی حکومت کے دور میں تشکیل دیا گیا تھا اور جسٹس فائز عیسیٰ کے بیرونِ ملک اثاثوں کے بارے میں درخواست اسی یونٹ کو ملی تھی۔
واضح رہے کہ چند روز قبل قومی اسمبلی کے اجلاس میں یہ بتایا گیا تھا کہ اس ادارے نے ابھی تک ایک پیسہ بھی برآمد کر کے سرکاری خزانے میں جمع نہیں کروایا۔
سماعت کے دوران بینچ میں موجود جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر غیر قانونی طریقے سے اکھٹے کیے گئے شواہد کو تسلیم کر لیا گیا تو اس سے ہمیشہ کے لیے ایسے غیر قانونی اقدام کرنے کا دروازہ کھل جائے گا۔
جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ امور سلطنت بنانے کے لیے جو اصول و ضوابط بنائے جاتے ہیں اس کے ذریعے کئی محکمے تشکیل دیے جاتے ہیں جو کسی ڈویژن کے ماتحت ہوتے ہیں لیکن اس ادارے کی تشکیل کے لیے کوئی اصول وضع نہیں کیے گئے۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ کیبنٹ ڈویژن کی طرف سے اس ادارے کی تشکیل کا جو نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا ہے اس کے مطابق یہ ادارہ وفاقی حکومت کے ماتحت کسی بھی تفتیشی یا خفیہ ادارے کو کسی بھی شخص کے خلاف کارروائی کے لیے معلومات اکھٹی کرنے کے بارے میں ہدایات جاری کر سکتا ہے۔
رضا ربانی کا مزید کہنا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس کے کے آغا کے خلاف اسی ادارے نے تحقیقات کے لیے ایف آئی اے، ایف بی آر اور وفاقی حکومت کے ماتحت خفیہ اداروں کو ذمہ داری سونپی تھی۔
رضا ربانی جو سینیٹ کے چیئرمین بھی رہے ہیں، کا کہنا تھا کہ اس ادارے نے سپریم جوڈیشل کونسل کے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ان دو جج صاحبان کے خلاف تحقیقات کروائی ہیں اور ان کا یہ اقدام غیر قانونی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ’ان تحقیقات کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کا کردار محدود ہو گیا ہے۔‘
رضا ربانی نے دلائل دیتے ہوئے الزام عائد کیا کہ موجودہ حکمراں اتحاد میں شامل دو جماعتیں جن میں پاکستان تحریک انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ شامل ہیں، ان دونوں ججز کے بارے میں جانبدارانہ رویہ رکھتی ہیں اور ان کی یہ اقدام بدنیتی پر مبنی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے گذشتہ برس فروری میں فیض آباد دھرنے کے بارے میں ازخود نوٹس پر جو فیصلہ دیا تھا اس سے پاکستان تحریک انصاف خوش نہیں ہے۔
دوسری جانب سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا نے کراچی میں 12 مئی سنہ2007 کے واقعے سے متعلق فیصلہ دیا جس سے ایم کیو ایم کے کردار پر سوال اٹھائے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتحار محمد چوہدری وکلا تنظیموں سے خطاب کرنے کے لیے کراچی گئے تھے کہ اس دوران تشدد کے واقعات میں متعدد وکلا کو زندہ جلا دیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ کے دس رکنی بینچ کے سربراہ نے رضا ربانی سے استفسار کیا کہ وہ ایم کیو ایم کے بارے میں یہ بات کیسے کہہ سکتے ہیں اور کیا وہ یہ بات کسی ثبوت کی بنیاد پر کر رہے ہیں یا اندازے کی بنیاد پر کہہ رہے ہیں؟
سندھ بار کونسل کے وکیل کا کہنا تھا کہ اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ پہلے اس واقعہ کے خلاف سماعت کرنے کے لیے بینچ ہی تشکیل نہیں دینے دیے گئے اور اس کے بعد اگر بینچ تشکیل پا گئے تو ان کی سماعت نہیں ہونے دی گئی کیونکہ ایم کیو ایم کے کارکنوں نے عدالت کا گھیراؤ کر رکھا تھا۔
رضا ربانی کا کہنا تھا کہ جب اس واقعہ سے متعلق عدالتی کارروائی شروع ہوئی تھی تو سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جو اس وقت جج نہیں تھے، اس مقدمے میں بطور عدالتی معاون بھی پیش ہوتے رہے ہیں۔
سندھ ہائی کورٹ بار اور کراچی بار ایسوسی ایشن کے وکیل رشید اے رضوی نے کہا کہ اثاثوں کی برآمدگی کے ادارے کی کوئی قانونی حثیت نہیں ہے۔
بینچ میں موجود جسٹس منیب اختر نے سوال اٹھایا کہ سلطنت کے امور چیف ایگزیکٹیو یعنی وزیر اعظم چلاتے ہیں اور ان کے پاس قانونی اختیار بھی ہوتا ہے اس لیے وہ چاہیں تو کسی بھی ادارے کی تشکیل کر سکتے ہیں۔
رشید اے رضوی نے کہا کہ کسی بھی جج کے خلاف تحقیقات کرنے کا اختیار سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس ہے اور اگر یہ کونسل چاہے تو کسی بھی ادارے کو اپنی معاونت کے لیے طلب کر سکتی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ وزیر اعظم یا کوئی وزیر کسی بھی جج کے خلاف شکایت کنندہ تو بن سکتے ہیں لیکن ان کے پاس کسی جج کے خلاف تحقیقات کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
سندھ ہائی کورٹ بار کے وکیل نے ان درخواستوں کی سماعت کرنے والے دس رکنی بینچ کے سامنے سوال رکھا کہ کیا صدر اعلی عدلیہ کے ججز کے خلاف ملنے والی ہر شکایت کو سپریم جوڈیشل کونسل میں بھجوا سکتا ہے جس کا بینچ میں موجود تمام ججز نے جواب نفی میں دیا۔
جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ صدر مملکت کے پاس یہ صوابدیدی اختیار ہے کہ وہ کسی بھی شکایت کا جائزہ لے کر اسے سپریم جوڈیشل کونسل میں بھجوا سکتے ہیں۔
ان درخواستوں کی سماعت 27 جنوری تک ملتوی کر دی گئی۔